سیاست کے انداز بدلے گئے

سیاست کے انداز بدلے گئے
سیاست کے انداز بدلے گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا پہلے بھی سیاست کا یہی چلن ہوا کرتا تھا، جو آج ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اندرونی خلفشار اور جھگڑے اسی طرح سر بازار رسوائی کا سامان کرتے تھے، جیسا آج کل ہو رہا ہے؟ میرا خیال ہے جب سے میڈیا بریکنگ نیوز کا ہتھیار لے کر میدان میں آیا ہے، یہ سارے سیاپے شروع ہو گئے ہیں۔ خود سیاستدانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح سے اپنی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سامان کردیتے ہیں؟ انہیں تو بس اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ابھی وہ جو کچھ کہیں گے ،وہ بریکنگ نیوز کی صورت میں پلک جھپکتے میں گلی محلے تک پہنچ جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں، لیکن ان کی گونج ایسے سنائی نہیں دیتی تھی ،جیسے اب سنائی دیتی ہے۔ ایک زمانے میں تو سیاسی جماعتوں کے اندر اختلافات کا تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا، آج معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اب نہ صرف اختلافات کی خبریں آتی ہیں، بلکہ خود سیاسی رہنما بھی ٹی وی پر پریس کانفرنس یا بیانات کے ذریعے ایک دوسرے کے بخیئے اُدھیڑتے ہیں۔ سیاسی مخالفین تو ہر دور میں یہ کرتے رہے، لیکن ایک ہی سیاسی جماعت کے اندر اس طرح کی محاذ آرائی پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔



آج کل مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ نہ صرف وفاقی حکومت کے وزراء ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہیں، بلکہ پنجاب میں بھی پارٹی رہنما ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھال رہے ہیں۔ اختلافات تو پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے اندر بھی موجود ہیں، لیکن ان کے رہنما اس طرح جوتیوں میں دال نہیں بانٹ رہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے اکابرین بانٹ رہے ہیں۔۔۔ایسا نہیں کہ کابینہ یا پارٹی میں اختلافات نہیں ہوتے، ہوتے ہیں ،مگر ان کا مرکز ذاتی نہیں اجتماعی ہوتا ہے۔ پالیسی کے حوالے سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں تو اختلافات جنم لیتے ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) کے وزراء تو بچوں کی طرح ٹی وی پر آ کر اعلان کرتے ہیں کہ ان کی کسی دوسرے وزیر سے تین چار سال ہوئے بول چال بند ہے۔ یہ بول چال کیوں بند ہے؟ کیا اس سے حکومتی امور متاثر نہیں ہوتے ہوں گے؟


جب وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان یہ کہیں کہ انہیں جی ایچ کیو سے رابطہ رکھنے کے لئے وزارتِ دفاع کے این او سی کی ضرورت نہیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں اور ورکنگ ریلیشن شب بھی باقی نہیں رہی۔ وزیر اعظم نوازشریف کے لئے یہ صورت حال کس قدر پریشان کن ہو گی، اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم ان کی کابینہ کے بارے میں عوام تک جو تاثر پہنچ رہا ہے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ نظم و ضبط سے عاری کابینہ ،جس میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے موجود ہیں، اپنا سکھا شاہی نظام نافذ کئے ہوئے ہے۔ یہ صورتِ حال کسی بھی طرح ملک اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں۔ جس ملک کو اتنے بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہو، اگر اُس کی حکومت کے وزراء بچوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتے اور ناراض ہوتے ہوں تو وہ ان چیلنجوں سے کیسے عہدہ برآ ہو سکے گا؟

اِن اختلافات کے نمایاں ہونے سے پہلے ایک عام تاثر یہ تھا کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کی حکومت پر گرفت بہت مضبوط ہے اور کابینہ ان کے اشاروں پر چلتی ہے، لیکن خواجہ آصف، چودھری نثار علی خان، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے حوالے سے جو خبریں سامنے آ رہی ہیں وہ تو اس بات کا اشارہ ہیں کہ وزیر اعظم کابینہ پر اپنی گرفت کھو چکے ہیں اور اس میں موجود ہر وزیر من مانی پر تلا ہوا ہے۔ جب وزراء ،وزیر اعظم پر بھاری ہو جائیں یا اتنی اہمیت اختیار کر جائیں کہ اُنہیں کابینہ سے نکالنا بھی وزیر اعظم کے لئے ممکن نہ رہے تو حکومت کا کنٹرول مرکزیت سے ہٹ کر ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک مسلم لیگی رہنما کہہ رہے تھے کہ کابینہ میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ اُس کا اجلاس وزیر اعظم کی صدارت میں ہوتا ہے اور تمام وزراء اس میں موجود ہوتے ہیں، مگر مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ جیسی اہم ترین وزارتوں کے وزراء ایک دوسرے کے ساتھ کلام تک کرنے کو تیار نہیں تو وہ دونوں وزارتوں کے درمیان باہمی رابطہ کیسے پیدا کرتے ہوں گے؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ دو گونگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بٹھا دیا جائے۔


