لاہور میں باپ نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی کو قتل کر دیا اور پھر عدالت میں ایسی بات کہہ دی کہ جج نے باعزت بری کر دیا، ایسا کیا کہا؟ جان کر آپ بھی دنگ رہ جائیں گے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کرنے والے شخص کی جانب سے خود کو اور اس واردات میں شامل اپنے بیٹے اور بھتیجے کو معاف کئے جانے پر عدالت نے تمام ملزموں کو بری کر دیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ 2015ءمیں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف پارلیمینٹ میں ایک بل پاس کیا گیا جس میں مجرم کو معاف کر دینے کے باوجود بھی اس کیلئے انتہائی سخت سزا مقرر کی گئی۔ نئے قانون کے مطابق اگر غیرت کے نام پر قتل کے مجرم کو متاثرہ خاندان کی جانب سے معاف بھی کر دیا جائے تو عدالت اسے عمر قید کی سزا سنا سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون ابھی بھی غیرت کے نام پر قتل کو سجھوتے کے قابل جرم سمجھتا ہے جس میں شکایت کنندہ سمجھوتہ کرتے ہوئے ملزم کے خلاف الزامات واپس لینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نادیہ اکرام ملک کی عدالت میں بیان ریکارڈ کراتے ہوئے ملزم فقیر محمد نے ناصرف خود کو معاف کیا بلکہ اپنے بیٹے اور بھتیجے کو بھی معافی دیدی جو اس قتل میں اس کے ساتھ تھے۔
فقیر محمد نے اپنے بیان میں کہا کہ ”مقتولہ کرن بی بی میری بیٹی تھی اور قتل کے وقت کنواری تھی۔ میرے اور میری بیوی کے علاوہ کرن کا کوئی قانونی وارث نہیںہے۔ میں نے اس قتل کے ملزموں کو اللہ کے واسطے معاف کر دیا ہے اور ان کی بریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں قصاص و دیت کے اپنے حق سے بھی دستبردار ہوتا ہوں۔“
فقیر محمد نے 2014ءمیں اپنی بیٹی اور اس کے مبینہ عاشق غلام عباس کو کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس کے بیٹا محمد الیاس اور بھتیجے محمد طاہر کو بھی دوہرے قتل پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
عباس کی والدہ عظمت بی بی نے دفعہ 173 کے تحت درج کرائی گئی ایف آئی آر میں تین ملزموں کو نامزد کیا تھا تاہم بعد ازاں انہوں نے ایک درخواست کے ذریعے عدالت سے اپنے بیٹے کے قتل پر راضی نامہ کرنے کی استدعا کی۔ عدالت سے اجازت ملنے کے بعد عظمت بی بی اور اس کے دوسرے بیٹے وقاص علی نے ملزمان کو یہ کہتے ہوئے معاف کر دیا کہ انہیں ملزمان کی بریت پر کوئی اعتراض نہیں اور یہ کہ وہ قصاص اور دیت کے اپنے حق سے بھی دستبردار ہوتے ہیں۔
اس کے بعد فقیر محمد اور بشریٰ نے متوفی لڑکی کے قانونی ورثاءکی حیثیت سے اپنے بیان قلمبند کرائے اور ملزمان کو معاف کر دیا۔ اس کے بعد ضابطہ فوجداری کے سیکشن 265-K کے تحت ملزمان کی بریت کی درخواست دیدی گئی۔ دوسری جانب استغاثہ نے بریت کی اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت سے التجا کی کہ اس کے پاس ملزموں کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں اس لئے عدالت بریت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزموں کے خلاف مزید شواہد طلب کرے۔
جج نے مشاہدہ کیا کہ تمام الزامات بے بنیاد ہو چکے اور ان کے تحت سزا کا کوئی امکان نہیں ہے اس لئے ملزموں کو بری کر دیا گیا۔
بریت کے فیصلے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وکلاءنے کہا کہ یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 317 کی خلاف ورزی ہے کیونکہ کٹہرے میں کھڑا کوئی بھی ملزم خود کو معاف نہیں کر سکتا۔
ایڈووکیٹ محمد قاسم کا کہنا ہے کہ ”یہ حیران کن ہے کہ ایک ملزم خود کو ہی قتل کے الزامات پر معاف کر رہا ہے، یہ قانون کے ساتھ صرف اور صرف مذاق ہے۔“