بہترین ٹیکس نظام ملکی خوشحالی کا ضامن،پھر رکاوٹیں کہاں ہیں؟
پاکستان سمیت دُنیا کا کوئی بھی ملک ٹیکس وصول کئے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، کیونکہ کسی بھی مملکت اور ریاست کو ملکی انتظامی امور چلانے کے لئے،مستحقین کی امداد،سڑکوں،پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر،بڑی نہروں کا انتظام،سرحد کی حفاظت کا انتظام،فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے اور دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے،جوٹیکس وصولی سے پوری کی جاتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ا ن وسائل کو پورا کرنے کے لئے نبی کریمؐ،خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہداور ان کے بعد کے روشن دور میں بیت المال کا ایک مربوط نظام قائم تھااور اس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے۔ اب جس چیز سے لوگ پریشان ہیں، اس کے لئے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ٹیکس کس بلا کام نام ہے؟ جس سے ہم پاکستانی اتناگھبراتے ہیں۔ دراصل ٹیکس کسی بھی ریاست میں رہنے والے شہری کا ریاست کے ساتھ مالی تعاون کا نا م ہے،
جس کے تحت وہ اپنی انکم یا بزنس میں نفع اور اپنی گڈز اور سروس پر ادا کرتا ہے۔بس اس سے زیادہ ٹیکس کچھ بھی نہیں، یہ ہر ذمہ دار شہر ی کی ذمہ داری ہے جس کو ادا کرنا سب پر لازمی ہے۔ اب آجاتے ہیں ایڈوانس ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کیا ہے، ایڈوانس ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، یعنی ان میں کوئی فرق نہیں، ایڈوانس ٹیکس سیلر اور خریدار دونوں کو ادا کرنا ہوتا ہے، مثلا ً اگر آپ کوئی پراپرٹی خریدتے ہیں یا بیچتے ہیں، دونوں صورتوں میں آپ کو ایدوانس ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ایف بی آر کی زبان میں سیلر پر ایڈوانس ٹیکس 236Cکہلاتا ہے، جبکہ خریدار پر 236k کہلاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایڈوانس ٹیکس کب ادا کیا جائے گا؟ تو قارئین اس کا جواب یہ ہے کہ ایڈوانس ٹیکس پراپرٹی کی منتقلی کے وقت ادا کیا جائے گا، لیکن بجٹ 2019ء کے تحت سیلز پر ایڈوانس ٹیکس کی مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے، یعنی یہ کہ پراپرٹی خریدنے کے پانچ سال کے بعد ٹیکس کی شرح 0 ہوجائے گی۔
گین ٹیکس سے مراد کیا ہے، اس کے نام سے بھی انداز ہوجاتا ہے کہ جو بھی گین (حاصل) کیا ہے، اس پر ٹیکس دیں، گین ٹیکس پراپرٹی میں جو بھی نفع آپ نے گین کیا ہے اس کو ریٹرن فائلنگ کرتے وقت ایف بی آر کو ادا کرنا ہوگا۔ اب گین ٹیکس کتنے منانع پر کتنا دینا ہوگا،اس کے لئے مختلف سلیبس بنائے گئے ہیں، جیسے کہ 50 لاکھ اگر گین کیا ہے تو اس پر 5فیصد گین ٹیکس ادا کرناہوگا، اسی طرح ایک کڑور پر 10 فیصد اسی فارمولے کے تحت گین چارجز ہیں۔ آخر میں ایک مثال کے ذریعے بات کو آسان کردیتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں نے پراپرٹی 50 لاکھ کی خریدی، دوسال کے بعد پراپرٹی کی ویلیو 75لاکھ ہوگئی، اور اب میں جب اس کو بیچنے جاتا ہوں تو میں نے اپنی پراپرٹی پر 25 لاکھ کانفع کمایا، اب مجھے اس 25 لاکھ پر5 فیصد گین ٹیکس 1 لاکھ 25 ہزار روپے دینا ہوگااور چونکہ میں پراپرٹی بیچ رہا ہوں تو اس پر ودہولڈنگ ٹیکس 1 فیصد دینا ہے تو 75 لاکھ کا ایک فیصد 75 ہزار ہو گیا تو کل ملا کر مجھے 1 لاکھ 25 ہزار گین ٹیکس اور 75 ہزار ایڈوانس ٹیکس ٹوٹل ڈھائی لاکھ کی رقم ادا کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں سیاسی اختلافات سے ہٹ کر دیکھیں تو چیئرمین ایف بی آر سمیت تمام افسروں اور عملے کی کارگردکی پر کوئی شک نہیں،جنہوں نے دن رات ٹیکس وصولی کے لئے آگاہی مہم، سیمینار سمیت تمام ذرائع استعمال کئے اور کررہے ہیں تاکہ لوگ ملکی ترقی کے لئے ٹیکس ادا کریں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بھی عوام میں ٹیکس کے حوالے خوف کیوں پایا جاتا ہے،لوگ ٹیکس جمع کروانے کے لئے رضامند کیوں نہیں۔ ٹیکس کے حوالے سے صرف لاہور کی بات کی جائے تو محکمہ مال، محکمہ کوآپریٹو پنجاب کا ٹیکس وصولی میں اہم کردار ہے۔ان دونوں محکموں کے کئی افسر بھی پریشان ہیں کہ ٹیکس ہدف میں وصولی میں ناکام کیوں ہیں؟ ماضی گواہ کہ جب بھی کسی ثبوت کی بناء پر حکومت نے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کے لئے حکم جاری کیا تووہ ریکارڈ نذرِآتش ہو گیا۔ اب بھی صورتِ حال وہی ہے، کیونکہ وزیراعظم عمران خان بار بار ٹیکس نظام کی بہتری کے لئے احکامات جاری کررہے ہیں اور کرپٹ عناصر متحرک ہیں۔
ماہرین کہنا ہے کہ کرپٹ لوگ خود ریکارڈکو آگ نہیں لگاتے، بلکہ چھوٹے چھوٹے کرپٹ لوگ چند روپوں کی خاطر بڑے سے بڑے کارنامہ کرجاتے ہیں،جس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوجاتا ہے اورکرپٹ عناصر کیسوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ محکمہ کوآپریٹو پنجاب میں ایک ایسا بھی سینئر کلرک تعینات ہے، جس کا نام لطیف خان ہے، اس کے خلاف متعددکیس زیرسماعت ہیں۔وہ رجسٹرارکے دفتر حاضر تک نہیں ہوتا،بلکہ متعدد ہاؤسنگ سائٹیوں سے مختلف ذرائع سے پیسے بھی وصول کرتا پایا گیا، لیکن نہ محکمے نے اس بات پر نوٹس لیا، نہ ہی حکومت ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات پر غور کرتی ہے،جو بعد میں سانحہ کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ ایسی ہی حالت محکمہ مال کی ہے۔متعدد پٹواریوں کے خلاف کرپشن کے کیس زیرسماعت ہیں،لیکن حکومت خاموش ہے۔
کرپٹ پٹواری حضرات بھی کیس ختم کروانے کے لئے آخری سہار ا آگ کا لیتے ہیں اور ثبوت نذرآتش کرکے باعزت بری ہوجاتے ہیں اور خاندان کے خاندان قتل درقتل ہوتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس وصولی کے نظام کی بہتری کے لئے محکمہ مال،محکمہ کوآپریٹو پنجاب میں عرصے سے تعینات سنیئر اور جونیئر کلرک، جن پر کرپشن سمیت ریکارڈ میں تبدیلی جیسے الزامات کی درخواستیں زیر سماعت ہیں، ان کوکیس کی انکوائری مکمل ہونے تک فارغ کیا جائے۔یہی کرپٹ لوگ چندروپوں کی خاطر ٹیکس نظام کی بہتری میں رکاوٹیں پید اکررہے ہیں اورلوگوں کو ٹیکس نظام سے خوف زد کررہے ہیں۔اگر ایسے معاملات پر نوٹس نہ لیا گیا تو حکومت کے تمام اقدامات رد اور ریکارڈ نذرآتش ہوتے رہیں گے۔