سیاسی جماعت کے اندر اختلافات کا ہونا ایک معمول کی بات ہے ،لیکن حکومتی شخصیات جب اس حد تک چلی جائیں کہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہ کریں تو میرے نزدیک یہ معاملہ گڈ گورننس کے حوالے سے بہت بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔۔۔ جہاں تک صوبہ پنجاب کی بات ہے تو حال ہی میں فیصل آباد کے مسلم لیگی رہنما چودھری شیر علی نے بھری پریس کانفرنس میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا ہے۔ کہنے کو رانا ثناء اللہ نے یہ کہہ دیا ہے کہ چودھری شیر علی کا پیرانہ سالی کے باعث دماغ چل گیا ہے، لیکن یہ کوئی ایسا جواب نہیں ،جو اس گرد کو بٹھا سکے جو چودھری شیر علی کے بیان سے اُڑی ہے۔ چودھری شیر علی کا یہ الزام انتہائی سنگین ہے کہ رانا ثناء اللہ نے 20 افراد کو قتل کرایا ہے۔ رانا صاحب اگر سچے ہیں تو انہیں فوراً شیر علی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے انہیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ ان کا دماغ چل گیا ہے۔ یہ دماغ اسی طرف کیوں چلا ہے، وہ کوئی اور الزام بھی تو لگا سکتے تھے۔


شریف خاندان کا ایک رشتہ دار اور ایک وفاقی وزیر مملکت کا والد جب صوبے کے وزیر قانون پر الزام لگاتا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں رہتی ،مگر اسے معمولی بات بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ نجانے مسلم لیگی قیادت کو اپنی اخلاقی ساکھ کی فکر کیوں نہیں؟ ایک زمانہ تھا کہ کسی وزیر پر معمولی سا الزام بھی لگتا تو اسے صفائی دینے کے لئے حکومت کی طرف سے تنبیہ کر دی جاتی، میڈیا بھی اس الزام کو لے کر وزیر کا پیچھا کرتا اور اسے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا، مگر اب تو صورت حال ہی بدل گئی ہے، بڑے سے بڑا اور سنگین سے سنگین الزام بھی ہوا میں اُڑا دیاجاتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1990ء اور 2000ء کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) کی کابینہ کا کوئی وزیر ایسی بے لگام صورت حال کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، جیسی اب نظر آ رہی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی اپنی کابینہ پر گرفت مکمل ہوتی تھی۔ اسی طرح پنجاب جو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا ہمیشہ مرکز رہا ہے، ایسی بدنظمی کا شکار نہیں تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں ان سب باتوں نے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخاب میں بُری کارکردگی اس کا ثبوت ہے۔


چودھری شیر علی کا یہ کہنا غلط نہیں کہ غلط لوگوں کو عہدے دینے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) لاہور میں کم مارجن سے جیتی ،وزیراعلیٰ اپنے رشتہ دار کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر نہ جتوا سکے۔۔۔سیاستدانوں کو کون سمجھائے کہ میڈیا والے لوگوں کو ان کا تماشا دکھا کر اپنی ریٹنگ بڑھاتے ہیں۔ کیمرے اور مائیک کو دیکھ کر آپے سے باہر ہونے والے وزراء کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اس قسم کی اختلافی باتوں سے اپنی جماعت اور حکومتی امیج کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں؟ اگر وہ بولنے سے پہلے سوچ لیں اور اپنے ذاتی اختلافات کو میڈیا سے دور رکھیں تو جگ ہنسائی سے بھی بچ جائیں گے ، عوام کی نظر میں جمہوریت کا تمسخر بھی نہیں اُڑے گا جو اب اُڑ رہا ہے اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جو لوگ اپنے ذاتی اختلافات سے بلند ہو کر سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، وہ اپنے ذاتی مفادات کے مقابلے میں قومی مفاد کو کیسے مقدم رکھتے ہوں گے؟

مزید :

کالم -