برکس (BRICS) کا آٹھواں اجلاس اور پاکستان کی ’’تنہائی‘‘!

برکس (BRICS) کا آٹھواں اجلاس اور پاکستان کی ’’تنہائی‘‘!
 برکس (BRICS) کا آٹھواں اجلاس اور پاکستان کی ’’تنہائی‘‘!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

15اور 16اکتوبر کو گوا (انڈیا) میں برکس (BRICS) کا دو روزہ چوٹی اجلاس تھا جس کا میزبان اس دفعہ بھارت تھا۔۔۔ برکس کا لفظ پانچ ممالک کے پہلے حروف کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ یعنی بی (B)فار برازیل، آر (R) فار رشیا، آئی (I) فار انڈیا، سی (C) فار چائنا اور ایس (S) فار ساؤتھ افریقہ۔۔۔
گوا کا یہ اجلاس ان پانچ ممالک کے سربراہوں کا چوٹی اجلاس تھا جس میں برازیل، روس اور چین کے صدور شامل ہوئے جبکہ انڈیا اور ساؤتھ افریقہ کے وزرائے اعظم نے شرکت کی۔ موخر الذکر دونوں ممالک کا طرز حکومت چونکہ پارلیمانی جمہوری ہے اس لئے یہاں حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہے جبکہ باقی تینوں ملکوں میں صدارتی نظام رائج ہے، اس لئے کانفرنس میں ان کے صدور نے شرکت کی۔ یہ برکس نامی تنظیم مالی طور پر آسودہ حال ممالک کی ایک طرح کی اقتصادی تنظیم ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کی حیلہ سازیاں ملاحظہ کیجئے کہ وہاں دیوِ استبداد کس انداز میں جمہوری قبا میں پائے کوب رہتا ہے۔
دیو اِستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
برازیل، روس، چین اور جنوبی افریقہ ایسے چار ممالک ہیں جو دفاعی سازوسامان کی برآمدات کے لئے مشہور ہیں۔۔۔۔ برازیل جنوبی امریکہ کا وہ واحد ملک ہے جس نے ماضیء قریب میں تقریباً تقریباً جوہری اہلیت حاصل کر لی تھی اور قریب تھا کہ جوہری دھماکہ کر دیتا لیکن امریکہ کو یہ منظور نہیں تھا کہ اس کے پچھواڑے میں ایک جوہری ’’بم دربغل‘‘ قوت موجود ہو۔ وہ قوت کسی بھی وقت امریکہ کی پیٹھ میں جوہری خنجر گھونپ سکتی تھی۔ اس لئے امریکہ نے برازیل کو جوہری دہلیز سے واپس لانے میں جو تاریخی کردار ادا کیا، وہ امریکی سفارت کاری اور عالمی بساط پر اس کی سفاک حکمت عملی کی بہت دلچسپ کہانی ہے۔ قارئین کو اس کی تفصیل ضرور جاننی چاہیے۔


1960ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں جب سوویٹ یونین نے اپنے بین البراعظمی بلاسٹک میزائل (ICBM) کیوبا میں منتقل کر دیئے تھے تو امریکہ نے ایک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ہمارے ایک سابق صدر جیمز منرو (James Monroe) نے 1823ء میں فرمایا تھا کہ اگر ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے مستقبل میں عالمی سیاست میں کوئی اہم رول ادا کرنا ہے تو اس کے ہمسائے میں ایسی کوئی دوسری قوت موجود نہیں ہونی چاہیے جوامریکی بالادستی کو چیلنج کر سکے۔ چنانچہ اسی منرو ڈاکٹرین کی پیروی میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے سوویٹ یونین سے مطالبہ کر دیا تھا کہ وہ اپنے میزائل ہمارے ہمسائے (کیوبا) سے ہٹالے۔ اس زمانے میں روس، سوویٹ یونین کہلاتا تھا اور دنیا کی دوسری سپرپاور تھا۔ خروشچیف، سوویٹ یونین کا صدر تھا۔ اس نے پہلے تو بڑا حوصلہ دکھایا لیکن جب کینیڈی ڈٹ گیا اور دھمکی دی کہ اگر میزائل نہ ہٹائے گئے تو کیوبا پر حملہ کر دیا جائے گا تو خروشچیف کو بحیرۂ کریبین میں اپنی واحد کمیونسٹ اتحادی ریاست کے صدر فیڈل کاسترو کو کہنا پڑا تھا کہ ہم اپنے میزائل (ICBM) سرزمینِ کیوبا سے ہٹا رہے ہیں۔۔۔


