ایک اور یوٹرن
کپتان کی حسِ مزاح میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اب وہ اقتدار کے مزے لینے لگے ہیں اور انہیں مخالفین کی سرگرمیوں کا کوئی خوف نہیں رہا۔ جن باتوں کو لوگ تسلیم کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، عمران خان اُنہیں علی الاعلان تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔
یہ حکمتِ عملی مخالفین کو مزید زچ کرنے کے لئے کافی ہے۔
مثلاً ہر طرف شور تھا کہ کپتان یوٹرن کے بادشاہ ہیں، ان کے وزراء یہ کہانیاں سنا سنا کے تھک گئے تھے کہ نہیں عمران خان نے کوئی یو ٹرن نہیں لیا، وہ اپنے وعدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں، مگر زمینی حقائق چونکہ ان کے اس دعوے سے لگا نہیں کھاتے تھے، اس لئے ٹاک شوز میں کافی ہزیمت اٹھانا پڑتی تھی۔
غالباً اسی کا توڑ کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے کالم نگاروں سے ملاقات میں یوٹرن کی نئی تعریف پیش کر دی۔ انہوں نے کہا کہ یوٹرن کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے، ہٹلر اور نپولین نے یوٹرن نہیں لیا تھا، اس لئے ناکام ہوئے۔ اب کپتان تو کپتان ہیں انہیں کہنے سے کون روک سکتا ہے۔۔۔ وہ کوئی اور مثال بھی دے سکتے تھے۔ مثلاً یہ کہ سڑک پر یوٹرن نہ ہو تو لوگ رانگ سائیڈ سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں یا منزل پر ہی نہیں پہنچ پاتے۔
وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یوٹرن محبت کے معاملے میں بہت سود مند ثابت ہوتا ہے، کیونکہ چھوڑ کر جانے والا محبوب واپس آ جاتا ہے، مگر انہوں نے ہٹلر کی مثال دی۔ یہ سوچے بغیر کہ ہٹلر اگر کامیاب ہو جاتا تو دنیا کا کیا بنتا۔ اچھا ہوا اس نے یوٹرن نہیں لیا وگرنہ مزید لاکھوں لوگ اس کے ہٹلر ازم کی بھینٹ چڑھ جاتے۔
یہ نہ بھولیں کہ عمران خان ایک کھلاڑی ہیں، کرکٹ کے زیرک کپتان رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میچ جیتنے کے لئے یوٹرن کتنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً پہلے فاسٹ بولر لگانا، جب وہ وکٹ نہ لے سکے تو سپنر لگا دینا، سپنر بھی ناکام رہے تو پھر فاسٹ بولر سے بالنگ کروانا۔
یہی تکنیک وہ حکومت میں آکر استعمال کر رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے انہوں نے فاسٹ بالنگ ٹرائی کی، ایک سے بڑھ کر ایک باؤنسر مارا، ایسے وعدے کئے جنہوں نے عوام کی آنکھیں کھول دیں، اپوزیشن پر وہ حملے کئے کہ ابھی تک وہ اپنے زخم سہلا رہی ہے۔
اب بھلا کپتان یہ سب کچھ نہ کرتے تو دو بڑی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں تحریک انصاف کی جگہ کیسے بنتی۔ ووٹ کیسے ملتے؟ پھر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پاکستانی سیاست کی بنیادی خوبی ہی یوٹرن لینا رہی ہے۔ بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر یوٹرن لیا اور پانچ برس نکال گئے۔
بے نظیر بھٹو اور نوازشریف انتخابی مہم میں وعدے کچھ اور کام کچھ کرتے رہے، دو تین مرتبہ اقتدار سے سرفراز ہوئے۔ سو کپتان نے سوچ سمجھ کر اننگز کھیلی، کامیاب رہے اور وزیر اعظم بن گئے۔ اب جبکہ سو دن مکمل ہونے کا وقت آیا ہے تو یہ ایسا ہی ہے، جیسے اوورز کم رہ گئے ہوں اور رنز زیادہ پڑے ہوں۔ اس وقت حکمتِ عملی تبدیل کرنا پڑتی ہے۔
