وزیراعظم کے جانے کے دعوے لیکن عمران خان کے بعد کیا ہوگا؟ سینئر صحافی کا ایسا موقف کہ ہرکوئی سوچنے پر مجبور ہوجائے
اسلام آباد ، لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم سے استعفے کے لیے دیا جانیوالا مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کا پہلا مرحلہ بخوبی اختتام کو پہنچ چکا ہے اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے بھی طبی بنیادوں پربیرون ملک چلے جانے کا امکان ہے ، ایسے میں آرمی چیف سے وزیراعظم کی ملاقات اور پھر عمران خان کی دو چھٹیاں لیے جانے پر سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے شروع ہوگئے، کئی لوگوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ وزیراعظم گھر چلے جائیں گے لیکن اب اس سارے معاملے پر سینئر کالم نویس لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان نے مجموعی معاشرتی و سیاسی صورتحال سے پردہ اٹھایا ہے ۔
روزنامہ پاکستان میں چھپنے والے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ "پانامہ لیکس سے لے کر آج تک ہماری سیاست صرف ایک ہی خاندان کی مدح سرائی یا کردار کشی کے گرداگرد گھوم رہی ہے۔ ان گزشتہ 1000 دنوں میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس میں ہمارے میڈیا نے نواز شریف صاحب یا بلاول بھٹو صاحب کے سوا کسی تیسرے کردار کو اپنی شہ سرخی کا حصہ بنایا ہو یا خبرنامے میں اولیت دی ہو۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا سارا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں کسی تیسری شخصیت کا نام آئے گا بھی تو وہ ان دونوں شخصیات کا بلواسطہ تکملہ یا تتمّہ ہوگا۔
بھٹو مرحوم کا نام تو شہادت کا ایک بڑا استعارہ بن چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی تو اس کو فوج کے انتقام کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور جب بینظیر بھٹو صاحبہ قتل کی گئیں تو ان کو بھی شہادت کے مرتبے پر سرافراز کردیا گیا، حالانکہ نہ ذوالقار علی بھٹو شہید تھے اور نہ بینظیر صاحبہ شہید ہوئی تھیں …… پھانسی اور قتل کو شہادت کا لباس پہنا دیا گیا کہ ایسا کرنا حصولِ اقتدار کے لئے لازمی تھا۔ بینظیر صاحبہ کو بینظیر زرداری کی جگہ بینظیربھٹو کا نام دیاگیا اور آج بلاول زرداری کو بھی بلاول بھٹو کہہ کر پکارا اور دکھایا جاتا ہے۔ اگر آنے والے کل میں بلاول وزیراعظم بن جاتے ہیں اور شادی رچا لیتے ہیں تو میں ڈنکے کی چوٹ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے بچوں کے نام کے بعد بھی بھٹو کا لاحقہ لگا دیا جائے گا……
شریف فیملی کا حال بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ حسن اور حسین کے ناموں کے ساتھ تو شریف کا لاحقہ ان کا آبائی حق ہے لیکن مریم نواز صاحبہ کو مریم صفدر صاحبہ نہیں کہا جاتا …… کیا یہی جمہوری روایات ہیں؟ …… دراصل ہمارے رگ وپے میں جمہوریت نہیں بادشاہت سمائی ہوئی ہے۔ پاکستان کی اکثریت جمہوریت پرستی پر نہیں شاہ پرستی پر یقین رکھتی ہے۔ نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کو نیب/ عدالت سے جب سزا ہو جاتی ہے تو عدالت سے جیل جاتے ہوئے ان کی بی ایم ڈبلیو وغیرہ پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں۔ آپ بتایئے کہ اس عمل کو شاہ پرستی کہا جائے گا یا جمہور پرستی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی نوع انسان میں روز اول سے شخصیت پرستی کا عنصر پایا جاتاہے۔ ایک لاکھ 24ہزار پیغمبروں کو بڑی آسانی سے بادشاہ اور شہنشاہ کہہ کر ان کی متابعت کی جا سکتی تھی۔ یہ توخود ان پیغمبروں نے اقرار کر لیا کہ وہ خدا کے بندے (عبد) پہلے اور رسول (فرستادۂ خدا) بعد میں ہیں وگرنہ ان کی امتیں ان کو ہی خدا سمجھنے سے گریز نہ کرتیں۔ اقبال نے اسی لئے انسانی نظر کو خوگرِ پیکرِ محسوس کہا تھا۔ اس پیکرِ محسوس کو یورپ نے صدیوں تک ”بادشاہوں کا الو ہی حق“ (Devine right of Kings) کہا اور بادشاہت سے جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھنے کے سفر نے نجانے کتنے ہزاروں لاکھوں انسانوں کی جان لے لی! بعض یورپی اور ایشیائی ملکوں میں اب تک شاہ پرستی کا ایک مضبوط دبستان موجود ہے۔ انگلستان، ڈنمارک اور جاپان وغیرہ میں شاہی خانوادوں کا ایک بڑا طائفہ موجود ہے اور وہاں کی آبادیوں کا ایک بڑا حصہ ان کو آج بھی ”الوہی اوتار“ مانتا ہے۔
مغرب کے برعکس گزشتہ صدی کے وسط میں برصغیر کی جمہوریت ایک ”پرامن انتقال“ کی صورت میں ہم پاکستانیوں (اور بھارتیوں) کو ملی۔ اگست 1947ء میں جب انگریز برصغیر سے رخصت ہوا تو یہاں کے باشندے جمہوریت کے وسیع تر مفہوم سے بالکل ناآشنا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جمہوریت کی ہمیشہ تکذیب اور نفی کی۔ ان کی نظر میں دیوِ استبداد جمہوری قبا میں محوِرقص تھا جسے ہم آزادی کی نیلم پری سمجھتے رہے۔ ایک اور شعر میں یہی حقیقت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
یہ بحث دراز ہو جائے گی۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اگست 1947ء میں جو ملک ہمیں انگریزوں کی طرف سے ورثے میں ملا اس میں وہ جمہوریت ہمارے حصے میں نہ آئی جو انگریزوں کے انگلستان میں مروج تھی۔ برٹش جمہوریت کا ایک بڑا حصہ (Segment)برٹش رائلٹی (بادشاہت) پر مشتمل تھا۔ اگر پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح اور انڈیا میں پنڈت جواہر لعل نہرو کو شاہِ پاکستان اور مہاراجہء بھارت بنا دیا جاتا اور اس کے ساتھ جمہوری نظام کا ایک الگ دبستان تخلیق کر کے ہمارے حوالے کر دیا جاتا تو پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی جو گزشتہ 72برسوں میں ہوئی …… میں انڈیا کی بات نہیں کروں گا کہ اس سے یہ کالم طول کھینچ جائے گا …… صرف پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارے گزشتہ سات عشرے اسی کشمکش میں گزرے۔
ہمارے عوام جمہوری نظام کے خوگر نہیں تھے لیکن اگست 1947ء میں جو دیمک خوردہ ملک ہمیں ملا اس کو جمہوری طرز پر چلانے کی کوشش کی گئی لیکن صرف ایک عشرے بعد فوج کو مداخلت کرنی پڑی۔ فیلڈ مارشل کا مارشل لا، حصولِ اقتدار کی کوشش نہ تھا بلکہ اس جمہوری نظام کی ناکامی کا سبب تھا جس میں ہر دو چار ماہ بعد نیا وزیر اعظم اور نئی کابینہ لانی پڑتی تھی۔ اور بعد کے مارشل لاوں کے تجربات بھی یکے بعد دیگرے اس لئے ناکام ہوئے کہ مارشل لائی ایڈمنسٹریٹروں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کی۔ ستم یہ بھی ہوا کہ یہی کوشش، مارشل لاؤں کے بعد آنے والے جمہوری حکمرانوں نے بھی کی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ حکمران سیاسی پارٹیوں میں جمہوری کلچر کی وہی روایات اپنائی جاتیں جو مغرب میں برطانیہ، یورپ، فرانس اور جرمنی وغیرہ میں تھیں۔
