بوڑھی روح مددکو پکارتی ہے

بوڑھی روح مددکو پکارتی ہے
بوڑھی روح مددکو پکارتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محمد وقاص
بہت سے کتابوں میں مافوق الفطرت طاقتوں کی موجودگی کا ذکر ہونے کے باوجود ہم میں سے اکثر لوگ ان پر یقین نہیں رکھتے،لیکن آج بھی دنیا میں بہت سی جگہیں موجود ہیں جو ہمیں انکی حقیقت کا احساس دلاتی ہیں۔زیر نظر واقعہ میں ایک ایسے شخص کی حقیقی کہانی بیان کررہاہوں جس کو ایک ہوائی مخلوق سے اس وقت واسطہ پڑا جب وہ اپنے دوستوں کے ھمراہ دریائے جہلم سے ملحقہ بستیوں کی سیر کرتے ہوئے گھوسٹ کینال کی طرف جانکلا تھا
یہ دسمبر کا ایک دھندلا دن تھا۔ میں اور میرے کالج کے دوست معمول سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہ رہے تھے ۔ ہم نے سیروتفریح کا پروگرام بنایا لیکن کسی خوشگوار مقام کا تعین کرنے کی بجائے ہم نے گوسٹ کینال اور اس کے مضافات کی سیر کرنے کا فیصلہ کیا۔میں اپنے چاروں دوستوں کے ہمراہ قریبی سٹور میں گیا اور وہاں سے کچھ مشروبات خریدنے کے بعد ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔یہ ٹھٹھرتا ہوادن گہری دھند اور سڑک کی دونوں اطراف پر لگے ہوئے درختوں کی وجہ سے دسمبر کی کسی سرد شام کا نظارہ پیش کررہا تھا۔
ہر کوئی اپنے اپنے خیالات کی جنت میں خاموشی سے گم تھا کہ اچانک میرے ایک دوست نے یہ کہہ کر ہماری توجہ طلب کرنا چاھی ۔’’ اگر ہم گھوسٹ کینال کی سیر کے لیے جارہے ہیں تو پھر ہم میں سے ہر ایک کو اس کی حقیقت کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتانا ہو گا‘‘
میں اگرچہ اس دھندلی سڑک پر ڈرائیونگ سے محظوظ ہو رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنے اس دوست کو اس حوالے سے کچھ بتانے کا فیصلہ کیا۔میرے خیال میں گزشتہ چند برسوں سے اس علاقے میں سیلاب سے ہونے والی تباہی وبربادی کی وجہ سے لوگوں نے اس وقت نہر کو گھوسٹ کینال کا نام جب اس کے پانی سے پھیلنے والی تباہی کے چرچے ہونے لگے۔اس وقت اس نہر کے مضافات میں موجود دیہات اور قصبے کسی قبرستان کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد جب ہم متعلقہ مقام پر پہنچے تو نہر کے گردونوا ح میں موجود آبادیوں کے مکان بُری طرح ٹوٹے ہوئے نظرآئے جس کی وجہ سے خوفزدہ کر دینے والا مناظر ہمارے سامنے موجود تھے ۔چونکہ ہم اس کی سیر کا فیصلہ کر چکے تھے تاہم ہم نے اکٹھے رہ کر ان زمین بوس آبادیوں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا جو موہنجوداڑرو ہڑپہ کی تہذیبوں کی یاددلارہی تھیں۔
ہم اگرچہ خاصے پریشان نظر آرہے تھے لیکن ہمارے اوپر خوف کا غلبہ اس وقت سرائیت کرنے لگا جب ہمارے ایک دوست نے اپنی ایک مرحومہ گرل فرینڈ کا ذکر چھیڑلیا۔ابھی اس کی بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ایک دوسرے دوست نے اپنی مرحومہ والدہ کی بابت بتانا شروع کر دیا۔ مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر کیوں ہم نے ایسی خوفزدہ جگہ پر غمگین اور اداس باتوں کا تذکرہ شروع کر دیا تھا۔
