نریندر مودی برکس کانفرنس کو یرغمال نہ بنا سکے

نریندر مودی برکس کانفرنس کو یرغمال نہ بنا سکے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پانچ ممالک کی تنظیم ’’برکس‘‘ کا سالانہ سربراہی اجلاس بھارتی ریاست گوا میں ختم ہو گیا اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں دہشت گردی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ رکن ممالک نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نظریاتی، مذہبی، سیاسی، نسلی یا لسانی بنیاد سمیت ہر صورت میں دہشت گردی کی مخالفت پر قائم ہیں۔جنوبی افریقہ،بھارت، برازیل، چین اور روس کے مشترکہ اجلاس میں جاری کئے گئے اعلامیہ میں بھارت کی کوشش تھی کہ اڑی حملے اور پاکستان کی مذمت کی جائے لیکن چین اور روس کی مخالفت کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کا نام شامل کرانے میں ناکام ہو گئے۔ تمام ممالک نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ’’جامع کنونشن برائے انسداد دہشت گردی‘‘ تیار کیا جائے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تمام ممالک برکس ارکان پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کی مذمت کرتے ہیں ان میں بھارت پر ہونے والے حملے بھی شامل ہیں۔ ایسے حملوں کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا برکس ممالک نے کہا کہ تمام ممالک ’’جوہری اسلحے کی تخفیف‘‘ کی کانفرنس میں جوہری اور کیمیائی دہشت گردی کے خطرات سے نپٹنے کے لئے اس پر بات کریں گے تاکہ دہشت گردوں کی ایسے مہلک ہتھیاروں تک رسائی ناممکن بنائی جا سکے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر پیوٹن نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنا ہوگا۔
’’برکس‘‘ بنیادی طور پر اقتصادی ترقی کے مقصد کے حصول کے لئے بڑھتی ہوئی معیشتوں کے حامل پانچ ملکوں نے قائم کی تھی لیکن مودی نے اس کی میزبانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کانفرنس کو بھی سارک کی طرح اپنا یرغمالی بنانے کی کوشش کی لیکن اس میں انہیں ناکامی ہوئی، روس اور چین نے اُڑی حملے کے سلسلے میں پاکستان کا نام لے کر مذمت کرنے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ دونوں ملکوں کے مدبر سربراہوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اُڑی کے جس علاقے میں حملہ ہوا ہے کوئی دہشت گرد باہر سے وہاں نہیں پہنچ سکتا۔ یہ اندر کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں، جن کی پوری طرح تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ یہ کون سے گروہ تھے۔ لیکن بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے اس کا ملبہ فوری طور پرپاکستان پر ڈال دیا تھا اور اس کے بعد سرجیکل سٹرائیک کا راگ بھی الاپنا شروع کر دیابلکہ عالم خیال میں یہ حملہ پاکستان پر کر بھی دیا لیکن نہ تو بھارت کے اندرکسی کو معلوم ہے کہ یہ حملہ کس جگہ ہوا اور اس کے آثار و شواہد کہاں چلے گئے، خود بھارتی افواج کے افسروں نے جب اپنے ہاں بریفنگ کا اہتمام کیا تو سرجیکل سٹرائیک کی ایک من گھڑت داستان تو سنا دی لیکن کسی سوال کا جواب نہ دیا جس پر بھارت میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر عالمی میڈیا کے نمائندوں کے دورے کا اہتمام کیا تھا جنہوں نے پورے علاقے کا بچشم خود مشاہدہ کرکے یہ رائے قائم کی کہ اس علاقے میں تو کسی سرجیکل سٹرائیک کے کوئی آثار نہیں۔ خود پاکستان کا موقف بھی یہ ہے کہ اگر بھارت نے ایسی کوئی جسارت کی ہوتی تو اسے فوری طور پر دندان شکن جواب بھی مل گیا ہوتا۔ البتہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر بھارت جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرتا رہتا ہے جس کا اسے فوری طور پر جواب بھی ملتا رہتا ہے۔
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے پاکستان نہ صرف خود بدترین دہشت گردی کا شکار ہے بلکہ اس کی بھرپور مذمت بھی کرتا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے علاقے کے تمام ممالک متحد ہوں، لیکن بھارت کا الزام تراشی کا رویہ اس اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف کوئی متفقہ لائحہ عمل نہیں بن سکا۔ وقتاً فوقتاً سارک کے اجلاسوں میں زبانی جمع خرچ ضرور ہوتا رہتا ہے۔بھارت نے اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا تھا حالانکہ سربراہ مل بیٹھ کر کسی ٹھوس لائحہ عمل پر غور کر سکتے تھے۔اب مودی نے برکس کانفرنس کو بھی اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جس میں ناکامی ہوئی۔ اس معاملے میں پاکستان کو ایک اہم کامیابی یہ حاصل ہوئی ہے کہ چین کے علاوہ اب روس نے بھی عالمی تنازعات اور ایشوز پر پاکستان کے موقف کی حمایت شروع کر دی ہے، جیسا کہ مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا نام شامل کرانے کی بھارتی کوشش کی چین اور روس نے مشترکہ طور پر مخالفت کی ہے۔
چین اور روس نے اس سلسلے میں بالکل درست موقف اختیار کیا ہے اور اس حملے کی ثبوت کے بغیر پاکستان کی مذمت سے گریز کیا ہے۔ البتہ کانفرنس میں اقوام متحدہ سے جامع کنونشن برائے انسدادِ دہشت گردی کا جو مطالبہ کیا گیا وہ بروقت اور مناسب ہے اگر عالمی سطح پر ایسا ہو جائے تو دہشت گردی کے انسداد میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ لیکن بھارت نے پاکستان کے خلاف جو معاندانہ رویہ اپنا رکھا ہے اور عالمی کانفرنسوں میں پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث کرنے کی جو کوششیں کررہا ہے اس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ چین اور روس کے صدور نے برکس کانفرنس میں مودی کے الزامات پر کان نہیں دھرے روس کے صدر پیوٹن نے تو اپنی تقریر میں دہشت گردی کے موضوع پر ایک لفظ تک نہیں کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مودی کے الفاظ کے اندر چھپے ہوئے زہر کو اچھی طرح سمجھتے تھے جس سے مودی کو خاصی مایوسی ہوئی۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے ملکوں کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ الزام تراشی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ بات مودی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح انہوں نے سارک ملکوں کی سربراہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے اسی طرح اگر وہ برکس جیسی تنظیم کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بلکہ اس تنظیم کے بھی اصل مقاصد نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں گے جو بنیادی طور پر اقتصادی ہیں اور ان کی جانب چینی صدر شی چن پنگ نے توجہ دلائی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر طے کر لیں، یہی بات عالمی رہنما بار بار کہہ رہے ہیں اور حکمت و دانش کی ان باتوں پر بھارت کو کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا عفریت عملی اقدامات سے ختم ہوگا محض باتوں سے اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔ دنیابھر میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں نے باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ فوجوں کو چیلنج کر رکھا ہے۔اس کا جواب متحدہ قوت سے ہی دیا جا سکتا ہے جس کے لئے متحد ہو کر کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔منتشر اقدامات سے دہشت گردوں کو کامیابی ملتی رہے گی۔

مزید :

اداریہ -