ساگ اصل میں گھاس ہی تھا.
ہندوستانیوں نے جب یہ گھاس پکا کر چکھی تو بہت اچھی لگی
لیکن کوئی پوچھتا کہ کیا کھایا ہے؟ تو بتاتے ہوئے شرم آتی کہ ہم نے گھاس کھائی ہے
چنانچہ ایک دن ایک دانا بابا جی نے کچھ دیر غوروفکر کے بعد لفظ گھاس کو الٹ دیا
اب اس کا نام ساگھ پڑ گیا
پھر زمانے کے گزرنے کے ساتھ نام میں تخفیف ہوئی تو ساگھ سے ساگ ہو گیا
اب پنجاب کے دیہی علاقوں میں یہ ایک معزز سبزی کے طور پر کھایا جاتا ہے
جبکہ اسکی اصل وہی ہے جو پہلی سطر میں مذکور ہے.
انتخاب : نرمین مبشر