زرعی آلودگی کم کرنے میں محکمہ زراعت کا کردار

زرعی آلودگی کے بارے میں گزشتہ کالم کے بعد قارئین نے اِس موضوع کے بارے میں مزید سوالات پوچھے ہیں۔ بہت سے قارئین کوزرعی آلودگی کے بارے میں پہلی بار معلومات حاصل ہوئی ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں زیادہ ترفضائی آلودگی کے بارے میں بات ہوتی ہے، زرعی آلودگی کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ چند قارئین نے استفسار کیا ہے کہ زرعی آلودگی کے خاتمے یا اسے کم کرنے میں ہمارے زرعی سائنسدان یا محکمہ زراعت کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟ تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ محکمہ زراعت اور ہمارے زرعی سائنسدان زرعی آلودگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔۔۔زرعی آلودگی کے اہم ذرائع کیمیائی کھادیں اور کیڑوں، بیماریوں اور فصلوں کی جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے لئے استعمال ہونے والی زہریں ہیں۔ کیمیائی کھادوں اور زہروں کے اثرات زیر زمین پانی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیمیائی زہریں فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کو زیر آلودہ کرتی ہیں، جس سے انسانی صحت کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ کیمیائی کھادوں اور زہروں کا فصلوں پر استعمال کم کیا جائے۔ ان کا استعمال کم کرنے میں محکمہ زراعت اہم کردار ادا کرسکتا ہے، جس سے زرعی آلودگی کے مسئلے کی سنگینی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ہمارے ہاں کیمیائی کھادوں کے استعمال میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کھادوں کی طلب میں 6تا 8فیصد سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کھادیں زیر زمین سرایت کرجاتی ہیں، جس سے زیر زمین پانی میں نایٹریٹ اور دیگر کیمیائی عناصر شامل ہو جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں، اگر فصلوں کی پیداوار میں کمی کئے بغیر کھادوں کا استعمال کم کیا جائے تو اس سے زرعی آلودگی میں بھی کمی ہوگی اور پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کھادوں کا غیر ضروری استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ ایک حد سے زیادہ کھادوں کے استعمال سے پیداوار میں جو اضافہ ہوتا ہے، وہ معاشی لحاظ سے فائدہ مند نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اگر تمام غذائی اجزاء متناسب مقدار میں استعمال کئے جائیں تو کھادوں کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا ہے، جبکہ ایک ہی قسم کی کھادیں استعمال کرنے سے کھادوں کی افادیت کم ہو جاتی ہے اور زمینی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ زمین میں نامیاتی مادے کی مقدار بڑھا کر بھی کھادوں کی افادیت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ زراعت کاشتکاروں کو ترغیب دے سکتا ہے کہ وہ فصلوں کی باقیات جلانے کی بجائے کھیتوں میں دبائیں تاکہ اُن سے کھاد تیار کی جاسکے اورزرعی آلودگی بھی پیدانہ ہو۔بہت سی فصلیں بطور سبز کھاد زمین میں دبائی جاسکتی ہیں، جس سے قدرتی کھاد تیار ہوتی ہے۔
کاشتکاروں میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ کھادیں استعمال کرنے سے پہلے زمین کا کیمیائی تجزیہ کرائیں اور اس رپورٹ کی روشنی میں کھادوں کا استعمال کیا جائے۔ اس سے کھادوں کے غیر ضروری استعمال کے رجحان پر قابو پایا جاسکے گا۔ کاشتکاروں کو آگاہ کیا جائے کہ کھاد صرف اُس وقت استعمال کی جائے جب فصل کو اُس کی زیادہ ضرورت ہوتاکہ کھاد کا ضیاع روکا جائے۔ زرعی سائنس دان کھادوں کے استعمال کے ایسے طریقوں پر مزید تحقیق کرسکتے ہیں، جن کے ذریعے کم کھاد کے استعمال سے بھی زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ بعض ممالک میں کھادوں کے غیر ضروری استعمال پر پابندی ہے۔ ڈنمارک میں اگر ایک حد سے زیادہ کھاد استعمال کی جائے تو جرمانے کئے جاتے ہیں۔ محکمہ زراعت اور زرعی سائنسدانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کھادوں کے باکفایت استعمال کو فروغ دیں تاکہ ایک طرف زرعی آلودگی کا خاتمہ ہوتو دوسری طرف فصلوں کی پیداواری لاگت کم کی جاسکے۔
کھادوں کے علاوہ فصلوں، پھلوں اور سبزیوں پر کیمیائی زہروں کا غیر ضروری استعمال بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس سے ایک طرف توان کے اثرات زیر زمین پانی میں شامل ہوتے ہیں تو دوسری طرف فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتاہے اور زرعی پیداوار کے استعمال سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔ زہروں کا استعمال کم کرنے کے بہت سے طریقے ہیں، جن میں فصلوں کی ایسی اقسام کی تیاری ہے، جن میں کیٹروں اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت ہو۔ فصلوں کے وقت کاشت میں تبدیلی، نقصان دہ کیڑوں کے دشمن کیڑوں کو متعارف کرانا جو نقصان دہ کیڑوں کو بطور غذا استعمال کریں، صرف اس وقت زہر پاشی کرنا جب کیڑوں کی تعداد معاشی حد سے تجاوز کرجائے ،اس کے علاوہ اس طرح کے متعدد ایسے اقدامات کئے جاسکتے ہیں، جن کے ذریعے کیڑوں کا قدرتی طریقوں سے انسداد کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پھلوں اور سبزیوں پر زہروں کے مضر اثرات کے بارے میں تحقیق بہت کم ہوئی ہے۔ حال ہی میں صوبہ پنجاب کے دو اضلاع میں سبزیوں پر زہروں کے اثرات کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج بہت چونکا دینے والے ہیں۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سبزیوں پر جو زہریں استعمال کی جارہی ہیں، اُن میں سے ایک تہائی زہریں بہت نقصان دہ ہیں۔ 35فیصد زہریں درمیانی نقصان دہ ہیں۔ تقریباً اٹھاون فیصدکاشتکار زہروں کے بارے میں درمیانی معلومات رکھتے ہیں اور انہیں زہروں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہیں ہیں۔ صرف 16 فیصد کاشتکاروں نے زہروں کے استعمال کی تربیت حاصل کی، 13فیصد کاشتکاروں کو معلومات تک رسائی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زہروں پر زیادہ انحصار، ان کے استعمال میں معلومات اور تربیت کی کمی، زہروں کی دیکھ بھال اور سنبھال کے بارے میں لاعلمی، سبزیوں پر زہروں کے دیر پا اثرات جیسے عوامل سے ان زہروں کی ضرر رسانی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ زرعی توسیع کے ذریعے کاشتکاروں کو معلومات تک آسان رسائی دی جائے اور محکمہ زراعت زہروں کے استعمال میں کاشتکاروں کو اگر تربیت فراہم کرے تو ان زہروں کی ضرر رسانی میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ پھلوں اور سبزیوں کے بھی نمونے حاصل کرے تاکہ ان پرزہروں کے اثرات کا پتا چلایا جاسکے۔ زرعی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے محکمہ زراعت کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا ،جبکہ دیگر محکموں کو بھی اس سلسلے میں بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