امریکی کانگریس کے 46 اراکین نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قید سے متعلق امریکی صدر جوبائیڈن سے خط کے ذریعے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور جمہوری اقدار کی پامالی کے حوالے سے فوری اقدامات کی اپیل کی ہے۔تفصیلات کے مطابق کانگریس کے اراکین نے خط میں رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی، بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں،الیکشن فراڈ اور حکومتی اداروں کی طرف سے پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا۔اُنہوں نے پاکستانی حکام کی جانب سے عوامی آزادی، خاص طور پر آزادیئ اظہار کو محدود کرنے، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور غیر قانونی حراست کے علاوہ سوشل میڈیا پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔امریکی صدر کو لکھے گئے خط میں سابق وزیراعظم عمران خان کی مبینہ غیر قانونی حراست کو اہم نکتہ بنایا گیا اور اُنہیں پاکستان کا سب سے مقبول سیاسی رہنماء قرار دیا گیا۔ خط کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عمران خان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ یاسمین راشد اور شاہ محمود قریشی سمیت پارٹی کی سینئر قیادت کا ایک سال سے زیرحراست ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ارکان نے امریکی صدر سے پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے کی پالیسیوں پر نظرثانی کی درخواست کے ساتھ ساتھ پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کی تشویش کو سفارتی پالیسیوں میں شامل نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد میں نئے سفیر کو انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے مشن کا پابند کیا جائے۔ خط میں پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے وقت سفارت خانے کے فوری مثبت بیان پر تنقید بھی کی گئی۔ ارکان نے یہ بھی لکھا کہ عام انتخابات کے بعد سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور شہری آزادی سلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے،اِس لیے امریکی قرارداد نمبر 901 کے مطابق پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ واضح رہے کہ رواں سال جون میں امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد نمبر 901 منظور کی گئی تھی جس کے حق میں 368 ارکان نے ووٹ دیا تھا،جبکہ سات اراکین نے اِس کی مخالفت کی تھی۔ اِس قرارداد میں پاکستان میں رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں ”مداخلت یا بے ضابطگی“ کی آزادانہ اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ امریکی ایوان نمائندگان پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل کو تباہ کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتا ہے، ایوان نمائندگان پاکستان میں جمہوریت کے لئے اپنی مضبوط حمایت کے عزم کو دہراتا ہے جس میں پاکستان کے عوام کی مرضی کی عکاسی کرنے والے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات شامل ہیں۔
رہنماء پیپلزپارٹی سینیٹر شیری رحمان نے اِس خط کو غیر ملکی مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خط ”حقیقی آزادی“ بیانیے کے تابوت میں ایک اور کیل ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی اِس معاملے پر اِسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا۔امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے یہ کوئی پہلا خط نہیں ہے، ابھی گزشتہ ماہ ہی امریکی ایوان نمائندگان کے60 سے زائد اراکین نے صدر جو بائیڈن کو خط لکھا تھا جس میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت پاکستانی جیلوں میں موجود سیاسی قیدیوں کی رہائی کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کانگریس کے رکن گریگ کیسر کی زیر قیادت ایک گروپ نے جو بائیڈن سے پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں انسانی حقوق کو مرکزی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اِس خط پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ خط کا جواب مناسب وقت آنے پر دیا جائے گا۔ اِس سے قبل بھی رواں سال فروری میں بھی گریگ کیسر نے امریکی کانگریس کے قریباً 30 ارکان کے ہمراہ صدر جو بائیڈن اور سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کو عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں اپنے خدشات سے متعلق خط لکھا تھا۔ مبصرین کے مطابق یہ سب پی ٹی آئی کی لابنگ کا نتیجہ ہے۔ ویسے بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی عمران خان کے لئے حمایت کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2022ء میں جب بانی پی ٹی آئی عمران خان کو تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا تھا تو اُنہوں نے اِس کا سارا ملبہ امریکہ پر گرایا تھا، اُن کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ امریکہ کی ایماء پر ہی کیا گیا ہے، اْنہوں نے ”ہم کوئی غلام ہیں“ کا نعرہ بلند کیا، ”ایبسلوٹیلی ناٹ“ کی دہائیاں دیتے رہے، گو کہ بعد میں اُنہوں نے اپنی توپوں کا رُخ موڑ کر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف کر لیا تھا۔ امریکی انتظامیہ مسلسل اِن سب الزامات کی تردید کرتی رہی، کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ نے امریکہ کے جنوبی وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو پاکستان کے انتخابات سے متعلق سماعت کے دوران گواہ کے طور پر طلب بھی کیا تھا، ڈونلڈ لو نے عمران خان کی حکومت گرائے جانے میں امریکی مداخلت کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی سازش کا الزام جھوٹ ہے، وہ پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔ ویسے تو پی ٹی آئی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے کافی خوش ہے، اِس کے رہنماء برملا نومنتخب صدر کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اُن کا خیال ہے کہ ٹرمپ عمران خان کی رہائی میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بانی پی ٹی آئی کو ”دوست“ مانتے ہیں۔ عمران خان نے بطور وزیراعظم وائٹ ہاؤس کا دورہ 2019ء میں کیا تھا اور اُس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے، پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ایسا پروٹوکول اِس سے قبل کسی پاکستانی رہنماء کو وائٹ ہاوس میں نہیں ملا حالانکہ سابق صدرجنرل (ر) ایوب خان کی مرتبہ یہ تاریخ لکھی جا چکی ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف 24 نومبر کو دارالحکومت اسلام آباد کی طرف مارچ کی تیاری کر رہی ہے، ایسے میں اِس خط کے لکھے جانے پر انتہائی مسرور ہے اور اِسے پارٹی کے ”ایکس اکاؤنٹ“ کی شان بھی بنا چکی ہے۔ پی ٹی آئی بیرونی مدد کی خواہش میں مبتلا ہے، اِدھر اُدھر کوشش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی تو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کو بھی خط لکھ چکی ہے کہ پاکستان کی امداد تب تک نہ کی جائے جب تک انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات نہ ہو جائیں اگرچہ کہ ایسا نہ ہو سکا، آئی ایم ایف نے نہ صرف اُس وقت مدد کی بلکہ اب تو ایک نیا پروگرام بھی پاکستان کو دے چکا ہے۔ ملکی معیشت مین اگرچہ بہتری آئی ہے تاہم مسائل اب بھی ختم نہیں ہوئے،عام آدمی پریشان ہے، رہی سہی کسر سموگ نے پوری کر دی ہے، پنجاب میں اتوار تک تین دن کا لاک ڈاؤن لگا رہا، کاروباری سرگرمیاں محدود کر دی گئی تھیں،ایسے میں سیاسی جماعتیں اپنے ہی مسائل میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ نوجوان ملک چھوڑ کر جانے کے درپے ہیں، پاکستان کے اندرونی مسائل کا اثر بیرونی معاملات پر بھی پڑ رہا ہے،پاکستانیوں کو دوسرے ملکوں کے ویزے ملنے مشکل ہو رہے ہیں، اب تو اُن ممالک میں جہاں پاکستانی بآسانی آیا جایا کرتے تھے وہاں بھی مسائل سامنے آنے لگے ہیں، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج بُری طرح متاثر ہو رہا ہے لیکن کسی کو اِس کی پرواہ نہیں ہے۔ اہل ِ سیاست اِس وقت جتنا زور اپنے اپنے مفادات کی خاطر لابنگ کرنے میں صرف کر رہے ہیں اُتنا ہی زور اگر پاکستان کا مثبت تاثر بنانے میں لگا لیں تو سب کے ہی حق میں بہتر ہو گا۔ مناسب یہی ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف مل بیٹھیں، اپنے اپنے رویوں پر غور کریں اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں۔ ہر وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے نظام کو مضبوط بنانے اور ریاست کے معاملات آگے بڑھانے کا اہتمام کریں، صرف اور صرف پاکستان کا مقدمہ لڑیں۔