اتحاد ِاُمت ........ ایک عظیم نعمت

اتحاد ِاُمت ........ ایک عظیم نعمت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                                                                قلعہ میں بہت بڑی مجلس کا انعقاد کیا گیا تھا، اس مجلس میں اہم حکمران اور قضاة بھی شریک تھے ۔ شیخ ابن تیمیہ کو طلب کیا گیا، ان پر اعتراضات کئے گئے، انہوں نے صفائی کا موقعہ مانگا تو جوابا بتایا گیا کہ ”ہم آپ کی تقریر سننے کے لئے جمع نہیں ہوئے “۔ شیخ نے استفسار کیا کہ میرے اس مقدمے میں حکم ثالث کون ہے ؟بتایا گیا کہ قاضی ابن مخلوف مالکی !شیخ نے ازارہ حیرت کہا کہ قاضی ابن مخلوف تو میرے حریف اور مد مقابل ہیں ؟اس پر قاضی ابن مخلوف کو سخت غصہ آیا اور شیخ ابن تیمیہ کی بات سنے بغیر اُن کے خلاف فیصلہ صادر کرتے ہوئے انہیں قید کی سزا سنائی ۔
فقہی اختلاف کی بنیاد پر مد مقابل اور حریف سے برا سلوک اور آپس کے اختلاف کو بڑھانا کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے، ہر دور میں اس کی مختلف نظیریں مل سکتی ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”اس ساڑھے چار ماہ کی حراست کے دوران کئی بار داروغہ میرے پاس آیا ،آخری بار جب وہ میرے پاس آیا تو مجھے کہا کہ آپ اپنے قلم سے کچھ لکھ دیجئے ؟شیخ نے حیرت سے کہا، مَیں کیا لکھوں؟جوب ملا: ”معافی نامہ“اور یہ کہ آپ رہائی کے بعد کسی سے تعرض نہیں کریں گے، ابن تیمیہ نے صبر ومتانت سے جواب دیا: ”ہاں!مجھے یہ منظور ہے، کسی کو ایذا پہچانا میرا مقصود نہیں ہے ، مَیں کسی سے انتقام لینا نہیں چاہتا، مَیں ہر اُس شخص کو معاف کر تا ہوں، جس نے میرے ساتھ زیادتی کی“۔
عفوو در گزر کی اعلیٰ مثال انتہائی عظیم ہے ۔ شیخ ابن تیمیہ ؒ کے خلاف فیصلہ کرنے والے اور اُنہیں قید کی سزا سنانے والے قاضی ابن مخلوف مالکی پر جب خود کڑا وقت آیا، تو انہوں نے گواہی دیتے ہوئے کہا: ”ہم نے ابن تیمیہ جیسا عالی ظرف اور فراخ حوصلہ نہیں دیکھا کہ ہم نے تو اُن کے خلاف سلطنت کو آمادہ کیا ۔اگرچہ ہمار امقصد پورا نہیں ہو ا،لیکن جب اُن کو قدرت حاصل ہوئی تو ہم کو معاف کر دیا اور اُلٹا ہماری طرف سے وکالت اور مدافعت کی “۔
کہنے کو یہ تاریخ کا فقط ایک حوالہ ہے، لیکن اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے، تو اُمت مسلمہ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی عظیم آفت یہی فرقہ پرستی اور انتشار و افتراق کی آگ ہے ،جو کسی کے محاسن کو تسلیم نہیں کرتی، جو شخصیت پرستی ، مدرسہ پرستی ، مسلک پرستی سے آگے بڑھ کر کچھ سوچنے کی استعداد و صلاحیت کو ختم کر دیتی ہے ۔ فرقہ واریت کی اس آگ کو بجھانے کے لئے اپنی سعی و جہد کرتے ہوئے لاہور میں قاری ابو طیب کی صدارت میں دینی مدارس کے چند نوجوان اکٹھے ہوئے اور 1975ءکو جمعیت طلبہ عربیہ نامی پاکیزہ تنظیم کا وجود عمل میں آیا۔
جمعیت طلبہ عربیہ نے دینی مدارس کے طلبہ کو فروعی مسائل سے اُٹھ کر اصولی مسائل پر اُمت مسلمہ کو اکٹھا کرنے کی دعوت دی ۔ مدارس عربیہ کے طلبہ کی تربیت کے لئے بہترین پروگراموں کا انعقاد کیا ۔ مَیں جب جمعیت طلبہ عربیہ کے مقصد وجود اور اہمیت پر سوچتا ہوں تو بے ساختہ مساجد ومدارس کا مطلوب اور آئیڈیل کردار سامنے آتا ہے۔ بلا شبہ مسجد اتفاق و اتحاد کا مرکز و محور ہے۔ نبی اکرمﷺ کی تعلیمات میں باجماعت مساجد کی حکمتوں میں ایک اہم حکمت یہ بھی ہے کہ صفوں میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم دیتے ہوئے باہم محبت و مودت کے بڑھنے کی نوید سنائی گئی ۔