سرل کی خبر؛ انجام شرمناک بھی ہو سکتا ہے۔۔!
تحریر: اجمل جامی
سرل کی خبر پر تبصرہ کرنے والا کوئی رہ تو نہیں گیا؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو درکار تفصیلات کے ساتھ مطلع کیجئے گا۔ محروم خواتین و حضرات سے دست بستہ درخواست کی جائے گی کہ وہ بھی حصہ بقدر جثہ ڈال کر ثوابِ دارین سمیٹیں کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں حرج ہی کیا ہے:
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرمِ خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
'پانی اچ مدھانی' کی بجائے کیوں نہ دوٹوک بات کرلی جائے؟ ہم انیس سو سولہ نہیں، دوہزار سولہ میں رہ رہے ہیں۔'فیڈ' کس نے کیا؟'سورس'کون ہے؟کھپنے کی ضرورت کیا ہے؟لیکن یہاں تو ایک خبر پرپوری ریاست ہل کر رہ گئی۔ریاستی اداروں کی جانب سے سامنے آنے والا شدید ردِ عمل قطعاً غیر ضروری تھا۔ خبر پر کیے گئے اعتراضات انتہائی سطحی اور بودے ثابت ہوئے۔ مصلحت کا تقاضایہ تھا کہ فوری جذباتی ردعمل سے گریز کیا جاتا ۔ دو ہزار سولہ میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ حضور والا ! معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اس قدر ہِل جُلکی ضرورت نہتھی۔نہ ہنگامیاجلاس درکار تھے اور نہ ہیافرا تفری میں جاری کئے گئے بیانات۔چپ چپیتے بھی 'مخبر' کا کھرا ڈھانڈا جا سکتا تھا۔جو احتیاط اب وزیرعلیٰ کے قریبی ذرائع کی جانب سے برتی گئی ہے اسی کا مظاہرہ کیا جاتا تو صورتِ حال خراب نہ ہوتی۔ اس خبر پر جب صحافی نےوزیر اعلی پنجاب کا موقف حاصل کرنے کے لئے ان کے قریبی ذرائع سےرابطہ کیا تو'ذریعے' نے کال کی بجائےوٹس ایپ پر تحریری جواب ارسال کیا اور احتیاطاً 'پریم پتر' محفوظ کر لیا کہ بوقت ضرورت کام آوے۔ بہر حال صورتحال واضح کرنا انہتائی آسان ہے۔ لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ پردہ کیسا؟لاج کیسی؟ شرم کیسی؟کنفیوژن کیسی؟میرے پاس تو جواب نہیں ماسوائے ایک طویل قصے کے۔۔ شاید کہ آپ کچھ سمجھ پائیں۔
کہتے ہیں بھلے وقتوں میں فوجی بھرتی کے لئے دیہات میں کیمپ لگا کرتے تھے جس کی روایت انگریز سرکار نے ڈالی تھی۔ان کیمپوں کے ذریعے دیہات سے صحت مند نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا۔کسی گاوں میں کیمپ لگا تو دودیرینہ دوستوں کے مابین بھرتی ہونے کے معاملے پرسنجیدہ تبادلہ خیال ہوا۔قارئین کی سہولت کے لیے اس پنجابی مکالمے کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
ایک نے کہا: 'رفیق' سنا ہے گاوں میں کیمپ لگا ہے،بھرتینہ ہو جائیں؟
رفیق بولا: بھرتی تو ہو جائیں مگر سچ پوچھو تو شرم بہت آتی ہے یار۔۔
کیوں؟اس میں شرم والی کونسی با ت ہے؟ (پہلا دوست )
رفیق: دیکھو یار!اگر تو ہم بھرتی ہوگئےتو ٹریننگ کرنا پڑے گی یا پھر واپس بھاگ آئیں گے۔
اور اگر واپس بھاگ آئے تو ٹھیک ہے،لیکن اگر ٹریننگ کرنا پڑ گئی تو پھر دو صورتیں پیش آسکتی ہیں:
یا تو ٹریننگ کے بعد بارڈر پر بھیج دیا جائے گایا کسی یونٹ میں پوسٹ کر دیا جائے گا۔
اگریونٹ میں تعینات کر دیا گیا تو ٹھیک، لیکن اگر بارڈر پر بھیجا گیاتو پھر وہاں بھیدو صورتیں پیش آسکتی ہیں:
یا تو دشمن کے ساتھ امن رہے گایا پھر کسی بھی وقت جنگ چھڑ جائے گی۔
اور اگر تو بارڈر پر امن رہا تو ٹھیک ہے، بات سمجھ میں آتی ہے۔ البتہ جنگ چھڑ گئی تو پھر دو صورتیں پیش آسکتی ہیں:
