دس نومبر کی صبح زہرہ قدیر کے فون کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی مگر کوئی فون اٹھا نہیں رہا تھا۔ آج سے قبل ایسا بہت کم ہوا تھا کہ زہرہ کے فون پر اتنی بار کالز کرنے کے باوجود کوئی جواب نہ آیا ہو۔زہرہ کو سعودی عرب سے واپس آنے کے بعد والد کے گھر سے اپنے سسرال گئے ابھی تین دن ہی ہوئے تھے۔زہرہ کے والد شبیر احمد اسی سوچ میں تھے کہ انھیں زہرہ کے شوہر کا سعودی عرب سے فون آیا اور انھوں نے بھی یہی بات دہرائی کہ زہرہ سے رابطہ نہیں ہو رہا۔زہرہ کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ دن میں دو تین بار اپنے والد اور شوہر کو فون کر کے ان کی خیریت دریافت کرتی تھی۔ وہ سعودی عرب میں مقیم اپنے شوہر کو بھی دن میں متعدد مرتبہ کالز کر کے اپنے اڑھائی سالہ بیٹے اور اپنی خیریت سے متعلق آگاہ کرتی تھی۔ایسے میں جب زہرہ نو ماہ کی حاملہ تھیں تو ان کے شوہر اور والد کی جانب سے ان کے فون نہ اٹھانے پر پریشان ہونا فطری تھا۔ شاید اسی لیے وہ زہرہ سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے تھے۔مگر ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زہرہ کے ساتھ ان کی ساس (جو ان کی سگی خالہ بھی ہیں) اور نندوں (یعنی ان کی کزنز) نے کیا ظلم کیا ہے۔سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں جب زہرہ قدیر پر کیے گئے ظلم کا راز افشا ہوا تو پورا علاقہ اس ہولناک واردات سے سکتے میں آ گیا۔پولیس نے ابتدائی تفتیش میں دعویٰ کیا ہے کہ زہرہ قدیر کو مبینہ طور پر ان کی ساس اور نندوں نے رشتہ داروں کی مدد سے قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کیے اور بوریوں میں بند کر کے قریبی نالے میں بہا دیا۔زہرہ قدیر کو جب قتل کیا گیا تو وہ نہ صرف ایک بچے کی ماں تھیں بلکہ نو ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ زہرہ کے قتل کا علم کیسے ہوا؟۔زہرہ قدیر کے والد شبیر احمد کو جب زہرہ کی خیریت سے متعلق تشویش ہوئی تو وہ فوراً اس کے سسرال گئے تاکہ اپنی بیٹی کی خیریت کے بارے میں جان سکیں مگر وہاں پہنچنے پر انھیں زہرہ کی ساس نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔یہ بات شبیر احمد کو کچھ کھٹکی، شبیر احمد خود بھی پنجاب پولیس میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ شبیر احمد کے مطابق میں زہرہ کو کال کرتا رہا مگر جواب نہیں مل رہا تھا۔ جس کے بعد میں خود ڈسکہ چلا گیا۔شبیر احمد کہتے ہیں کہ ’جب میں زہرہ کے سسرالی گھر میں داخل ہوا تو وہاں پر ان کی سالی یعنی زہرہ کی ساس، اور زہرہ کی نند موجود تھیں۔میں نے گھر کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی زہرہ، زہرہ کی آوازیں لگانی شروع کر دی، جس پر زہرہ کی نند نے مجھے کہا کہ زہرہ نہیں ہے۔ جب میں نے پوچھا کدھر گئی ہے تو اس نے کہا کہ ہمیں کیا پتا زیور، پیسے وغیرہ لے کر بھاگ گئی ہو گی۔شبیر احمد کے مطابق جب زہرہ کی نند نے ان کی بیٹی پر الزام عائد کیا کہ وہ گھر سے بھاگ گئی ہے تو میں نے ان سے پوچھا کہ سچ بتاؤ زہرہ کہاں ہے، کیسے اور کیوں بھاگ گئی؟۔وہیں مجھے میری چھٹی حس نے کہا کہ کچھ بہت برا ہو چکا ہے۔ وہ نہ صرف زہرہ کے کمرے میں گئے بلکہ گھر کے دیگر کمروں میں بھی اسے تلاش کیا۔ وہاں انھیں ایک غیر معمولی بات محسوس ہوئی اور وہ یہ تھی کہ زہرہ کا اڑھائی سالہ بیٹا بھی گھر پر تھا اور ’گھر کو بہت زیادہ صاف کیا گیا تھا، فرش دھویا گیا تھا۔بس یہ دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے فوراً اپنے بڑے بھائی کو فون کیا اور ساتھ میں مقامی تھانے کے علاوہ 15 پر کال کر دی۔شبیر احمد کا دعویٰ ہے کہ پولیس کو اطلاع دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ’ان کی بیٹی کو ماضی میں بھی سسرال میں ایک بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔شبیر احمد کو جب اپنی بیٹی سسرال میں نہ ملی تو انھوں نے ڈسکہ کے مقامی تھانے میں زہرہ کے سسرال والوں کے خلاف اس کے ’اغوا‘ کا پرچہ درج کروایا دیا۔انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ ڈسکہ میں کام کرنے والے ڈی ایس پی عابد رشید اور ڈی پی او سیالکوٹ عمر فاروق دونوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں دونوں انتہائی پیشہ وارانہ امور کے حامل اور ان کا شمار انتہائی محنتی اورایماندار پولیس افسران میں ہوتا ہے۔ڈی پی او اور ڈی ایس پی نے روزنامہ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد زہرہ کے سسرال والوں سے تفتیش کی مقتولہ کی ساس اور نند نے انکشاف کیا کہ انھوں نے اپنے رشتہ داروں کی مدد سے زہرہ کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ٹکڑے کرکے نالے میں پھینک دئیے ہیں۔دونوں پولیس افسران نے دعویٰ کیا کہ ملزمان خواتین نے پولیس کے سامنے اعترافِ جرم کرتے ہوئے اس ہولناک واردات کی ساری تفصیلات بتا دی اور قتل میں استعمال ہونے والا ٹوکا اور چھری بھی بر آمد کروا دی۔ پولیس کے مطابق زہرہ قدیر کا قتل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔ ملزمان کے اعترافی بیانات کے مطابق رات گئے جب خاتون (زہرہ قدیر) کمبل اوڑھ کر سوئی ہوئی تھیں تو ان کی ساس نے ان کو ٹانگوں سے پکڑا، دوسری خاتون (نند) نے بازو سے اور پھر نواسے اور رشتے دار نوید جسے لاہور سے بلوایا گیا تھا نے منھ پر کمبل رکھ کر سانس بند کر کے زہرہ کو قتل کر دیا۔ جرم کا ثبوت چھپانے کے لیے ملزمان نے ٹوکے اور چھرے کی مدد سے لاش کے پانچ ٹکڑے کیے اور بوریوں اور پلاسٹک بیگز میں بند کر کے نالے میں دور دور پھینک دئیے۔جب اس بھیانک جْرم کا پردہ چاک ہوا تو پولیس، ریسکیو اہلکاروں اور علاقہ مکینوں نے فوراً زہرہ کی لاش کے ٹکڑوں کو تلاش کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اور بالآخر انہیں کامیابی مل گئی۔مقتولہ کی ساس نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ مقتولہ جادو ٹونے کرتی تھی اور ان کے گھر اس وجہ سے نقصان ہوتا رہا ہے جبکہ تفتیش میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔اس وقوعہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے قتل کے بعد لاش کے ٹکڑے کرنا یہ بہت ہی ظالمانہ عمل ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پولیس نے اس افسوس ناک واقعہ کے ملزمان کو بروقت گرفتار کرنے پر پولیس کو شابا ش دی اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایت کی ہے۔ خبر ہے کہ آئی جی پولیس نے صوبہ بھر بالخصوص پاکپتن پولیس کے آرپی او کو ڈکیتی اور چوری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کی ہدایت کر رکھی تھی جس پر آرپی او ساہیوال ڈی آئی جی محبوب رشید نے آئی جی پولیس کی ہدایت پر ڈی پی او پاکپتن کیپٹن ریٹائرڈ طارق ولایت اور ایس پی انوسٹی گیشن شاہدہ نورین کی نگرانی میں ٹیم تشکیل دی جنہوں نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران 8خطرناک گینگز کے 32 ارکان کو گرفتار کرکے 3کروڑ 85 لاکھ روپے سے زائد مالیت کا مال مسروقہ برآمد کر کے اصل مالکان کے حوالے کردیا ہے۔جس پر آئی جی پولیس پنجاب نے آرپی او،ڈی پی او اور ایس پی انوسٹی گیشن کی خدمات کو سراہا ہے۔