صفوں کے ٹیڑھا ہونے اور آگے پیچھے ہونے کی صورت میں اس طرح دلوں کے ایک دوسرے سے پھرنے کا ذکر کیا گیا، لیکن آج بدقسمتی سے مساجد فرقہ واریت کی لپیٹ میں مسلک پرستی کی دعوت کا اہم ذریعہ ہےں۔ مجموعی طور پر مساجد کا کردار اپنی جگہ مستحسن ہے، لیکن بدقسمتی سے آج بھی ایسی مساجد موجود ہیں،جہاں دوسرے مکتبہ فکر والوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش نہیں ہے۔
علمی اختلاف بحیثیت امت کبھی معیوب نہیں رہا۔ اگرا ختلا ف بے ادبی کا اظہار ہوتا تو امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد قاضی ابو یوسف ؒ ، امام محمد بن حسن شیبانی ؒ اور اما م زفرؒ اپنے استاد گرامی کی آراءسے کبھی اختلاف نہ کرتے اور اپنی علمی رائے کا اظہار کبھی نہ کرتے ۔علمی اختلاف اس سے پہلے بھی ہوا ہے، آج بھی کیا جاتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا، لیکن اس بنیاد پر مساجد الگ کر لینا، مدارس کے لاﺅڈ سپیکر کا ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونا، مختلف کتابوں کی اشاعت کے ذریعے مناظرانہ رنگ کو فروغ دینا اس امت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔ حضرت انو ر شاہ کاشمیری ؒ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ شافعی ؒ کو رسوا کرے گا، نہ ابوحنیفہ ؒ کو، نہ مالک ؒ کو اور نہ احمد بن حنبل ؒ کو جن کو اللہ نے اپنے دین کے علم کا انعام دیا ہے ،جن کے ساتھ اپنی مخلوق کے بہت بڑے حصہ کو لگا دیا ہے،جنہوں نے نورِ ہدایت چار سُو پھیلایا ہے، جن کی زندگیاں سنت کا نور پھیلانے میں گزریں، اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا کہ وہاں میدان حشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے کہ ابو حنیفہ ؒ نے صحیح کہاتھا یا شافعی ؒ نے غلط کہا تھا یا س کے برعکس....یہ نہیں ہو گا۔ پھر فرمایا:....جس چیز کو نہ دنیا میں کہیں نکھرنا تھا ،نہ برزخ میں، نہ محشر میں افسوس!اس کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کر دی، اپنی قوت صرف کر دی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی جس پر سب کا اجماع تھا ور سبھی کے مابین جو مسائل متفق علیہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیائے کرام علیہم السلام لے کر آئے تھے، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا آج یہ دعوت تو نہیں دی جارہی یہ ضروریات دین لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو رہی ہیں“۔
جمعیت طلبہ عربیہ کے یوم تاسیس کے موقع پر مَیں جمعیت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بلا شبہ آج اغیار کی سازشیں عروج پر ہیں اس امت کو علاقائیت ، نسل پرستی، لسانیت ، گروہی عصبیت اور فرقہ واریت کے اندر مبتلا کر کے انتشار و افتراق کے نتیجے میں دشمن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے، عالمی سطح پر مسلمانوں کو تنہا کر کے ایک ایک کو تر نوالہ بنایا جا رہا ہے۔ ملک میں مساجد ،امام بارگاہوں، مذہبی شخصیات اور مدارس کو ٹارگٹ کر کے آپس میں لڑانے کی سازشیں طشت از بام ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اتحاد و اتفاق کے اس درس کو عام کریں اور امت مسلمہ کو روا داری ،عفوودرگزر اور یکجہتی کے ذریعے اسے کھویا ہوا مقام واپس دلا یا جائے ۔     ٭

مزید :

کالم -