ٹک ٹک کی بجائے چوکے چھکے لگانے پڑتے ہیں، سو کپتان نے مناسب سمجھا کہ اس سے پہلے سیاسی مخالفین انہیں یوٹرن کا بادشاہ کہیں، وہ خود یوٹرن لینے کی افادیت بیان کر دیتے ہیں۔ اب اپوزیشن ہکا بکا رہ گئی ہے کہ کہے تو کیا کہے۔ کپتان نے ایک بار پھر ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور بازی لے گئے۔
حالات بتاتے ہیں کہ عمران خان اگر وزارت عظمیٰ کی وکٹ پر ڈیڑھ دو سال جمے رہے تو انہیں آؤٹ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے ہیں اور انہیں اب تک اسٹیمپ آؤٹ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اپوزیشن مات پر مات کھا رہی ہے، نہ متحد ہو سکی ہے اور نہ ہی حکومت کے خلاف کوئی مشترکہ ایجنڈا لا سکی ہے۔
شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنوا سکی ہے اور نہ دباؤ ڈال کر انہیں رہا کرا سکی ہے۔ عمران خان کے بڑے حریف مولانا فضل الرحمن دوبار ان کے خلاف محاذ بنانے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اب شاید کوئی ان کی بات سننے کو بھی تیار نہ ہو۔ اپوزیشن کو پچھاڑنے کے بعد کپتان کو صرف ایک چیلنج درپیش تھا کہ اپنے وعدوں کی تکمیل سے کیسے بچیں۔
اتنے بڑے بڑے دعوے تو پورے نہیں ہو سکتے پھر اس صورتِ حال سے کیسے نکلا جائے۔ اپوزیشن جو پر تول رہی ہے کہ سو دن پورے ہوتے ہی حکومت پر وعدوں کی عدم تکمیل پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دے گی، اس کی پیش بندی کیسے کی جائے؟ اب کپتان کے لئے یہ کون سا مشکل کام تھا وہ تو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو جو تین تین بار حکومت بھی کر چکی تھیں، نیچا دکھا کر اقتدار میں ہیں، سو انہوں نے یوٹرن کو از خود تسلیم کرنے کی راہ نکالی اور اس کا جواز بھی وہ پیش کیا کہ اپوزیشن انگشت بدنداں رہ گئی۔
خورشید شاہ صرف اتنا کہہ سکے کہ وزیر اعظم عمران خان گویا ہٹلر بننا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ ہٹلر بننا نہیں چاہتے، کیونکہ اس نے یوٹرن نہیں لیا تھا، وہ تو پاکستانی سیاست میں کامیابی چاہتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ضیاء الحق 90 دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کر کے اسی یوٹرن پالیسی کے تحت گیارہ برس نکال گئے تھے۔ پرویز مشرف بھی ایسی ہی کہہ مکرنیاں کرتے کرتے 9 سال حکمرانی کر گئے۔
وہ آمر تھے۔ عمران خان تو ایک منتخب وزیر اعظم ہیں وہ تو ان سے بھی زیادہ عرصہ نکال سکتے ہیں کرپشن عمران خان کر نہیں رہے، اس حوالے سے ان پر کوئی الزام بنتا نہیں، دھاندلی کا الزام بھی غتر بود ہو چکا ہے۔ گھوم پھر کر اپوزیشن کے ہاتھ میں ان کے وعدوں کا پنڈورا بکس ہی تھا، جسے وہ سربازار کھولتی ہے، مگر یوٹرن تھیوری کے ذریعے کپتان نے اس کی پیش بندی بھی کر لی ہے۔
حکومت کے تین بڑے وعدے اس کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ پہلا وعدہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانا، دوسرا وعدہ ایک کروڑ نوکریاں دینا اور تیسرا وعدہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنا۔ باقی بھی بہت سے چھوٹے موٹے وعدے کئے گئے، جن میں پولیس کی اصلاح کا وعدہ بھی شامل ہے، تاہم مذکورہ بالا تین بڑے وعدے جب کئے گئے تھے، اس وقت بھی باعث تنقید بنے تھے اور اب تو اپوزیشن چھری کانٹے سے لیس ہو کر حکومت پر چڑھ دوڑنے کی تیاری کر رہی تھی۔ حالات کو بھانپتے ہوئے کپتان نے چند من پسند کالم نویسوں کو بلا کر یوٹرن کی تھیوری متعارف کرادی، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، جیسے پہلے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں نہ بڑھانے کا کہہ کر بڑھا دی گئیں۔
