ملتان میں الگ صوبے اور ہائیکورٹ کی تحریک

ملتان میں الگ صوبے اور ہائیکورٹ کی تحریک
 ملتان میں الگ صوبے اور ہائیکورٹ کی تحریک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان کا نصیب یہ ہے کہ یہاں ہر سال چھ مہینے بعد دو مطالبات بڑے تواتر سے کئے جاتے ہیں، ایک مطالبہالگ صوبے کا ہوتا ہے اور دوسراالگ ہائیکورٹ کا۔الگ صوبے کا مطالبہ تو مختلف وجوہات کی بنا پر متنازعہ بنتا رہا ہے، تاہم الگ ہائیکورٹ کے مطالبے پر سب وکیل متحد ہیں۔ آج کل یہ مہم زوروں پر ہے۔جب سے ساہیوال کو ملتان بنچ سے الگ کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے، تب سے اس تحریک میں تیزی آگئی ہے۔ ملتان کے وکلاء آج کل ہڑتالیں کررہے ہیں، ریلیاں نکال رہے ہیں اور جلسوں میں اپنے جوشِ خطابت سے ماحول کو گرمارہے ہیں۔ اسی سے جڑا ان کا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ملتان کے وکلاء کو نمائندگی دی جائے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تقرری میں بھی یہاں کے وکلاء کا کوٹہ مختص کیا جائے۔ پچھلے پندرہ بیس سال سے تو میں بھی دیکھ رہا ہوں کہ خود مختار ہائیکورٹ کا مطالبہ تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے، مگر مجھے اس سوال کا جواب آج تک کوئی وکیل نہیں دے سکا کہ الگ صوبے کے بغیرالگ ہائیکورٹ کیسے مل سکتی ہے؟یہ مطالبہ فی الوقت آئین سے ماورا ہے اور حیرت ہے کہ غیر آئینی مطالبہ قانون دانوں کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ آئین میں بالکل واضح ہے کہ ہر صوبے کی ایک ہائیکورٹ ہوگی۔ جب تک آئین میں اس حوالے سے ترمیم نہیں کی جاتی، یہ ممکن نہیں کہ ایک صوبے میں ایک سے زائد ہائیکورٹس بن سکیں۔ اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا تھا کہ صوبوں میں ہائیکورٹ کے ایک سے زیادہ بنچ بنا دیئے جائیں۔ جس سے کسی حد تک عوام کے مسائل کم ہوئے اور انہیں اپنی اپیلوں کے لئے صوبائی دارالحکومت میں نہیں جانا پڑتا۔

یہ سارا معاملہ فکر انصاف سے زیادہ فکر معاش کا لگتا ہے۔ عوام کو اس سے کیا غرض کہ جج کس علاقے یا کوٹے سے بھرتی کئے گئے ہیں، انہیں تو سستے اور فوری انصاف کی طلب ہے۔ عدالتیں کوئی ضلع کو نسلیں یا اسمبلی تو ہیں نہیں کہ جن میں مختلف علاقوں کو کوٹہ نہ ملے تو عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ ججوں کی اہلیت تو ان کی قابلیت، ایمانداری اور کردار کی عظمت ہونی چاہیے۔ عدلیہ میں سفارشی اور سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ہی بگاڑ پیدا ہوا ہے، جبکہ ججوں کے سیاسی رابطوں اور سیاسی دباؤ پر کئے گئے فیصلوں کی مثالیں اور فون کالیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ ججوں کو علاقائی کوٹے کی بنیاد پر بھرتی کرنے کا مطلب تو یہی لیا جائے گا گویا وہ انہی علاقوں میں تعینات کئے جائیں گے اور انصاف کے معاملے میں انہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ترجیح دیں گے، حالانکہ یہ بات صریحاً نظام انصاف کے خلاف ہے ۔ مطالبہ تو یہ ہونا چاہیے کہ عدلیہ میں جج میرٹ پر رکھے جائیں۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے لئے جو معیار آئین میں رکھ دیا گیا ہے، اُسی پر سختی سے عمل کیا جائے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو مکمل آزادی دی جائے جو فوج کے خود کار کڑے نظام کی طرح ججوں کو بھرتی کرے یا ترقی دے۔ وکلاء کے لئے مرضی کے جج بھرتی کرانے سے زیادہ یہ بات اہم ہونی چاہیے کہ اعلیٰ معیار اور کردار کے جج بھرتی کئے جائیں۔ انہیں بھرتی کئے گئے ججوں میں کوٹہ سسٹم ڈھونڈنے کی بجائے ان کی تقرری یا بھرتی میں روا رکھی گئی بے قاعدگی، ان کی منفی شہرت کے شواہد ڈھونڈنے پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ اگر فیصلہ غلط ہوا ہے تو اس کی نشاندہی کی جاسکے۔ صرف یہ مطالبہ لے کر سڑکوں پر آجانا کہ جتنے جج بھرتی کئے گئے ہیں، انہیں برطرف کر کے دوبارہ فہرست بنائی جائے اور اُس میں کوٹہ سسٹم کے تحت مختلف علاقوں کو نمائندگی دی جائے، ایک ایسا مطالبہ ہے جو عدلیہ کی ساکھ پر ضرب کاری لگا سکتا ہے۔


