یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
عجیب ہیں ہم لوگ بھی ،کبھی رسموں رواجوں کی اوٹ میں خوشیوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں کبھی اپنی انا اپنی ضد کی تسکین کے لئے اپنی سانسوں کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔۔۔ اور تو اور ہم کبھی پاکستانی بھی نہیں بن سکے۔ ستر سالوں سے ہم صرف پنجابی، سندھی، بلوچی، اور سرحدی بن کے ایک دوسرے کے لئے نفرت کے بیج بوتے چلے آ رہے ہیں ۔
حالیہ دہشت گردی جس میں پندرہ لوگوں کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا ،ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ پنجابی تھے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کس جرم میں مارا گیا۔ ہزاروں میل دور ان کے لواحقین کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے ۔مرنے والے تنہا نہیں مرے ۔ان کے ساتھ کئی لوگ مر گئے۔ کئی بچوں کے خواب مر گئے۔ بچے جو فکر معاش سے بے خبر اپنے کھلونوں میں گم رہتے ہیں جن کی سوچ کبھی باپ کی موت تک جا ہی نہیں سکتی ،انہوں نے لکڑی کے بند صندوقوں میں باپ کی لاش دیکھ کے کیا سوچا ہو گا۔ یقیناً ان کے ہاتھ سے کھلونے گر گئے ہوں گے ۔
آخر اس تعصب کی جڑیں اتنی مضبوط کیوں ہیں شاید اس کی وجہ حقوق کی عدم دستیابی ہے۔ وہ چاہے ایک شہر میں ہوں ،ایک ضلع میں ہوں ،ایک صوبے میں ہوں یا پوری سلطنت کا المیہ ہو۔بدقسمتی سے ستر سالہ دور میں عدلیہ کی تاریخ دیکھی جائے تو قانون امیر کے لئے اور ہے، غریب کے لئے اور،امیر کے کیس کا فیصلہ دنوں میں آ جاتا ہے اور غریب کی شنوائی کی بات اس کی آنے والی نسلوں تک چلی جاتی ہے۔ بہت ساری مثالیں دے سکتا ہوں۔ مگرمیرا قلم شاید شرم سے ٹوٹ جائے کبھی کبھی تو ایسے ہوتا ہے کہ ضبط ممکن ہوتا ہے مگر الفاظ بغاوت کرتے ہوئے ساری کہانی کھول دیتے ہیں ۔بقول حبیب جالب
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
بہت سارے سوال ہیں جن کے جواب سامنے لکھے ہوئے ہیں مگر بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ ہم لوگ ان کو ماننے سے انکاری ہیں۔ جس ملک کا سربراہ عدالتوں میں ہو، وزراء فرد جرم عائد ہونے کے باوجود استعفی نہ دے رہے ہوں ۔جن کی ساری جائیدادیں ملک سے باہر ہوں۔ جن کے بچے ملک سے باہر ہوں ۔جو اپنی قوم سے جھوٹ پر جھوٹ بول کے ووٹ لیتے ہوں ۔ہم پھر بھی انہی لوگوں کو، مسیحا سمجھیں تو یہ اپنی نسلوں کے ساتھ غداری ہے۔
کوئٹہ میں قتل ہونے والے پندرہ لوگوں نے اپنے وطن سے ہجرت کا، جب سوچا، تو، مجھے حضرت عمرؓ کا واقعہ یاد آ گیا۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل کر حکومت کی۔۔۔۔۔۔راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔۔۔.کہتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی۔۔۔...
چند برس پہلے ماڈل ٹاؤن لاہور میں لوگوں کے رکھوالے خود قاتل بنے۔ سینکڑوں گواہوں ہزاروں شواہد کے باوجود آج تک ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی تب تک یونہی صوبائیت میں لوگ مرتے رہیں گے اور بچوں کے کھلونے ٹوٹتے رہیں گے
حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
اے چاند یہاں نکلا نہ کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہے یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے
مغرب کا راج ہی سچا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نکلا نہ کر
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