یوٹرن تو یوٹرن ہی ہوتا ہے

یوٹرن تو یوٹرن ہی ہوتا ہے
یوٹرن تو یوٹرن ہی ہوتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے سید بادشاہ واقعی بادشاہ ہیں۔طبیعت آئے تو گولا داغ دیتے ہیں۔ اب انہوں (خورشید شاہ) نے کپتان پر آمریت اور آمر ہونے کا الزام لگا دیا، اگرچہ شاہ جی نے براہ راست نہیں کہا لیکن جب وہ کہتے ہیں کہ ہٹلر تو آمر تھا تو ان کا مقصد و مطلب یہی کہنا سمجھ میں آتا ہے۔

حالانکہ محترم وزیراعظم نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے تو ہٹلر اور نپولین کو ناکام قرار دیا اور انہی کے مقابلے میں خود کو کامیاب سمجھا اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اب اگر شاہ صاحب کو بُرا لگا تو اس میں کپتان کا کیا قصور؟ بھائی! کپتان نے تو مثال دی اور جیسے شاہ جی نے تیلی کے سر پر کولھو والا مصرعہ پڑھا اسی طرح عمران خان نے بھی جڑ دیا اب کسی کی عقل میں نہ آئے تو دونوں بے قصور ہیں، معترض حضرات اپنا اپنا علاج کرائیں، ہم تو بہرحال دونوں سے معذرت خواہ کہ احترام کے عادی ہیں، ویسے وزیراعظم عمران خان نے تو غالباً ترنگ میں بات کی اور بہت بڑی کہہ گئے وہ کہتے ہیں، جو یوٹرن نہ لے وہ لیڈر نہیں ہو سکتا۔

ہٹلر اور نپولین نے یوٹرن نہیں لیا تھا، اب حقیقتاً وہ کیا کہنا چاہتے تھے ہر کوئی ہاتھی کی پہچان کے مطابق اپنی اپنی عقل دوڑا رہا ہے، حالانکہ کپتان نے تو سیدھے سبھاؤ واضح طور پر خود کو نپولین اور ہٹلر سے بڑا قرار دیا اور بتایا کہ وہ ناکام تھے اور میں (کپتان) کامیاب ہوں، مطلب یہ کہ اگر ہٹلر اور نپولین میں عقل ہوتی تو وہ ابتدائی فتوحات کے بعد اس وقت یوٹرن لے کر جنگ بندی کر دیتے جب دوسری طرف اتحاد ہو رہا تھا، انہوں نے یوٹرن نہیں لیا اور بالآخر مار کھا گئے اور نہ صرف دنیا کو تباہی کے کنارے لا کر خود نامراد و ناکام ہو کر جان سے بھی گئے لیکن کپتان تو ماشاء اللہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود بھی کامیاب ہو گئے اور اب وزیراعظم ہیں۔
آپ بھلے اعتراض اور تنقیدکرتے رہیں کہ وہ جن حضرات کو کرپٹ، چور اور ڈاکو کہتے تھے انہی کو نہ صرف سینے سے لگایا بلکہ وزیر بھی بنا دیا، اب جو ان کے مقابلے میں وہ کرپٹ اور جو ان کی بیعت کر چکے وہ دودھ سے دھل کر پاک صاف ہو گئے ہیں۔

بلکہ وزارتوں اور مشاورتوں کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ محترم آنریبل چیف جسٹس کے دل میں کیا آیا کہ انہوں نے سواتی صاحب کے اثاثے جانچنے کے لئے جے آئی ٹی بنا دی اور یوں دیگ سے دانا چکھنے والا محاورہ پورا کر دیا، یہ جو چند لوگ زندگی کا روگ ہیں، اب ان کو کچھ نہیں ملا تو محترمہ علیمہ خان پر بھی اعتراض شروع کر دیا ہے، حالانکہ آنسہ علیمہ خان نے تو مسلم لیگ (ن) والی ایمنسٹی سکیم کا فائدہ اٹھایا ہے جسے وزیراعظم عمران خان غلط قرار دے چکے ہیں اب اگر نہیں بولتے تو یہ بھی یوٹرن والی حکمت عملی ہے۔

علیمہ خان نے تو نہ صرف ایمنسٹی سکیم سے کہیں زیادہ دیا بلکہ برابر کے حساب سے جرمانہ بھی دیا اور اربوں کی جائیداد کا آدھا حصہ قربان کر دیا کہ سارا جاتا دیکھ کر آدھا بانٹنے والی بات ہے۔
جہاں تک یوٹرن کی بات ہے تو کپتان تو پرانے عادی ہیں، کرکٹ کے دور میں وہ کسی اجازت کے بغیر اپنے کزن ماجد خان کو بھی ساتھ لے کر آصف اقبال کے ساتھ ’’کیری پیکر سرکس‘‘ میں چلے گئے تھے اور پھر جب کیری پیکر اور کرکٹ آسٹریلیا کا معاہدہ ہوا اور کیری پیکر نے بھی یوٹرن لے لیا تو کپتان واپس پلٹ آئے اور آتے ہی اس ٹیم میں شامل ہونے کا اعلان کرکے کوشش کی جسے بے یار و مددگار چھوڑ گئے تھے۔

یہ یوٹرن ابتدا میں کامیاب نہ ہوا تو انہوں نے ہمت نہ ہاری محاذ آرائی کی اور سفارش بھی ڈھونڈھی، پھر ہوا یوں کہ یہ تو عرب کے اونٹ والی مثال کے مطابق اندر آ گئے اور سکیپر عبدالحفیظ کاردار باہر ہو کر گھر کو سدھار گئے، بھولے بادشاہ ان(وزیراعظم) پر اعتراض کرکے پھبتی کسنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ ان کا یوٹرن جب بھی کامیاب تھا اور اب بھی ہو رہا ہے، اصول اور سوسائٹی کی بات نہ کریں، لیڈر کے سامنے یہ سب ہیچ ہیں، اس لئے سید خورشید شاہ خود ہی سوچیں کہ ایسے اعتراض کرنے سے باز آجائیں۔
اب ہمارے ایک لاہوری دوست ثم اسلام آبادی (صحافی) کو نہ معلوم یہ کیوں محسوس ہوا کہ اسلام آباد میں چار حضرات پی ایم ہاؤس میں گھس گئے اور وہ چودھری فواد سے بالابالا سب کچھ کنٹرول کر رہے ہیں اور اس محترم کالم نگار صحافی نے فواد چودھری سے ہمدردی کرکے لکھ دیا کہ وہ اپنی فکر کریں کہ ان حضرات سے خطرہ ہو گا جو ابھی سے اطلاعاتی پالیسی پر اعتراض کر رہے ہیں۔

محترم سینئرصحافی نے نام تو نہیں لئے لیکن ظاہر تو اب ہو ہی گئے ہیں، یہ دوست جانتے بھی ہیں کہ ماضی سے اب تک ایسا ہی ہوتا آیا کہ منزل انہی کو ملتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوتے، انہوں نے بھی تو یوٹرن ہی کی بات کی ہے۔

اور یہ یوٹرن کی بات بھی تو اس محفل میں ہوئی جو ان صحافیوں نے منعقد کرائی جو بقول لاہوری مقیم اسلام آبادی صحافی ایوان وزیراعظم میں گھس گئے ہیں۔بہرحال ہم اس بکھیڑے میں نہیں ہیں، بقول اپنے جیسے ساتھیوں کے ’’ہم تو اپنی نبھاہ ہی چکے ہیں، اب نوجوان جانیں اور بھگتیں‘‘۔

مزید :

رائے -کالم -