اسی طرح یوٹرن لیتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ پچاس لاکھ گھر بنانے کی بجائے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا ہے، ایک کروڑ نوکریاں بھی حکومت کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر کے کھاتے میں ڈال کر اس حیران کن ہدف سے نجات حاصل کر لی جائے گی۔ گویا کپتان نے یہ کہہ کر کہ یوٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں ہوتا ہر مسئلے کا حل نکال دیا ہے۔
ایک دور تھا جب آصف زرداری کے بار ے میں کہا جاتا تھا کہ ان کی سیاست سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے مگر یہ بات اب پرانی ہو چکی ہے، اب زمانہ کپتان کا ہے۔
کپتان کو زرداری صاحب یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ کھلاڑی ہیں، انہیں سیاست نہیں آتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آصف علی زرداری سیاست بھول گئے ہیں اور کپتان نے اس کے رموز و اوقاف کو ازبر کر لیا ہے خاص طور پر پاکستانی سیاست کو انہوں نے بدل کر رکھ دیا ہے۔
کل تک جو باتیں سیاست میں معیوب سمجھی جاتی تھیں، آج وہ انہیں ایک خوبی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وی وی آئی پی پروٹوکول کو بھی وہ پاکستانی سیاست کا گند کہتے تھے، آج ان کے صدر، وزرائے اعلیٰ اور گورنر وی آئی پی پروٹوکول کے مزے لے رہے ہیں اور کپتان کچھ نہیں کہتے۔
دوسری طرف آج کل نوازشریف کے یوٹرن کا بھی بہت چرچا ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں اپنے بیان کو استثنا کے کھاتے میں ڈالا ہے۔ بیٹوں کے بیانات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، قطری خط سے انکار کیا ہے۔ اگر عمران خان کا فارمولا اُن پر لاگو کیا جائے تو انہوں نے بھی یوٹرن لے کر خود کو لیڈر ثابت کیا ہے، مگر عمران خان ان کے یوٹرن کو جھوٹ بولنا قرار دیتے ہیں۔ اب ایسا چھکا بھی کپتان جیسا منجھا ہوا کھلاڑی ہی لگا سکتا ہے۔
عمران خان نے واقعی پاکستانی سیاست کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے جو باتیں ایک زمانے میں الزام بن جاتی تھیں، اب انہیں خوبیاں بنا دیا گیا ہے۔ پہلے اسمبلی میں چور، ڈاکو، لٹیرے کہنے والے کو برا سمجھا جاتا تھا، اب اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ چیئرمین سینٹ اگر ایسی باتیں کرنے پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کا سینٹ اجلاس میں داخلہ بند کر دے تو وزیر اعظم عمران خان اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔
سو کھلاڑی نے پورا ماحول تبدیل کر دیا ہے۔ اس حد تک تو تبدیلی سب کو ماننی چاہئے۔ یہ جرأت کا کام ہے، جو عمران خان جیسا لیڈر ہی کر سکتا ہے، تاہم اس سارے معاملے کا ایک فریق عوام بھی ہیں۔ کپتان اپوزیشن کو سبق سکھاتے رہیں، مگر عوام کو نہ بھولیں۔
عوام نے اب بھی عمران خان سے امیدیں باندھ رکھی ہیں، کیونکہ ان کی ایمانداری اور لیڈر شپ پر وہ مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ بھلے جتنے بھی یوٹرن لیتے رہیں، لیکن اگر انہوں نے عوام کی حالت بدلنے، انہیں ایک مثالی پاکستان دینے، کرپشن ختم کرنے، اداروں کو ٹھیک کر کے، عوام دوست بنانے اور میرٹ کو عام کرنے پر یوٹرن لیا تو عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے، کیونکہ ایسا کوئی بھی یوٹرن ان کی شخصیت کے اس گلیمر کو زمین بوس کر سکتا ہے، جو عوام نے اپنے دلوں میں بسا رکھا ہے۔