مغربی نصف کرۂ ارض (Hemisphere) کو نقشے پر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ امریکہ کے شمال میں کینیڈا ہے جس سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ گویا امریکہ کا ایسا چھوٹا بھائی ہے جس کے عسکری اعصاب و قد و قامت کی گروتھ رک چکی ہے۔اسی طرح وسطی امریکہ میں بھی چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں، ان کی فوجی حیثیت و اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ براعظم جنوبی امریکہ میں برازیل اور وینزویلا ایسے دو ممالک ہیں جو امریکی قیادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتے تھے۔ برازیل تو آدھے سے زیادہ براعظم جنوبی امریکہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اور ونزویلا تیل برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لیکن عسکری اعتبار سے سعودی عرب کی طرح ’’بے ضرر‘‘ ہے۔ برازیل کی دفاعی صنعت بھی جدید ہے اور وہ دفاعی سازوسامان برآمد کرنے والے ممالک میں بھی شامل ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جنوبی ایشیاء کے لوگوں کے لئے برازیل ایک دور دراز فاصلے پر واقع ملک سمجھا جاتا تھا لیکن اب چند برسوں سے پاکستان نے بھی برازیل کے ساتھ دفاعی اور تجارتی تعلقات بڑھانے شروع کر دیئے ہیں۔۔۔ اور بھارت تو ہم سے بہت پہلے وہاں کے کمرشل شعبوں میں جانا پہچانا جاتا تھا۔
برازیل کے بعد،برکس ممالک میں، ساؤتھ افریقہ بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جس نے ماضی قریب میں جوہری دھماکے کا قرب حاصل کر لیا تھا۔ بعض لوگ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ اس نے راس امید (Cape of Good Hope) کے جنوبی سمندر میں جوہری تجربہ کر لیاتھا لیکن بوجوہ اس کا برملا اعلان نہیں کیا۔۔۔ جنوبی افریقہ کی دفاعی صنعت بھی نہایت ترقی یافتہ ہے اور یہ ملک بھی تیسری دنیا کو دفاعی سازوسامان برآمد کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔باقی رہ گئے روس اور چین، تو ان کے بارے میں ہم اور آپ سب کچھ جانتے ہیں۔۔۔ برکس کی اس تنظیم میں لے دے کے انڈیا ہی ایک ایسا ملک رہ جاتا ہے جس کی دفاعی صنعت برکس کے باقی چاروں ممالک کے مقابلے میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ جہاں برکس کے باقی چاروں ممالک ہلکے اور بھاری دفاعی ہتھیار برآمد کرتے ہیں وہاں انڈیا درآمد کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں برکس میں صرف انڈیا ہی وہ ملک ہے جو باقی چاروں ملکوں کے دفاعی سازوسامان کی فروخت کی ایک بڑی منڈی ہے۔ میرے نزدیک انڈیا،گویا گدھے پر سوار وہ پانچواں سوار ہے جو خواہ مخواہ باقی چار گھڑسواروں میں اپنے آپ کو شمار کرنے کے خبط میں مبتلا ہے!
روس، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل کو تو اپنا دفاعی سامان بیچنے کے لئے مارکیٹ چاہیے۔ اور اس نکتے پر بھی غور فرمایئے کہ برکس کی وجہِ نزول بھی یہی آئیڈیا تھا۔ اب دیکھ لیجئے بھارت ان چاروں ملکوں سے اسلحہ خرید رہا ہے اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کس کے لئے خرید رہا ہے۔ وہ روس، جنوبی افریقہ اور برازیل کی طرف تو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، اس لئے سارا فوکس پاکستان پر رکھا ہوا ہے۔ہاں برکس کے باقی ممالک، انڈیا کی طرف للچائی نظروں سے ضرور دیکھ سکتے ہیں۔انڈیا کی GDPچونکہ سات آٹھ فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے اس لئے انڈین تجوری کو دیکھ دیکھ کر برکس کے ملکوں کی رال ٹپک جاتی ہے۔۔۔ روس کچھ عرصے سے یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ بھارت اس کے حصار سے نکل کر امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے۔ اس لئے جب برکس کی تشکیل کا آغاز ہوا تو روس نے انڈیا کو امریکی دائرۂ اثر سے نکالنے کے لئے ’’فٹافٹ‘‘ اس نئی اقتصادی تنظیم کا رکن بن جانے میں غائت دلچسپی کا اظہار کر دیا۔۔۔ اب روس کا یہ داؤ کارگر بھی ہو رہا ہے۔


