مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:65
ایک مصری گاؤں
شام کو ہم ایک بار پھر کشتی پر بیٹھے دریائے نیل عبور کر رہے تھے۔ آج احمد مجھے دریا کے اس پار، شمال میں واقع ایک روائتی مصری گاؤں دکھانا چاہتا تھا، تاکہ وہاں عام لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں بھی کچھ مشاہدہ ہو جائے۔ میری بڑی مدت سے خواہش تھی کہ میں مصریوں کے کسی گاؤں میں جاؤں اور وہاں سیدھی سادی زندگی کو بسر ہوتا ہوا دیکھوں۔یہ کشتی تو نہیں تھی البتہ ایک چھوٹا سا بحری جہاز تھا۔جس میں مسافروں کے لئے کمروں کے بجائے ایک بڑا سا ہال بنا ہوا تھا۔ جس میں لمبائی کے رخ اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور قدیم ریل گاڑی کی طرز پر آمنے سامنے ایک قطار میں بنچیں لگی ہوئی تھیں۔ جس میں سے ایک حصہ خواتین کے لئے مخصوص تھا۔ کشتی میں زیادہ تر مقامی لوگ اور الأقصر کے آس پاس کے دیہاتی تھے۔ جو دن کے وقت یہاں اپنے کام کاج یا کاروبار کے لئے آتے تھے اور پھر شام ڈھلتے ہی اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ ہماری طرح کے کچھ طالع آزما سیاح بھی تھے جو اس علاقے کے مصریوں کا روایتی رہن سہن اور قدیم کاشتکاری کے طریقے سمجھنا اور دیکھنا چاہتے تھے۔
یہاں ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسوان ڈیم بننے سے پہلے اکثر دریائے نیل میں شدید طغیانی آ جایا کرتی تھی اور کئی کئی فٹ اونچا پانی کناروں سے نکل نشیبی علاقوں میں پھیل جاتا تھا۔ یہ سیلابی پانی جہاں کچھ فصلوں اور گھروں کی تباہی کا باعث بنتا وہاں یہ دریا کی زرخیز مٹی بھی اپنے ساتھ بہا کر لے آتا اور زرعی زمینوں پر اس کی ایک تہہ سی بچھ جاتی تھی۔ پانی اترنے کے بعد جب اس زمین پر دوبارہ کاشتکاری شروع کی جاتی تو پھر آئندہ کئی برس تک وہاں بہت زیادہ فصلیں ہوتی تھیں۔ یہ راز قدیم مصریوں نے بھی پا لیا تھا اور وہ اس سیلاب سے بچنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے خصوصی اقدامات کرتے تھے اور یہ سلسلہ ابھی کوئی چالیس پچاس سال پہلے تک جاری تھا۔ اسوان ڈیم بننے کے بعد سیلاب تو کنٹرول ہوگیا مگر دریا جو اپنے ساتھ زرخیز مٹی لے کر آتا تھا اس کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ اب عام مصری کاشتکاروں کو بھی مصنوعی کھادوں کی ضرورت پڑنے لگی ہے۔جب فرعونوں نے تھبیس کو اپنا صدر مقام بنایا تو ہرچندبرسوں کے بعد ایک تسلسل سے آنے والے سیلابوں نے ان کا بہت نقصان کیا اور ہر بار ان کے نشیبی علاقوں میں بنائے گئے محلات، مقبرے اور مندر وغیرہ گہرے پانی میں ڈوب جاتے تھے۔ خصوصاً زیر زمین بنائے گئے مقبروں اور مدفنوں میں پانی داخل ہو جانے سے تو ناقابل تلافی نقصان ہوتا تھا اور وہاں اتنی گہرائی سے پانی باہر نکالنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا تھا۔ اس سے سبق حاصل کر کے انہوں نے اپنے مدفن اور مندر وغیرہ مغربی پہاڑیوں پر قدرے بلندی پر بنانا شروع کر دیئے تھے اور وہاں بھی ان کو سطح زمین سے کافی بلند رکھا جاتا تھا۔
اسی طرح وہاں بنے ہوئے فرعونوں کے دیو قامت مجسمے بھی سیلابی پانی میں ڈوب جاتے تھے۔ گو پتھر کے بنے ہونے کی وجہ سے ان کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا تھا اور وہ پانی اتر جانے کے بعد پھر اسی شان و شوکت سے نظر آنے لگتے تھے، پھر بھی ان کی بنیادیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بری طرح جھڑگئی تھیں۔ ایسے ہی دو بہت بڑے فرعونی مجسمے میمنون اسی گاؤں کے پاس بھی تھے جو بیٹھی ہوئی حالت میں بنے ہوئے تھے۔ان پر پندرہ بیس فٹ کی بلندی تک سیلابی پانی کے واضح نشانات ابھی تک موجود تھے،اور وہ بد حالی کا شکار تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں