عدلیہ سے سوال؟

      عدلیہ سے سوال؟
      عدلیہ سے سوال؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بیسویں صدی عیسوی میں برطانوی آمریت کا سورج غروب ہونے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ برصغیر کے عوام نے برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا، تحریک نے زور پکڑا۔ مسلمان عوام کی علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد کامیاب ہوئی۔لیکن سامراجی وتیرے کے مطابق بیرونی قوتوں کی مداخلت کا جوازاور علاقے میں خلفشار اور بدامنی کی مثال برصغیر کی نامکمل تقسیم کا برطانوی ایجنڈا کشمیر ایشو نامکمل چھوڑ دیا گیا۔اسی طرح عرب ممالک میں سامراجی قوتوں برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک نے سرزمین فلسطین پرغاصبہ صیہونی ریاست اسرائیل کو بنایا اور آج تک اس کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے 1948ء سے اب تک آگ اور خون کا میدان گرم ہے۔دونوں سازشوں کا شکار مسلمان عوام ہوئے۔

1947ء سے مملکت خدادا دپاکستان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ آزادی کشمیر کا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کئی جنگوں کا سامنا کر چکا ہے اس ابتری کی حالت میں ہمیں اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔حقیقت ہے کہ ہماری پوری توجہ کشمیر پر ہونے کی وجہ سے ہمارا فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ہمارے عسکری ادارے مضبوط اور سول حکومتیں کمزور رہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت ہمارے سیاسی رہبر بھی کوئی زیادہ سیاسی بصیرت رکھنے والے نہیں اور بین الاقوامی سازشوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے میں ناکام رہے۔

 1958ء میں فوجی طالع آزما جنرل ایوب خان مارشل لا کے گھوڑے پر سوار ہو کر نوزائیدہ مملکت پاکستان کے1956ء کے آئین کومعطل کرکے حکومت پر قابض ہو گیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ فوجی آمریت کے لبادے میں جنرل ایوب خان نے خود ساختہ صدارتی منصب رکھنے کے نام پر خودکو فیلڈ مارشل لاء کے عہدے پر ترقی بھی دے دی اور کئی سال تک عوام اور عوامی نمائندوں کو اقتدار سے دور رکھا۔ جب ملکی اقتدار کا بیڑا ڈگمگا رہا تھا تو اس نے جنرل یحییٰ کو اقتدار سونپ دیا ہے۔ ملک میں آئین پاکستان کو توڑ کر مارشل لاء_ کو جاری رکھا گیا۔بعدازاں پاکستان دولخت ہو گیا۔ جب جنرل یحیی ٰخان اقتدار سے محروم ہو کر موت کی آغوش میں گیا تو آئین اور ملک توڑنے والے کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ عوام میں آئین اور جمہوریت کا شعور بڑھ رہا تھا تو جنرل ضیاء الحق نے ملک پر قبضہ کیا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے”اسلامائزیشن“ کا نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ 17 اگست 1988ء کو فضائی حادثے میں وہ بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہیں اسلام آباد کی فیصل مسجد کے باہر پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد جنرل پرویز مشرف فوجی آمریت کا جھنڈا لہراتے ہوئے ایوان اقتدار میں داخل ہو گئے اور آئین کے بارے میں انتہائی نامناسب الفاظ سے نوازتے رہے آخر وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے اور انہیں بھی قومی پرچم میں لپیٹ کر فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔

میں حیرت زدہ ہوں کہ پاکستان کے دانشور اور صاحب بصیرت افراد، جو اس معاشرے کا اہم ستون سمجھے جاتے ہیں،نے بھی اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی،کوئی ایسا رد عمل سامنے نہیں آیا کہ آئین اور ملک کو توڑنے والوں کو کچھ سزا دی جاتی۔اقتدار کی ہوس میں لالچی جرنیلوں نے ایک عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔صدر مملکت کے ریفرنس پر بھٹو قتل کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی سامنے آچکا ہے۔اب کہاجا سکتا ہے کہ عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو آمریت کے دباؤ میں آ کر پھانسی پر لٹکایا۔کافی عرصے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے عدالت میں ریفرنس بھیجا۔ اس کے فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کیس مناسب طریقے سے سماعت نہیں ہوا۔ قانونی تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو غیر قانونی طور پرتختہ دار پر لٹکایا گیا۔

 میں مطالبے کی صورت میں چند گزارشات آج کی سپریم کورٹ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ: آپ نے کیوں ایسے فیصلے نہیں کیے کہ جس کی وجہ سے فوجی مداخلت اور آئین کی معطلی بند ہو جاتی۔

چیف جسٹس صاحب سے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ نے فوجی دباؤ میں قائد عوام کو سزائے موت دینے والے ججوں کے بارے میں کوئی ریمارکس نہیں دئیے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ فیصلہ غلط تھا تو اس وقت کی جوڈیشری کو بھی عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے،چاہے اس میں جسٹس مولوی مشتاق ہوں، جسٹس انوار الحق یا نسیم حسن شاہ۔ ان کے لئے کچھ تو سزا تجویز کریں۔

جن ججوں نے کبھی بھی مارشل لا کی حمایت کی ہویا اس کو تحفظ دیا ہو۔اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات کوبند کیا جائے۔ ان طرح ان کی چیف جسٹس کی حیثیت سے ہوں یا جج کے طور پر ان کی تصاویر عدالتوں سے ہٹائی جائیں۔

 قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف کاپہلا مارشل لا لگانے والے جنرل ایوب کی پھانسی کامطالبہ عوامی خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے لیکن اگر پھر بھی کوئی مشکلات ہیں تو انہیں نظر انداز کرتے ہوئے ان مارشل لائی ڈکٹیٹروں کی ریٹائرمنٹ کے بعدملنے والی سہولیات کو تو واپس لیا جائے۔

 ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس ریفرنس پر فیصلہ انتخابات کے دنوں میں آیا۔ ان دنوں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران اور اس فیصلے کے بعد یہ چیز واضح ہو گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا قتل ہوا اور اس میں اس وقت کی فوجی حکومت اور جوڈیشری شامل تھی۔پیپلز پارٹی کے بانی اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو ناجائز طور پرمجرم بنا کر تختہ دار پر لٹکایا گیا۔پھر اس کے جنازے کے ساتھ جو کچھ ہوا۔پھانسی سے پہلے اس کی بیٹی بینظیر بھٹو کے ساتھ بدسلوکی اور باپ ملنے نہ دینا بھی تاریخ کے تلخ حقائق ہیں۔جس ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آئین دیا،ایٹمی قوت بنایا اس کو ذلیل کر کے دفن کیا گیا۔ اسی طرح سے ملک کو ایٹمی قوت بنانے والی عظیم شخصیت محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جس انداز سے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے ہیں، وہ بھی دل خراش ہیں۔ انہیں یہ عام قبرستان میں دفن کیا گیا۔ حالانکہ عوام کا مطالبہ تھا کہ انہیں فیصل مسجد کے صحن میں دفن کیا جائے مگر افسوس ان کے جنازے کے ساتھ بھی ہم نے بحیثیت قوم کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ 

مزید :

رائے -کالم -