اشتہارات کی آڑ میں بے حیائی کا پرچار
مکرمی! حکمرانوں سے گزارش ہے کہ بے حیائی پھیلانے والے اشتہارات کے اس سیلاب کو روکیں، جو دن رات مختلف چینلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اشتہار…… اپنی مصنوعات کو متعارف کرانے اور فروخت کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ اشتہارات کے لئے پہلے اخبارات، رسائل ذریعہ تھے، پھر ٹیلی ویژن کے ذریعے اشتہار کا سلسلہ چل نکلا۔ اب یہ اشتہارات اس حد تک حاوی ہو گئے ہیں کہ مختلف پروگرام یہ ادارے سپانسر کرتے ہیں۔ چونکہ اشتہارات آمدنی کا ذریعہ ہیں، لہٰذا تمام چینل اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں۔ بلا شبہ اشتہار کاروباری ضرورت بن گئے ہیں، مگر قوموں کے اخلاق و کردار کے مقابلے میں دولت کو فوقیت نہیں دی جا سکتی! ہمارے ہاں برسوں یہ رویہ رہا کہ سگریٹ نوشی کے لئے جو اشتہار دیئے جاتے تھے، اشتہار میں یوں محسوس ہوتا تھاکہ ساری کامیابی صرف سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہے اور آخر میں ایک جملہ لکھ دیا جاتا کہ سگریٹ کینسر کا سبب ہے …… (وزارتِ صحت) …… جیسا کہ آج بھی سگریٹ کی ہر ڈبیہ پر یہ وارننگ درج ہے۔ غنیمت ہے کہ اب یہ اشتہار بند کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ”ساتھی“ کا اشتہار دیا جاتا ہے! بچے سوال کرتے ہیں ابو یا دادا یہ کس چیز کا اشتہار ہے تو وہ منہ لٹکا کر رہ جاتے!
جو چند اشتہارات بار بار آتے ہیں اور پوری ہوشربا کیفیت سے آتے ہیں، ان میں صابن کا اشتہار، صابن کی کرامت سے نیم برہنہ عورت کے جسم کی مہک لٹائی جاتی ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عورت کے جسم کی کشش کا سبب صرف یہ صابن ہے۔ چائے میں دودھ کا اشتہار، کیا رنگ دکھاتا ہے، عورتیں اور مرد وجد میں آتے ہیں اور ثابت یہ کیا جاتا ہے کہ یہ ساری کرشمہ سازی دودھ کا اعجاز ہے۔ جتنا ڈاکٹر اور اطباء حضرات فارمی مرغ کے نقصانات کا ڈھونڈورا پیٹتے ہیں، اتنا ہی مرغ کی سڈول رانوں، ونگز کو کھاتے ہوئے دکھا کر رنگین مشروب سے غٹاغٹ پوری بوتل پی کر ہضم ہونے کا نظارہ کرایا جاتا ہے۔ ظالماں …… پلا دے۔ ایک بوتل کی خاطر عورت کیا ادا اور نخرے دکھاتی ہے۔ بھری ہوئی سبز و رنگین بوتلیں ایک ہی بار معدے میں انڈیل کر خوشی سے مرد اور عورت کو ڈانس کرتے دکھایا جاتا ہے! اسلام نے عورت کا احترام اور ادب سکھایا ہے۔ ہمارے ٹی وی، لان کے اشتہارات اور Always کے اشتہارات میں جو نمائش حسن و ادب کرتے ہیں، وہ قابل غور ہے۔ ٹوتھ پیسٹ ہو، چائے کا اشتہار ہو یا مشروب کا کوئی اشتہار ہو، خواتین کی بے ساختہ مسکراہٹوں، اداؤں اور لچک و چمک کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ عورت اسلام میں مستور رکھی گئی ہے۔ ہمارے اداروں نے اسے اشتہار کی زینت بنا کر شمع محفل اور ناچ گانے اور لڈی ڈالنے والی گڑیا بنا دیا ہے۔
اگر ہمارا وطن اسلام کی بنیاد پر قائم نہ ہوتا، ہم نے اسلام کے نظام کا وعدہ نہ کیا ہوتا، ہم سیکولر ریاست ہوتے تو شاید ایسے فحش اوربے تکے اشتہاروں پر کوئی رد عمل نہ آتا۔ سیکولر ریاستوں کے اشتہارات میں بھی عورت کو ان اداؤں اور دل کھینچنے والی مسکراہٹوں کے ساتھ نہیں دکھایا جاتا، جو ہماری اسلامی ریاست میں ہوتا ہے۔ چند سال پہلے تک اناؤنسر بغیر دوپٹہ کے ڈیوٹی انجام نہیں دے سکتی تھی، اذان کے اوقات میں احتراماً اذان ہوتی تھی، اب تو علماء حضرات بھی، ان اینکر خواتین…… جو پردے اور دوپٹے سے بے نیاز ہیں، ان کے پروگراموں میں لیکچر دینے کے لئے بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر جاتے ہیں۔ کیا علماء یہ جہاد کریں گے کہ خواتین اینکر پرسن کے سامنے پروگرام سے انکار کردیں۔ بے راہروی کو روکنے کے لئے اشتہارات کے لئے سنسر کا نظام لانے کی ضرورت ہے! کیا فردوس عاشق اعوان یہ قدم اٹھائیں گی کہ کسی طرح یہ سیلاب رک سکے؟ (پروفیسرحکیم سید صابر علی)