اپنے خوف پر قابو پانے کی خاطرہم نے ڈرنکس لینا شروع کر دیا ۔ہمارے سامنے منہدم سکول کی عمارت تھی جس میں بچوں کے جھولے ایک عجیب سا منظر پیش کررہے تھے۔ابھی ہم نے آگے بڑھنا ہی چاہا تھا کہ اچانک کسی عورت کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں ۔ہم ٹھٹھک کررہے گئے۔لیکن پھر ہم نے آواز کا تعاقب شروع کر دیا کیونکہ ھمیں ایسا لگا جیسے کوئی کسی عورت کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کررہا ہے اور وہ بے بسی سے مدد کے لیے پکار رہی ہے۔ دھند گہری ہونے کی وجہ سے ہم نے گاڑی کی لا ئٹس روشن کرلیں لیکن اگلے ہی لمحے مجھے گاڑی روکناپڑگئی۔دوستوں نے مشورہ دیا کہ نیچے اتر کر اس آواز کا تعاقب کرتے ہیں۔اس وقت مجھے یہ احساس بھی ہونے لگا تھاکہ ان بے آبادبستیوں میں اس وقت بھلا عورت کیا لینے آئے ہوگی۔لیکن دوستوں کی موجودگی میں اتنی عقل والی بات کو ئی نہیں مانتا۔ہم ذرا سا آگے گئے،کئی ٹوٹے مکانات جھاڑیوں کی اوٹ لئے عجیب منظر پیش کررہے تھے۔اچانک اس جھاڑیوں سے اسی عورت کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی تو ہم سب پر دہشت طاری ہوگئی’’کک کون ہوتم ۔۔۔کہاں ہو۔۔۔‘‘ میں نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا تو اس لمحہ جھاڑیوں میں سے انتہائی بوسیدہ حال بوڑھی عورت باہر نکلی اور چیختی ہوئی بازوپھیلائے ہماری جانب بڑھی ۔اسے دیکھتے ہی تمام دوست واپس پلٹے اور گاڑی کی بھاگ اٹھے ۔
’’ اوئے ٹھہرو‘‘میں اپنے دوستوں پر چلایا ۔’’پاگلوں کی طرح کیوں بھاگ رہے ہو۔۔۔ اسکی بات تو سن لو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ وہ عورت نہیں کوئی ڈائن ہے۔۔۔رکو نہیں بھاگو‘‘ میں بھی انک ساتھ بھاگ اٹھا اور ایک نظرودوستوں کی جانب دیکھااور پھر پلٹ کر بھی ۔۔۔ حیرت سے میرے قدم رک گئے’’ منور کہاں ہے؟‘‘ وہ سب رک گئے ۔دیکھا تو منور خان غائب تھا۔ ہمارے اوپر قیامت ٹوٹ گئی۔میں نے فوری طور پر اس کا نمبر ڈائل کیا لیکن اس کا نمبر بند جارہا تھا جس سے ہماری پریشانی مزید بڑھ گئی۔ پھر ہم نے واپس بھاگنا شروع کر دیا۔ابھی ہم تھوڑی آگے ہی گئے تھے کہ ہمارا دوست ایک بوسیدہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے زور زور سے کراہتانظر آیا ۔میں نے اس سے اسکی اس حالت کی وجہ دریافت کرنا چاہی لیکن وہ متواتر روتا رہا۔اور ہچکیاں لیکر بولا’’ وہ ڈائن ہے ڈائن ‘‘ ایک دوست نے ہمیں اس جگہ سے جلد نکلنے کا کہا اور ہم سب لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے ۔چونکہ یہ سنگل روڈ تھا اس لئے ہائی وے سے پہلے ریورس کرنا بہت مشکل تھا۔
جیسے ہی میں نے گاڑی سٹارٹ کی تو اسکی ہیڈ لائٹس میں بالکل سامنے ایک بوڑھی عورت کھڑی نظر آئی۔اسکی حالت نہایت خراب تھی۔ وہ ہماری طرف گھور رہی تھی۔خوفزدہ ہونے کے باوجود میں نے جلدی جلدی گاڑی ریورس بھگانی شروع کر دی ۔لیکن وہ عورت بھی تیز تیز قدموں سے ہماری طرف چیختے ہوئے بڑھنے لگی ۔خوف سے ہماری حالت غیر ہو گئی اورجسموں پر کپکپی طاری ہو گئی۔جلد ہی ہم ہائی وے پر پہنچ گئے۔خوش قسمتی سے ہم گھر تو پہنچ گئے لیکن اگلا پورا ہفتہ ہم سب لوگ بیمار رہے۔کچھ دنوں کے بعد جب ہم نارمل ہو گئے اور ہم نے اس حوالے سے ملحقہ دیہاتی لوگوں سے رابطہ کرکے اس بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ2009ء میں جب یہ بستی سیلاب کی زد میں آگئی تھی اور لوگ اپنی اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگنے لگے تو ایک بوڑھی عورت اس افراتفری میں لوگوں کو آوازیں دیتی رہی لیکن کوئی بھی اس کی جان بچانے کے واپس نہیں پلٹاتھا۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی کچھ لوگوں کووہ بوڑھی عورت آوازیں دیتی دیکھائی دیتی ہے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحاریر لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

.