اب24نومبر،یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟

Nov 18, 2024

نسیم شاہد

24نومبر کا انتظارکرنا چاہئے یا اُس سے پہلے احتجاج کی کال واپس لینے کے لئے سیاسی رابطوں کو متحرک کیا جانا چاہئے، حکومت کے پاس غالباً اِس وقت بھی وہی آزمودہ آپشن ہے،جو پچھلے دو برسوں میں آزمایا گیا ہے، گرفتاریاں کرو، کنٹینرز لگاؤ، زندگی مفلوج کر دو،وقت گزر جائے تو سب کچھ کھول کر پھر حکمرانی کے مزلے لیتے رہو۔ دیکھنا یہ ہے اِس بار یہ نسخہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔عمران خان نے کہا ہے یہ فائنل کال ہے اسلام آباد پہنچ کر واپس نہیں آئیں گے،جب تک مطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے، تحریک انصاف کے رہنما بھی ماریں گے یا مر جائیں گے،کا بیانیہ عام کر رہے ہیں۔معاملہ سنجیدہ ہے،مگر حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ایسے مواقع پر کچھ نرم سیاسی بیانات اور کچھ ہم آہنگی کے ارشارے دینے پڑتے ہیں جبکہ یہاں یہ عالم ہے حکومت کے وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نو مئی کا سیاپا لے بیٹھے ہیں اور میڈیا پر آ کر بتاتے ہیں نو مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج مل گئی ہیں،جس میں صاف دیکھا جا سکتا  ہے تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی لوگوں کو تنصیبات پر حملے کے لئے اُکسا رہے ہیں،چونکہ یہ فوٹیج سامنے آ گئی ہے اِس لئے عدالتیں نو مئی کے مقدمات کی سماعت جلد مکمل کر کے فیصلے سنائیں۔اِس حوالے سے اب کئی سوالات اُٹھ سکتے ہیں اِن سی سی ٹی وی فوٹیج کی صحت پر سوالات اُٹھ سکتے ہیں پھر سب سے اہم بات یہ ہے اگر یہ ثبوت سامنے آ گئے ہیں تو میڈیا کو بتانے کی بجائے عدالتوں میں پراسیکیوشن کے ذریعے پیش کیے جائیں، صرف یہ ڈکٹیشن دینا کہ چونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کے ثبوت موجود ہیں اس لئے جلد فیصلے سنائیں گے۔ایسی باتیں کر کے ماحول کی تلخی میں اضافہ تو کیا جا سکتا ہے،کمی نہیں لائی جا سکتی،عوام بھی اِس قسم کی باتوں کو اب اہمیت نہیں دیتے، جو بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی وہ اِس وقت سیاسی کشیدگی کا عروج ہے۔ جب تک اسے کم کرنے کی کوئی راہ نہیں نکالی جاتی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ اچھی بات ہے نواز شریف وطن واپس آ گئے ہیں۔وہ ایک مدبر قیادت کا کردار ادا کر کے اِس حوالے سے کوئی کردار ادا کریں تو یہ ملک اور جمہوریت کے لئے ایک بڑا قدم ہو گا۔پاکستان روانگی سے پہلے انہوں نے لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا سیاسی کشیدگی کا ذمہ دار عمران خان ہے،اُس نے میری بات مانی ہوتی تو ہمیں تکالیف نہ اٹھاتی پڑتیں اور ہم آج مل کر کام کر رہے ہوتے۔ چلیں جی میاں صاحب کی اِس بات کو مان لیتے ہیں تاہم اس وقت بھی بدلا تو کچھ بھی نہیں صرف کردار بدل گئے ہیں میاں صاحب کی جگہ آج عمران خان تکالیف برداشت کر رہے ہیں اور عالم وہی ہے کہ سیاسی قوتیں مل کر نہیں چل رہیں۔ جمہوریت ہونے کے باوجود جمہوریت کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں،دباؤ کا سامنا ہے، کیا نواز شریف غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کوشش کریں گے کہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی لائی جائے۔ کیا وہ اب عمران خان کو  مل کر چلنے کی دعوت دیں گے، کیا تحریک انصاف  کے رہنماؤں کو جن تکالیف کا سامنا ہے،اُن کے خلاف آواز اٹھائیں گے؟ بظاہر نہیں لگتا کہ وہ ایسا کوئی کام کریں گے، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اُن کی ایسی باتوں کا کیا فائدہ جو ماضی کے گڑھے مردے اکھاڑنے کے فن میں آتی ہیں۔