وہاں وزیر اعظم ابنِ وزیر اعظم اور صدر ابنِ صدر کی کوئی روایت نہیں تھی جبکہ پاکستان میں ذوالفقار بھٹو کے بعد پی پی پی کا کوئی ”غیر بھٹو“ سربراہ نہ بنایا گیا بلکہ ان کی صاحبزادی کو عنان ِ اقتدار سونپی گئی اور جب وہ ایک حادثے میں ماری گئیں تو ان کے نو عمر بیٹے کی جگہ ان کے شوہر نے اقتدار سنبھالا اور جب بیٹا بلوغت کو پہنچا تو اسے بلاول زرداری کی جگہ بلاول بھٹو کا نام د ے کر اس سلسلہء شاہی کو آگے بڑھایا گیا۔ دوسری طرف یہی حال نون لیگ کا بھی ہوا۔
اس کے نام کے نون میں نواز شریف صاحب کی شخصیت کو اجاگر کیا گیا اور جب عدالتوں نے نواز شریف صاحب کو اقتدار سے الگ کر کے حوالہء زنداں کر دیا تو ان کی جگہ پارٹی کے کسی دوسرے رہنما کو نہ دی گئی بلکہ شہباز شریف کو دی گئی جو ان کے سگے چھوٹے بھائی تھے، اور آج اگر وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ان کے علاج معالجے کے لئے ان کے ساتھ لندن جا رہے ہیں تو نون لیگ کی قیادت مریم نواز صاحبہ کو دی جائے گی نہ کہ کسی ”غیر نواز شریف“ لیگی رہنما کو………… کیا ہمیں یاد نہیں کہ جب خاقان عباسی کو سیاسی صورتِ حال کے جبر نے وزیر اعظم بنا دیا تو انہوں نے بار بار اپنے عجز کا اظہار یہ کہہ کر کیا کہ: ”میں پاکستانیوں کا وزیر اعظم تو شائد ہوں گا لیکن میرا وزیر اعظم نوازشریف ہے۔“
آپ دیکھتے جائیں ہمارا میڈیا نواز شریف کے جانے کے بعد ان کی ذات ہی کے گرد طواف کرتا رہے گا۔ خدا ان کی عمر دراز کرے۔ اگر ان کو خدانخواستہ کچھ ہو گیا تو ان کو بھی ”شہیدِ جمہوریت“ کے نام سے یاد کیا جائے گا اور ان کی جگہ ان کی اولاد ہی لے گی۔ یہی پاکستانی جمہوریت ہے اور یہی اس جمہوریت کا حسن ہے۔
عمران خان وزیر اعظم تو بن گئے ہیں لیکن ان کو پاکستانی عوام کی غلامانہ جبلّت کی خبر کم کم ہے۔ ان کی ساری تربیت دیارِ انگلستان میں ہوئی ہے جہاں کی جمہوریت، پاکستانی جمہوریت سے کوسوں دور ہے۔
وہاں انگلستان میں کسی وزیر اعظم کا بیٹا وزیر اعظم نہیں بنتا اور نہ وہاں کی پبلک اس کو بننے دیتی ہے جبکہ ہماری پاکستانی پبلک کی ذہنیت بنیادی طور پر شاہ پرست ہے۔ انگلستان میں شاہ پرستی کے مرض کا علاج کرنے کے لئے ”بادشاہت“ کا ادارہ بھی ساتھ ہی قائم کر دیا گیاتھا …… یہی وجہ ہے کہ وہاں کا بادشاہ بادشاہی کرتا ہے، حکمرانی نہیں!…… سوال یہ ہے کہ آیا عمران خان اہلِ پاکستان کی اس ذہنیت کو تبدیل کر سکتے ہیں؟………… میرا خیال ہے وہ ایسا نہیں کر سکتے…… وہ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد ان کی پارٹی کا کوئی اور رہنما وزیر اعظم بن جائے گا۔
لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستانی عوام اس رہنما کو وزیر اعظم تسلیم نہیں کریں گے اور یہی رٹ لگائیں گے کہ: ”یہ رہنما پاکستان کا وزیر اعظم تو ہوسکتا ہے،میرا وزیر اعظم صرف عمران خان ہی ہو گا!“ ……دوسرے لفظوں میں عمران خان کا بت توڑنے کے لئے کسی محمود غزنوی کو افغانستان سے لانا پڑے گا کہ پاکستان ایسے بت شکن پیدا نہیں کرتا"۔