یعنی یا تو ہم انہیں ماریں گے یا پھر وہ ہمیں ماردیں گے۔
اور اگر تو صرف ہم انہیں مارتے رہیں تو ٹھیک ہے، بات سمجھ میں آتی ہے اور فوج میں جانے کا جواز بھی درست ثابت ہوتا ہے، لیکن اگر تو دشمن نے ہمیں ماراتو پھر دو تشویشناک صورتیں پیش آسکتی ہیں:
یعنی یا تو ہمارے اپنی فوجی ہماری لاشیں اٹھال لائیں گےیا پھر دشمن ہمارے لاشے لے جائے گا۔
اور اگر تو ہمارے جسد خاکی اپنے فوجی اٹھا لیں تو پھر تو سب ٹھیک ہے۔لیکن اگر ہمارے جسم دشمن کے ہتھے چڑھ گئے تو پھرمزیددو صورتیں پیش آسکتی ہیں:
یعنی یا تو دشمن ہمیں دفنا دے گاورنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری لاشیں جنگل میں پھینک دے۔
اگر تو دفنا دیا جائے یا یوں کہوں کہ جلا بھی دیں تو پھر بھی بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن اگر تو جنگل میں لاشیں پھینک دی گئیں تو دو بھیانک قسم کی صورتیں پیش آسکتی ہیں:
ایک: ہماری لاشیں جنگلی درندے چیر پھاڑ دیں گے۔
دو: یا پرندے ہمارے لاشے نوچ ڈالیں گے۔۔
اور اگر ایسے میں جنگلی درندے ہمیں ہڑپ کر لیں تو ٹھیک ہے، بات سمجھ میں آتی ہے۔ البتہ اگرہم نوچنے والے پرندوں کے سپرد ہوگئے تو پھر دو مزید تکلیف دہ صورتیں پیش آسکتی ہیں:
ایک: یا تو ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی، مٹی میں مٹی ہو جائیں گے
دو: یا پھر ہڈیاں چننے والے ہماری ہڈیاں اٹھا لے جائیں گے۔
اور اگر تو ہماری ہڈیاں مٹی میں گل گئیں تو بات قابل قبول ہے لیکن اگر ہمارے نوچے گئے اجسام کے باقی ماندہ استخوان، ہڈیاں چننے والے اٹھا لے گئے تو پھر انتہائی ناقابل برداشتدو مزید صورتیں پیش آسکتی ہیں:
پھر یہ ہڈیاں کارخانےلے جائی جائیں گی جہاں ان سے صابن بنے گا۔صابن یا تو کپڑے دھونے والا بنے گا یا پھر نہانے والا۔
اور اگر تو ان ہڈیوں سے کپڑے دھونے والا صابن ہی بنے تو ٹھیک ہے۔ اور اگر نہانے والا صابن بنا تو پھر دو مشکل صورتیں پیش آسکتی ہیں:
دوست نے انتہائی تشویش میں بے صبری سے پوچھا:
نہانے والا صابن بننے سے آخر کونسی تشویشناک صورتحال جنم لے سکتی ہے ؟
رفیق بولا: اگر تو ہماری ہڈیوں سے صرف نہانےوالا صابن ہی بنا تو اس صابن کا استعمال مرد کریں گے یا خواتین۔
اور اگر تو یہ صابن صرف مردوں کے استعمال میں ہی رہے تو ٹھیک۔۔ بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن اگر یہی صابن خواتین نے استعمال کیاتو قسم خدا کی۔۔۔پھر مجھے بے انتہا شرم آئے گی اور یہ میرے لئے ناقابل برداشت صورتحال ہوگی۔
اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ یہ ناقابل برداشت صورتحال اصل میں درپیش کہاں ہے؟ اور اس کے 'اُپائے' کے لئے کہیں صابن بنانے والا کارخانہ بند کرنالازم تو نہیں ٹھہر گیا؟ لیکن لگتا یہ ہے کہ بچی کچھی ہڈیاں دفنانے کےلیے دو اصحاب کی چُھٹی کرانے کا بندوبست کیا گیا ہے تاکہ اس شرمناک صورتحال سے بچا جا سکے۔ یہ قربانی ہو گئی تو ٹھیک وگرنہ دو صورتیں ہوں گی یا تو صورت حال مزید شرمناک نہیں ہو گی یا پھر مزید شرمناک ہو گی اور اگر مزید شرمناک ہو گی تو پھر کسی بڑے کی بھی چھٹی ہو سکتی ہے۔
کچھ لکھاری کے بارے میں
اجمل جامی اینکر، پروڈیوسر اور رپورٹر ہیں، وہ آجکل دنیا نیوز سے وابستہ ہیں اور حالات حاضرہ پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