ملک کا سیاسی ماحول گرم ہے۔اس میں عدم استحکام موجود ہے۔نواز شریف نے کہا ہے احتجاج کی کال ملک کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ہے جو کامیاب نہیں ہو گی۔ایک حکمران جماعت کے قائد کی حیثیت سے یہ اچھا بیان ہے اور انہیں یہی دنیا چاہئے تھا،مگر کیا ملک میں ڈی ریل  ہو تو نقصان ہوتا ہے،کیا بے یقینی اور عدم استحکام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔وزیر خزانہ کا بیان ریکارڈ پرہے کہ اب تو کوئی دوست ملک قرضہ دینے بلکہ قرضوں کو ری شیڈول کرنے کے لئے بھی تیار نہیں،سرمایہ کاری آ نہیں رہی، سٹاک ایکسچینج بہتر ہو رہی ہے تو اُس کا اثر نچلی مہنگائی پر کیوں نہیں آ رہا۔بیرون ملک کبھی امریکہ اور کبھی برطانیہ کی طرف سے سیاسی آزادیوں اور ریاستی دباؤ پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی بھی ایک بڑا عنصر ہے،جو پاکستان پر اگلے دو ماہ میں اثر انداز ہو سکتا ہے۔اگر حالات اسی طرح چلتے رہتے ہیں،ایک طرف سے احتجاج کی کال آتی ہے اور دوسری طرف پوری ریاستی مشینری اُسے دبانے پر لگ جاتی ہے تو اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکے گا ملک کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔یہ ایک ڈیڈ لاک ہے اسے تسلیم کیوں نہیں کیا جا سکتا، مانا کہ تحریک انصاف کے مطالبات بہت سخت ہیں، جو حکومت کو گلے کی ہڈی بنتے نظر آ رہے ہیں، لیکن شروعات تو کی جانی چاہئیں، واضح طور پر حکمت عملی صرف ضد اور اَنا پر مبنی دکھائی دے رہی ہے۔بعض اوقات تو یوں لگتا ہے حکومت بھی اِس معاملے میں بے بس اور اُسے مفاہمت کی طرف جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔عمران خان کے لئے بہت آسان ہے وہ اڈیالہ جیل میں بیٹھ کے احتجاج کی کال دے کر حکومت کو احتجاج روکنے کے بخار میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اگلے چند دِنوں میں اسلام آباد میں خاص طور پر زندگی اجیرن ہو جائے گی، جگہ جگہ کنٹینرز شہر کا چہرہ بگاڑ دیں گے۔ ابھی چند ہفتے پہلے یہ شہر یہ دارالخلافہ اس قسم کے حالات سے گزرا ہے۔دنیا کے تمام ملک اس صورتحال سے براہِ راست باخبر رہتے ہیں کہ اُن کے سفارتخانے انہیں  لمحے لمحے کی رپورٹ دیتے ہیں اس کا پاکستان کے حالات اور جمہوری تشخص پر کیا اثر پڑتا ہے اسے سمجھنا کوئی بہت مشکل سائنس نہیں۔

سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی بھی ایک حد ہوتی  ہے۔کوئی ملک بھی کئی کئی سال تک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ایک طرف تحریک انصاف ہے جو خاموش بیٹھ نہیں سکتی کہ اُس کے بانی کو جیل میں ڈالا ہوا ہے۔مینڈیٹ چوری کے الزامات اس کا بیانیہ ہے اور پولیس کی سختیاں اسے سیاسی مظلوم  بنانے کا باعث ہیں اس نے تو ہلچل پیدا کرنے کا سامان کرنا ہی ہے۔ ایسے مواقع پر جو اقتدار میں ہوتے ہیں وہ ایک سیاسی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہیں۔بات چیت کا روزن کھولتے ہیں۔ اپوزیشن کو اچھوت نہیں سمجھتے،بلکہ اُسے سیاسی طور پر مذاکرات کی میز پر آنے کی سنجیدہ دعوت دیتے ہیں۔یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔یہ کوئی چھوٹا سا گروہ، یا تاجروں کا چھوٹا سا احتجاج تھوڑی ہے جسے ریاستی طاقت سے دبایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت کا احتجاج ہے،جس کے پاس سٹریٹ پاور بھی ہے،اسے روکنے کے لئے شہر اور راستے بند کرنے کی حکمت عملی کشیدگی بڑھا تو سکتی ہے، ختم نہیں کر سکتی۔کاش قومی سطح پر سیاسی قیادت کوئی اور ڈیڈ لاک کا حل نکالے۔ایک بڑے سیاسی ڈائیلاگ کا اہتمام کرے اور اتفاقِ  رائے سے ایک نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھ کر ملک کو سیاسی،معاشی اور سماجی استحکام کی طرف گامزن کر دے۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں