حال بے حال
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں پولیو اور ڈینگی ابھی تک موجود ہیں لاکھ جتن کے بعد اگر کورونا نے سر جھکایا تو عوام ڈینگی سے لقمہ اجل بننے لگے گزشتہ دور میں میاں شہباز شریف نے بھی ڈینگی کے خاتمے کے لیے کافی اقدامات کیے مگر ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس موذی مرض کو جڑ سے ختم نہ کیا جا سکا لیکن ان کے دور میں ڈینگی ٹیمیں بار ہا گلی محلوں میں جایا کرتیں اور کثرت سے سپرے کیے جاتے تھے لیکن اس بار ڈینگی کے پھیلاؤ کے چند ماہ تک بیشتر علاقوں میں نہ تو کوئی ٹیم سپرے کرنے گئی اور نہ ہی آگاہی مہم موثر انداز میں چلائی جا سکی لیکن حال ہی میں حکومت نے بھر پور ایکشن پلان کے ذریعے عملی اقدامات شروع کیے اور حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کہ وہ ڈینگی پر مکمل طور پر قابو پا سکے درحقیقت گزشتہ برس کورونا کی سختی کے باعث ڈینگی مہم کو اس شدت سے نہیں چلایا جا سکا کہ جس کی اشد ضرورت تھی اس پر سوشل میڈیا اس کی تمام تر ذمہ داری کلی طور پر حکومت پر عائد کرتا ہے جس کا جواز یہ ہے کہ اگر حکومت آنے والے چیلنجز کا ادراک نہیں کرئے گی تو کون کرئے گا مگر میں اس معاملے میں وزیر اعظم کی اس بات سے متفق ہوں کہ اگر ادارے مظبوط ہو ں تو حکومت و عوام کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑتا اسی لیے وزیراعظم بارہا کہہ چکے ہیں کہ حکومت کی اولین ترجیح اداروں کو حکومتی تسلط سے آزاد کرنا ہے تاکہ وہ خود آزادانہ پالیسیاں مرتب کر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کر سکیں لیکن بدقسمتی سے حکومت اس مقصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
اس کی بہترین مثال برطانوی ادارہ صحت این ایچ ایس ہے جو خدمات بخوبی انجام دے رہا ہے کہ جہاں ادارے آزاد ہیں جو اپنی پالیسیاں آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر مرتب کرتے ہیں اور حکومت کو اپنی سفارشات بروقت پیش کرتے رہتے ہیں تاکہ مستقبل میں درپیش چیلنجز کو احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔ اسی ضمن میں این ایچ ایس اور برطانوی ادارہ صحت نے حکومت کو سفارشات پیش کرتے ہوئے لکھا کہ کورونا مہم کے ساتھ ساتھ عوام کو فلْو ویکسین بھی لگائی جائے تاکہ کورونا اور فلْو ایک ساتھ ہونے سے عوام کے لیے جان لیوا ثابت نہ ہو۔ این ایچ ایس اور برطانوی ادارہ صحت کی ان سفارشات کے بعد حکومت برطانیہ نے بروقت اقدامات کیے اور سردیوں کے آغاز سے ہی فلْو ویکسین کی مہم کا بھی آغاز کر دیا تاکہ کسی بھی قسم کی مشکل سے عوام کو محفوظ رکھا جا سکے، حالانکہ اس وقت کورونا کے دوبارہ بڑھتے ہوئے رْحجان کے باعث قوی امکان ہے کہ یورپ و برطانیہ کسی بھی وقت نئے لاک ڈاؤن کی طرف جا سکتے ہیں تقریباً ہر روز برطانیہ میں 35000 کورونا کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جس کے اثرات خدانخواستہ پوری دنیا پر ہو سکتے ہیں۔اسی طرح پاکستان کے ادارہ صحت کو بھی آگے بڑھ کر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور اپنی سفارشات بروقت حکومت کو پیش کرنا چاہئیں تاکہ مستقبل کے چیلنجز کا بروقت مقابلہ کیا جا سکے اسی طرح اس موذی مرض کے لیے پاکستانی ادارہ صحت کو موثر دوا سازی پر کام کرنا چاہیے جس سے ہی شاید اس کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
حکومت کو اس پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ گزشتہ کئی ماہ سے لاہور کے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف پر بھی بوجھ میں مزید بڑھو تری دیکھنے میں آرہی ہے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’اس وقت لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں ڈینگی کے تقریباً 1300 سے زیادہ مریض زیر علاج ہیں البتہ محکمہ صحت کے مطابق اس وقت پنجاب بھر میں تقریباً ساڑھے سات ہزار سے زیادہ ڈینگی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس میں سب سے زیادہ کیسز لاہور شہر میں پائے جاتے ہیں اور ابھی بہت سے مریض یا تو صحت یاب ہو چکے ہیں یا پھر گھروں تک محدود ہیں۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں ڈینگی ٹیسٹ کی قیمت 90 روپے مقرر کی تھی۔ اب اسی ٹیسٹ کی قیمت 800 روپے تک وصول کی جا رہی ہے بہت سی پرائیویٹ لیب اپنی مْنہ مانگی قیمت وصول کر رہی ہیں حد یہ ہے کہ ’اگر کسی کو ٹیسٹ میں زیادہ تفصیل چاہیے تو وہ ہی ٹیسٹ 3000 روپے تک جا پہنچتا ہے جسے مریض کو تقریباً ہر دوسرے دن کروانے کی ضرورت پیش آتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں روپے صرف لیب کی نظر ہو جاتے ہیں پھر اگر پلیٹلیٹس لگوانے پڑیں تو کراس میچ سمیت دیگر ٹیسٹوں پر اٹھنے والا خرچہ 35000 ہزار تک جا پہنچتا ہے صرف بات یہاں تک محدود نہیں لیب سے ٹیسٹ کروانے کا وقت لینے کے لیے اور پلیٹ لیٹس لگوانے کے لیے ایک لمبی قطار کا سامنا کرنا پڑتا ہے دوسری طرف ادویات کی قیمتوں میں ہوش رْبا اضافہ عوام کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہے سرکاری ملازمین و پنشنرز تو مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس چکے ہیں اور غریب عوام کا پرسان حال تو خدا کے سوا کوئی نظر نہیں آتا جس طرف دیکھے حال و بے حال ہے افراتفری، مہنگائی اور بے یقینی ہے عام استعمال کی اشیا عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں اور اوپر سے بیماری کبھی ڈینگی تو کبھی کورونا پل پل جینا تو پل پل مرنا، پریشانی اور ڈپریشن کا شکار لوگ سڑکوں پر بچے فروخت کرتے دیکھائی دے رہے ہیں مگر مجال ہے کہ حکومت اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدامات کر سکی ہو ان حالات میں عام شہری حکومت وقت کے اقدامات پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔ حکومت کو ان حالات کا از سر نو جائزہ لے کر عوام کو رلیف دینا چاہیے تاکہ صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