گوا کی اسی کانفرنس میں انڈیا نے روس سے دو دفاعی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ ایک تو S-400ائر ڈیفنس سسٹم کی خریداری کا معاہدہ ہے اور دوسرا 200فوجی ملٹری ہیلی کاپٹروں کا وہ معاہدہ ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں بنائے جائیں گے کیونکہ مودی صاحب پر ایک عرصے سے Made in India کا جنون طاری ہے۔ راقم السطور کئی کالم اس موضوع پر لکھ چکا ہے۔ لیکن برکس اور اس طرح کی دوسری عالمی تنظیموں سے بھارت کو ایک فائدہ ضرور حاصل ہو رہا ہے۔ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا (Isolate) کرنے کا جو نیا شوشہ مودی صاحب نے چھوڑا ہے، بھارت کو (بزعمِ خود ہی سہی) اس میں کامیابی مل رہی ہے۔


جب مودی صاحب گوا میں روس کے صدر پوٹن کو خوش آمدید کہہ رہے تھے تو میں ان کے چہرے پر پھیلی پاکستان دشمنی کی مکروہ پرچھایاں دیکھ رہا تھا۔ ان کے استقبالئے کا افتتاحیہ فقرہ یہ تھا: ’’خواتین و حضرات! روسی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ : ’’پرانا ایک دوست، نئے دو دوستوں سے بہتر ہوتا ہے‘‘۔۔۔ انہوں نے یہ فقرہ جب روسی زبان میں دہرایا تو صدر پوٹن کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل رہی تھی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ایس۔400 ائر ڈیفنس سسٹم انڈیا کو بیچ کر اگر دس ارب ڈالر مل جاتے ہیں، اگر 200ہیلی کاپٹر فروخت کرکے مزید اربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں اور اگر بھارت کے آئندہ برسوں کی مجوزہ 100ارب ڈالر کی دفاعی خریداری میں روس کو ایک نمایاں پارٹنر ہونے کا موقع مل سکتا ہے تو پھر مودی کی روسی زبان میں کہی گئی بے وقت کی اس راگنی (ضرب المثل) کو گوارا کرنے میں کیا ہرج ہے۔ مودی صاحب کا اشارہ اس طرف تھا کہ بھارت تو روس کا پرانا دوست ہے ۔وہ اگر بھارت کو چھوڑ کر آج پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرتا ہے تو اسے بھارت کی 1950ء کے عشرے سے چلی آ رہی دیرینہ رفاقت بھی یاد رکھنی چاہیے۔ صدر پوٹن اگر چاہتے تو وہ مودی صاحب کو اپنی زبان ہی کی ایک اور ضرب المثل بھی یاد دلا سکتے تھے جو اس طرح ہے : ’’نئے ساتھی کے ساتھ ڈیٹنگ پر جانے سے پہلے پرانے آشناؤں کے جذبات سے غافل نہیں ہونا چاہیے!‘‘۔۔۔ حالیہ امریکہ۔ بھارت تعلقات اور اوباما کے ساتھ ’’جپھیاں‘‘ ڈالنے کا آئینہ مودی صاحب کو دکھایا جا سکتا تھا۔ لیکن صدر پوٹن تو ایک سپرپاور ہونے کے ناطے ایک ’’سپرتاجر‘‘ بھی ہیں اور تاجر لوگ، گاہکوں کو ناراض نہیں کیا کرتے۔۔۔۔ ان کو نادان سمجھ کر معاف کر دیا کرتے ہیں۔
16اکتوبر کو برکس کے اجلاس کے خاتمے پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس کو میں نے حرفاً حرفاً پڑھا ہے۔ چونکہ اس قسم کی کانفرنسوں میں اعلامیے کا مسودہ میزبان ملک کی وزارتِ خارجہ تیار کرتی ہے اس لئے مجھے شک تھا کہ اس میں براہِ راست یا بالواسطہ، پاکستان کے خلاف ایسی عبارت ضرور ہوگی جو اوڑی حملے کے تناظر میں مودی حکومت سے متوقع تھی۔ لیکن اگرچہ یہ اعلامیہ خاصا طویل اور مبسوط ہے لیکن اس میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو پاکستان دشمنی میں انڈین آشاؤں کا ترجمان کہا جا سکے۔ مودی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک برکس میں چین شامل ہے،وہ پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کی کامیابی کی صبح نہیں دیکھ سکتے۔ ویسے مودی صاحب کی ’’ڈھٹائی‘‘ کی بھی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اجلاس کے ان دو دنوں میں مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے کئی بار پاکستان کے خلاف زہر اگلا اور اپنی مختلف تقریروں کے دوران اپنا نقطہ ء نظر بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔یہ دوسری بات ہے کہ ’’شرکائے بزم‘‘ نے مودی جی کی گائے کو کوئی گھاس نہیں ڈالی!۔۔۔ مجھے ان کی حالت پر ترس آنے لگا۔۔۔۔ جو باتیں وہ برکس اعلامیے میں شامل نہیں کروا سکے وہ ضیافتوں میں بیان کئے جا رہے ہیں۔ مثلاً ان کے یہ ریمارکس ملاحظہ کیجئے:
1۔ ہمارے ہمسائے میں ایک ملک ایسا ہے جو دہشت گردی کا مدرشپ (Mother Ship) ہے۔
2۔ دہشت گردی، شدت پسندی اور ’’جرائم کی نقل مکانی‘‘ سے ہم سب کو خطرہ ہے۔(جرائم کی نقل مکانی کے بین السطور جو کچھ کہا جا رہا ہے اس پر غور کیجئے!)
3۔وقت آ گیا ہے کہ ہم ریاستوں کی طرف سے دہشت گردی کو سپانسر کرنے والوں کے خلاف اقدام اٹھائیں۔
4۔جو ملک دہشت گردی کے فلسفے کی آبیاری کرتے ہیں ان کو یہ صاف صاف پیغام دے دینا چاہیے کہ یا تو اپنی اصلاح کر لیں وگرنہ مہذب دنیا میں تنہا رہ جانے کے لئے تیار ہو جائیں۔


