گورنر عشرت العباد کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دینے میں کیا حکمت عملی ہے ؟
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
عام خیال تو یہی تھا کہ اگر سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد عہدے سے سبکدوش ہوں گے تو انہیں پاک سرزمین پارٹی میں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا، لیکن یہ مصطفی کمال نے کیا کمال کردیا کہ اُن پر الزامات کی بوچھاڑ کردی اور رشوت لینے تک کے الزامات لگا دیئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد نے بیرون ملک کروڑوں ڈالر کی جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد پاک سرزمین کے سرپرست بنتے بنتے اچانک سنگین الزامات کی زد میں کیوں آگئے؟ کیا اس کی وجہ وہ پیش کش ہے جو پیپلز پارٹی نے شمولیت کیلئے ڈاکٹر عشرت العباد کو کی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے گھر کے سارے بھیدی اب ایک دوسرے پر الزامات لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ عشرت العباد جب تک گورنر ہیں اس وقت تک تو وہ کسی جماعت میں نہیں جاسکتے جب وہ کسی وجہ سے یہ عہدہ چھوڑیں گے یا سبکدوش ہوں گے، اس وقت ہی وہ کسی جماعت میں شمولیت کا سوچ سکتے ہیں لیکن اگر پیپلز پارٹی نے انہیں شمولیت کی دعوت دیدی ہے تو بھی ان پر مصطفی کمال کے الزامات حیران کردینے والے ہیں۔ اگرچہ گورنر نے ان الزامات کو رد کردیا ہے تاہم مصطفیٰ کمال اپنے الزامات پر اصرار کر رہے ہیں اور تحقیقات کیلئے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ویسے یہ عجیب و غریب بات ہے کہ بارہ تیرہ سال سے عہدے پر قائم گورنر پر اس طرح الزام تراشی کی جائے۔ وہ اب بھی گورنر ہیں کہیں بھاگے نہیں جا رہے اس لئے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منطق بھی بظاہر سمجھ سے بالاتر ہے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی کی پیشکش بھی ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب فوری طور پر نہ تو وہ گورنر کا عہدہ چھوڑ رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی اطلاعات ہیں کہ انہیں سبکدوش کیا جا رہا ہے۔ اگر وہ پیپلز پارٹی کی پیشکش قبول بھی کرتے ہیں تو بھی عملاً یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب وہ گورنر نہیں رہیں گے اور انہیں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کیلئے کسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہوگی۔ ویسے تو ان پر جیل میں بند ایم کیو ایم کے کارکنوں کو سہولتیں دلوانے کا الزام بھی لگتا رہا ہے اور یہ الزام خود وہ لوگ لگاتے رہے جو مختلف الزامات کے تحت گرفتار اور سزا یافتہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر کے حکم سے نہ صرف انہیں جیل میں بہت سی آسائشیں حاصل تھیں جن کا عام قیدی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے بلکہ ایم کیو ایم کا جو بھی کارکن جیل جاتا تھا جیل میں اس کا خیال رکھا جاتا تھا لیکن مصطفی کمال نے تو بہرحال رشوت لینے کا الزام لگا دیا ہے۔ آئینی پوزیشن یہ ہے کہ گورنر صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے، اگرچہ جمہوری حکومتوں میں سیاسی شخصیات کو ہی گورنر بنایا جاتا ہے لیکن جب وہ گورنر بن جاتے ہیں تو عملاً سیاسی جماعت کی رکنیت اور عہدے سے مستعفی ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ جس جماعت سے وہ وابستہ ہوتے ہیں اس کی محبت تو ان کے دل سے نہیں نکلتی تاہم برائے نام ہی سہی وہ غیر جانبداری کا بھرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد ایم کیو ایم کے باقاعدہ رکن تھے اور انہیں گورنر اسی لئے بنایا گیا تھا کہ ان کے ذریعے ایم کیو ایم سے رابطہ رکھا جائے۔ پہلے پہل ان پر نگاہ انتخاب جنرل پرویز مشرف کی پڑی تھی جنہوں نے اپنے دور میں ایم کیو ایم کی بھرپور سرپرستی بھی کی۔ جب ڈاکٹر عشرت العباد کو گورنر بنایا گیا تو کہا جاتا ہے کہ ان پر بعض مقدمات بھی قائم تھے، لیکن جونہی وہ گورنر بنے ڈرائی کلین ہوگئے، کوئی الزام ان پر باقی نہ رہا حتیٰ کہ جو حلقے ایک زمانے میں ان پر الزام لگاتے تھے وہ ان کی صفائی میں پیش پیش رہے۔ اس وقت اس بحث کو اٹھا رکھتے ہیں کہ ان پر جو مقدمات تھے اس کے محرکات سیاسی تھے یا غیر سیاسی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان پرکوئی مقدمہ سرے سے تھا ہی نہیں، بس ان کے خلاف بیانات داغے جاتے تھے۔ اگر یہ سب کچھ غلط تھا تو بھی عام خیال اور تاثر بہرحال یہی تھا جو غلط بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے جرائم میں ملوث رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ گورنر کے عہدے کے اہل نہیں تھے اس کے باوجود انہیں گورنر بنایا گیا۔ گورنر بننے کے بعد وہ باقاعدہ طور پر ایم کیو ایم سے وابستہ رہے یا نہیں، لیکن لندن سے ہدایات انہیں بدستور ملتی رہیں اب وہ ان ہدایات پر کس حد تک عمل کرتے تھے اور کس حد تک نظر انداز کرتے تھے اس کا تو زیادہ علم نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے ایک سے زیادہ بار گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا، لیکن انہیں استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ کرلیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں تو ایک دو بار وہ رخصت لے کر دبئی یا کسی دوسرے ملک بھی چلے گئے، اس کے پس منظر میں بھی کوئی ناراضی وغیرہ ہی بتائی جاتی تھی۔ ڈاکٹر عشرت العباد کو اگر منانے میں دقت ہوتی تو پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک بھاگم بھاگ لندن پہنچتے اور باہر گئے ہوئے عشرت العباد واپس آ جاتے۔ اس سب کچھ کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو داد دینا چاہئے کہ وہ اب تک گورنر چلے آ رہے ہیں۔ اگرچہ ایم کیو ایم اب انہیں ’’ڈس اون‘‘کرچکی ہے لیکن اس سے ان کی گورنری کا بال بیکا نہیں ہوا، اب پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال نے ان پر اچانک الزامات کی جو بوچھاڑ کردی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مصطفی کمال نے ان سے اندرون خانہ کچھ توقعات وابستہ کی ہوں جو پوری نہ ہوسکی ہوں۔ جب مصطفی کمال بیرون ملک سے آئے تھے اس وقت ایم کیو ایم کے درمیان اختلافات منظرعام پر نہیں آئے تھے، آج جو لوگ الطاف حسین کو چھوڑ کر ایم کیو ایم پاکستان بناچکے وہ سب اس وقت الطاف کی محبت کا کھلے عام دم بھرتے تھے۔ اس دوران جن لوگوں نے مصطفی کمال کی پارٹی میں جانا پسند کیا وہ اگر کسی اسمبلی کے رکن تھے تو رکنیت سے مستعفی ہوگئے تاہم ابھی ان کی پارٹی پوری طرح اپنی جگہ نہیں بناسکی تھی کہ بانی ایم کیو ایم نے لندن سے ایک متنازعہ تقریر کر ڈالی جس کے اگلے روز ڈاکٹر فاروق ستار نے ان سے الگ ہونے کا اعلان کردیا اور تدریجاً اس مقام پر پہنچ گئے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے لندن میں بیٹھے ہوئے ارکان کو پارٹی سے نکال دیا، جوابی طور پر فاروق ستار سمیت کئی ارکان کو فارغ کردیا گیا اور بالآخر ایم کیو ایم پاکستان وجود میں آگئی، جس کے ساتھ اگرچہ متحدہ کے ارکان کی اکثریت ہے تاہم لندن نے حسن ظفر عارف کو رابطہ کمیٹی کا رکن بناکر یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ جماعت ہی اصل ایم کیو ایم ہے۔ اس صورتحال میں مصطفی کمال نے ڈاکٹر عشرت العباد پر جو الزام تراشی کی ہے وہ بظاہر ان کے پیپلز پارٹی میں جانے کے امکانات پر غم و غصے کا اظہار لگتی ہے یا پھر یوں لگتا ہے عشرت العباد نے فاروق ستار کیلئے نرم گوشہ پیدا کرلیا ہے۔