جہاں تک ملتان میں خودمختار ہائیکورٹ بنانے کے مطالبے کا تعلق ہے تو اس کے راستے میں آئینی رکاوٹ موجود ہے۔ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی الگ ہائیکورٹ کا مطالبہ کرنا غیر سنجیدگی کو واضح کرتا ہے اور اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نظر نہیں آتا کہ ملتان کے وکلاء دباؤ ڈال کر نئے بنچوں کے قیام کو روکنا چاہتے ہیں یا پھر وہ ججوں کے تقرر میں کوٹے کا مطالبہ منواکر اس مطالبے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ وکلاء نے بڑی بڑی تحریکوں میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے اور کامیابی بھی حاصل کی ہے، انہیں اگر تحریک چلانی ہی ہے تو جنوبی پنجاب کوالگ صوبہ بنانے کی چلائیں اور اس ایشو پر مختلف قوم پرست جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا کریں۔ اس وقت الگ صوبے کی تحریک سرائیکی اور نان سرائیکی کے خانوں میں بٹ کر اپنا اثر کھو بیٹھی ہے۔ صوبے کے نام اور رقبے تک پر اتحاد و اتفاق نہیں ہوسکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرائیکی زبان و ثقافت کے نام پر الگ صوبے کا مطالبہ کرنے والے بھی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد اور ون مین شو والی جماعتیں بنائے بیٹھے ہیں۔ووٹ لینے کے ساتھ ہر سیاسی جماعت یہاں علیحدہ صوبے کی حمایت کرتی ہے، مگر کرنے کے جو عملی کام ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ جب پیپلز پارٹی بر سر اقتدار تھی تو یہاں الگ صوبے کا بڑا شوروغوغا تھا، کیونکہ وزیر اعظم کا تعلق اس علاقے سے تھا، اسمبلیوں میں قرار دادیں منظور ہوئیں، کمیٹیاں بنائی گئیں اور ایسا تاثر دیا گیا کہ الگ صوبہ آج بنایا کل بنا،لیکن پھر سب نے دیکھا کہ یہ مذاق بہت جلد ختم ہوگیا اور معاملات پھر پرانی ڈگر پر چلتے رہے۔

اس مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کسی مضبوط اور متفقہ تحریک کی ضرورت ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کبھی کوئی ایک اور کبھی کوئی دوسرا طبقہ اُٹھ کر الگ صوبے کا مطالبہ کرے، بلکہ اس تحریک میں اتنا زور بھی ہو کہ اسے تسلیم کرلیا جائے۔ یہ تاثر عام ہے کہ اس مطالبے کو اپنا کوئی چھوٹا مطالبہ منوانے کے لئے آگے رکھا جاتا ہے۔ یہ مطالبہ مقصود بالذات نہیں، بلکہ اسے ایک دباؤ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ مطالبہ ایک تکیہ کلام کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ سنجیدگی نہ ہونے کی وجہ سے اس مطالبے کو معمول کی سرگرمی سمجھ لیا گیا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی، جو اپنے دور حکومت میں تو الگ صوبہ بنانے کی کوئی ٹھوس حکمتِ عملی نہ بناسکے، اب اکثر جلسوں میں الگ صوبے کو جنوبی پنجاب کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ سرائیکی قوم پرست جماعتیں سرائیکی لفظ میں پھنسی ہوئی ہیں۔ وہ الگ صوبے کو ہر قیمت پر سرائیکستان یا سرائیکی صوبے کا نام دینا چاہتی ہیں، حالانکہ اس خطے کے ثقافتی، لسانی اور زمینی حقائق بہت بد ل چکے ہیں۔ اب یہ خطہ کثیر اللسانی تہذیبوں کا حامل ہے۔ اردو، پنجابی، ہریانوی، سرائیکی،بلوچی وغیرہ سب اس علاقے کی معروف زبانیں ہیں۔ ایسے میں صرف اس بات کی رٹ لگانا کہ یہاں سرائیکستان بنایا جائے یا سرائیکی صوبہ، تنازعات کو جنم دینے والی بات ہے۔


کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سوچ کی اس تنگنائے کو ختم کر کے ایک بڑے تناظر میں اس ایشو کو دیکھا جائے۔ بات محرومیوں کی ہوتی ہے تو اس کا حل بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اصل مسئلہ معاشیات کا ہے، جنوبی پنجاب کی اصل محرومی یہ ہے کہ اسے آبادی کے لحاظ سے وسائل فراہم نہیں کئے جارہے۔ اس بنیاد پر اگر نئے صوبے کا مطالبہ کیا جائے تو اُس کا وزن بھی محسوس کیا جائے گا، کیونکہ اس نکتے پر تقریباً سبھی اکٹھے ہیں، لیکن یہاں تو دیگر مسائل کو لے کر سب اپنی اپنی جداگانہ اننگز کھیل رہے ہیں۔ یہ صورت حال انتشار تو پھیلا سکتی ہے، کسی کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔۔۔ پھرکون اس مطالبے سے انکار کرسکتا ہے کہ ملتان میں خود مختار ہائیکورٹ بھی بننی چاہیے،الگ سیکرٹریٹ بھی اور سب سے بڑھ کرایک الگصوبہ، لیکن کیا اس کے لئے ہوم ورک کیا گیا ہے، کیا بغیر تیاری اور بغیر کسی ہوم ورک کے کئے گئے ایسے مطالبات مانے جاسکتے ہیں؟ یہ بات نجانے یہاں کے لوگوں کی سمجھ میں کب آئے گی، جو ہر بار ایسے مطالبات کا نعرہ لگانے والوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور کچھ ہی دور جاکر انہیں سلیم کوثر کی طرح احساس ہوتا ہے۔۔۔ ’’ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘۔۔۔ وکلاء کو ہڑتالیں اور مظاہرے ضرور کرنے چاہئیں، مگروہ یہ بات نہ بھولیں کہ ان کی ہڑتال کے باعث کسی سائل کی ملتوی ہونے والی تاریخ پھر کئی ماہ بعد نکلتی ہے۔ ہزاروں لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کسی بھی طرح اس طبقے کے شایانِ شان قرار نہیں دیا جاسکتا، جس نے مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔

مزید :

کالم -