ہمارا معاشرہ ۔ ایک امید
تحریر: انیلا عثمان
جب ہم نے نو جوانی کے دور میں قدم رکھا ، تو حساس طبیعت اور افتاد طبع کے باعث لکھنے پڑھنے کی طرف دل راغب ہوا ، نصابی کتابوں سے زیادہ دل غیر نصابی کتابوںکی طرف مائل تھا ، دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ امتحان کے دنوں میں بھی پہلے کوئی ادبی کتاب پڑھ کے اسکے بعد پیپر کی تیاری کی جاتی ۔ یہ تو نوجوانی کے ادوار کی بات تھی وقت تھوڑا سا آگے بڑھا ، تو انسانی رویوں کو سمجھنے کی جستجو جاگی ،کتاب نے شعور کی آنکھ تو کھول ہی دی تھی ۔ اسی کے تناظر میں دنیا کو دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیا ، لیکن جلد ہی یہ عقیدہ کھلا کہ جی یہاں پہ تو اندھیر نگری کا سا سماں ہے، وہ جو محبت کا ایک اسم ہم سیکھ چکے ،پڑھ چکے ۔اسکا تو دور دور تک کوئی نام و نشان تک نہیں ،محبت بھرے دل و دماغ کے لیے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا،ہم نے تو یہی سیکھا تھا کہ جی محبت فاتح عالم ہے ، اسکے ذریعے آپ دنیا کی جنگیں جیت سکتے ہیں ،اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں لیکن عملی طور پہ ان ساری باتوں کی جھلک معاشرے میں نظر نہیں آتی ۔
محبت جو انسانی زندگی کی اساس ہے، جس کے بغیر ہم سانس لینے کے بھی قابل نہیں، اگر ہم آج اپنے معاشرے پہ ایک طائرانہ نظر دوڑائیں تو ہمیں محبت کی جھلککہیں نظر نہیں آتی ،ہر طرف مسمار تمناﺅں کا ڈھیر ہے اور حضرت انسان اس ڈھیر کے اوپر بیٹھ کے اپنے اپنے ذاتی مقاصد کا جھنڈا لہرانے میں مصروف ہے ،اس وقت اگر غور کیا جائے تو ہم ایک ایسے عہد کا حصہ ہیں ،جہاں پہ ہماری تین نسلیں بد ترین ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ اس میں ایک وہ نسل ہیں جو ہمارے ماں باپ کی ہے۔ ایک وہ نسل ہے جو ہم خود ہیں،ور تیسری وہ نسل جس نے ابھی پاﺅں پاﺅں چلنا ہی سیکھا ہے ۔ اس وقت ہمارا حال یوں ہے کہ جیسے ایک جسم کو بہت سے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے ۔ اور اس کو سانس لینے پہ مجبور کیا جا رہا ہے، جسم کا ہر حصہ آہ و زاری میں مبتلا ہے کہ اسے اپنی پہچان کیوں نہیں مل رہی ۔ اپنی پہچان ، اپنی اساس کے لیے وہ کبھی ادھر بھاگتا ہے ،کبھی ادھر بھاگتا ہے۔ سفر سنگ میل جیسا ہے ۔ آبلہ پائی ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑتی، بہت ہی اہم سوال ہے کہ اس نسل کے وجود کے ٹکڑے کب اکٹھے ہوں گئے۔ کیا کبھی انکو اپنی پہچان نصیب ہو گی بھی یا نہیں، ذہنی انتشار ہے تو وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہر انسان کو لپیٹ میں لے رہا ہے،ہمارے معاشرے کا انسان اپنی بقاءکی جنگ لڑنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے ۔اسکی وجہ کیا ہے ؟
یہ سوال تو بہت سے دماغوں میں اٹھتا ہو گا لیکن کتنے لوگ ہیں جو اس کا جواب ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہوں گے؟ شاید چند فیصد بھی نہیں ۔ کیونکہ ہم نے محبت کو اپنی زندگی سے نکال کے نفرت کو اپنا منشور بنا لیا ہے ، ہم نے امید کو چھوڑ دیا ہے، اور نا امیدی کو گلے میں ہار کی طرح لٹکا کے پھرنے کو اپنا مقدر کئے بیٹھے ہیں، ہم نے پیسےکی ڈور میں بھلا ہی دیا کہ انسان کے سینے میں میٹھی اور خوبصورت تمناﺅں سے بھرا دل بھی ہوتا ہے ۔ اور یہ دل صرف اس وقت ہی زندہ رہ پاتا ہے، جب اسکے اندرامید زندہ ہوتی ہے،میں نے قلم اس لیے اٹھایا ہے کہ شاید میرے ان چند لفظوں کے ذریعے ، اس مرتے ہوئے انسان کے اندر محبت کی اہمیت جاگے ،شاید وہ جانسکے کہ امید تو زندگی ہے ، اور اپنی نسلوں کو نفسےاتی بحران سے بچانے کے لیے، انکا اعتبار سلامت رکھنے کے لیے ، انہیں انسانیت کا علم بردار بنانے کے لیے یہ ضروریہے کہ ، کچھ بیج محبت کے ،روادی کے ،امن کے ، تحمل کے ، انسانیت کے بھی بو دئیے جائے ،جسکی نسل میں ہماری آنے والی نسلیں بیٹھ سکیں،میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک اچھا اور تعمیری معاشرہ وہ ہوتا ہے جسکے بوڑھے لوگ اس لیے درخت لگانا بند نہ کریں کہ وہ اس کی چھا ﺅں میں بیٹھ نہیں سکیں گے، یہ درخت اس لیے لگائے جاتےہیں کہ آنے والی نسلیں اسکے سائے میں بیٹھ سکیں گی۔
تو آئیے ایک ایسی ہی کوشش کا آغاز ہم بھی کرتے ہیں ۔ ہم بھی اپنے لفظوں سے ،اپنے عمل سے امید کا ایک ایسا پودا لگانے کی کوشش کرتے ہیں،جسکی چھاﺅں میں شاید ہم تو نہ بیٹھ سکیں لیکن وہ نسل جس نے ابھی پاﺅں پاﺅں ہی چلنا سیکھا ہے،وہ تو انسانوں کی طرح کی زندگی جی سکیں ،ہر کوئی اپنے بچوں کے لیے خواب دیکھتا ہے کہ جی ہم انکو ڈاکٹر بنائیں گئے ،انجینئر بنائیں گئے میرا خواب ہے کہ میری آنے والی نسلیں گیت خوشی کے گائیں ،جن کے سینے میں امنگ پیدا ہو کے مر نہ جائے ۔ جن کے دل ایک دوسرے کے لیے تنگ نہ ہو میرا یہ ایمان ہے کہ محبت واقعی فاتح عالم ہے ، محبت کے راستے پہ چلنا مشکل تو ضرور ہو گا لیکن نا ممکن نہیں ۔ اسی اسم کے ذریعے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گئے ۔ہم بھی دیکھیں گے ۔
رائٹر بہاءالدن زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے فلاسفی ، ایم ایس سی سوشیالوجی ہیں، سماجی بیداری ، ایڈوکیسی ، ریسرچ ، ٹریننگ ورکشاپس اور نوجوانوں میں مثبت کردار کی تشکیل جیسے پراجیکٹس میں شامل ہوکر ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دے چکی ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