بھارتی وزیراعظم جب یہ باتیں مختلف تقاریب میں کہہ رہے تھے تو میں انہیں سن اور پڑھ کر پاکستان کے بارے میں دو باتیں سوچ رہا تھا۔۔۔ ایک تو یہ کہ ہمیں اپنی سپورٹ میں چین کو ایک حد سے آگے نکل کر کوئی اقدام کرنے کے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اور جتنی جلد ہو سکے سی پیک (CPEC) کو تکمیل کی منزل تک لے جانا چاہیے اور اس میں چین کے مفادات کے کیف و کم کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہیے۔۔۔ اور دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کو بھارت کی طرف سے تنہا کر دینے کی دھمکی کو اپنے موجودہ اندرونی سیاسی حالات کی عینک لگا کر بھی دیکھنا چاہیے۔ 6 اکتوبر کو ’’ڈان‘‘ میں جو سٹوری چھپی تھی، اس کا ترجمہ اسی روز میں نے اپنے کالم میں دے دیا تھا۔جو 7اکتوبر کو اسی صفحے پر شائع ہوا تھا۔ اور ساتھ ہی میں نے نہایت ’’دھیمی لَے‘‘ میں اس طوفان کی طرف بھی اشارہ کر دیا تھا جس کا تذکرہ آج کل میڈیا پر صبح و شام کیا جا رہا ہے۔ یہ سرل المیڈا کے بیرون ملک جانے یا نہ جانے کی بات نہیں۔یہ پاکستان کے خلاف مغربی اور ایشیائی ملکوں کے خبث وطن میں پاکستانی صحافیوں کی شرکت اور سپورٹ کا معاملہ ہے جو حد درجہ قابلِ مذمت ہے۔ یہ ایک میڈیائی جال ہے جو ناقابلِ بیان حدود تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے اشارے اور کنائے کبھی مبہم اور کبھی صاف آوازوں میں الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ برکس کے اس آٹھویں اجلاس کے اعلامیے میں اگرچہ پاکستان کو تنہا کر دینے کا کوئی ذکر نہیں لیکن بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے خلاف جس دلی بغض اور اپنے قومی ایجنڈے کو برسرعام کر دیا ہے اس میں ہمارے بعض میڈیا ہاؤسز کی شراکت بھی شامل ہے۔ جہاں ہم اپنے بیرونی دشمن کی مکاریوں کو دیکھ رہے ہیں وہاں بھارتی ایجنڈے کی تکمیل میں اندرونی ’’دوستوں‘‘کی عیاریوں کا بھی کچھ نہ کچھ ’’خیال‘‘ کرنا چاہیے۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور ہمیں پچھتانا پڑے!

مزید :

کالم -