پاک ترک تعلقات کے مضمرات!

پاک ترک تعلقات کے مضمرات!
پاک ترک تعلقات کے مضمرات!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ خبر تو آپ نے تین روز پہلے پڑھ لی ہو گی کہ ایک ترک فیملی کو حکومت نے واپس ترکی بھیج دیا ہے۔ یہ خاندان واپس کیوں بھیجا گیا، اس کی کوئی وضاحت فی الحال حکومت کی طرف سے نہیں آئی۔۔۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہمارے ترک مسلمان بھائی ہمارے دفاعی اور اقتصادی اتحادی رہے ہیں اور کچھ کچھ آج بھی ہیں۔ چند برس پہلے تک ترک صدر جناب رجب طیب اردگان اپنے ملک کے ایک مذہبی، روحانی اور ثقافتی رہنما کے ساتھ گھی شکر تھے۔ فتح اللہ گولن کے نام سے ہر لکھا پڑھا پاکستانی واقف ہے۔

لیکن سیاسیات کی دنیا میں دائمی دوستیاں اور دائمی دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ چنانچہ بعض معاملات پر اردگان اور گولن میں ٹھن گئی۔ گولن، امریکہ چلے گئے اور وہاں جا کر سیاسی پناہ لے لی۔ امریکہ ان کے ساتھ اسی طرح سے پیش آیا جس طرح برطانیہ، الطاف حسین کے ساتھ پیش آیا۔

ایسے قیمتی اور سٹرٹیجک اہمیت کے مہرے مغربی ملکوں نے ہمیشہ اپنے پاس رکھے ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں۔ یہ رسم البتہ مسلمانوں کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ کوئی گورا، ہمارے کسی مسلم ملک میں اس طرح کی سیاسی پناہ کا سٹیٹس نہیں رکھتا جس طرح گولن اور الطاف امریکہ اور برطانیہ میں رکھتے ہیں۔۔۔ بہر کیف یہ موضوع الگ ہے!


ان ایام میں جب گولن ، ترک حکمرانوں کے منظور نظر تھے تو گولن اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان میں پاک ترک تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی جن کی تعداد بڑھتے بڑھتے 32 سکولوں اور کالجوں تک جا پہنچی۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کاروبار ویسے بھی پاکستان میں بہت جلد پھلتا پھولتا ہے۔ سیاسیات اور میڈیا کے بعد نجی تعلیمی ادارے ایک نہائت نفع بخش اور ہردلعزیز بزنس ہیں!۔۔۔ لیکن جب گولن اور اردگان کی کُٹی ہو گئی تو اس وقت ایک ترک NGO یہ 32 سکول/ کالج چلا رہا تھا جن میں 115 ترک خاندان مختلف تدریسی اور انتظامی شعبوں میں کام کررہے تھے۔ یہ پاک۔ ترک ایجوکیشن سکول اور کالج نہ صرف اسلام آباد میں تھے بلکہ لاہور، کراچی اور ملتان وغیرہ میں بھی ان کی شاخیں کھل گئیں اور 11000 پاکستانی طلباء ان اداروں میں تعلیم پانے لگے۔۔۔۔ ہم پاکستانی شب و روز اپنی آبادی میں اضافے کے کاروبار میں دل و جان سے خون پسینہ ایک کر رہے ہیں اور اسی تناسب سے نجی سکول اور کالج وغیرہ بھی روز بروز پروان چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یعنی:


دیوانہ بہ را ہے رود و طفل بہ را ہے
یاراں مگر ایں شہرِ شماسنگ ندارد؟
شہرِ سیاسیات کا بھلا ہو کہ اس میں پتھر بھی جلد ہی سامنے آ گئے۔ گولن اور اردگان کی دوستی جب دشمنی میں تبدیل ہو گئی تو گولن کے ترک بہی خواہوں نے اپنے امریکی دوستوں سے مل کر اردگان کے خلاف بغاوت کروا دی۔

یہ بغاوت جولائی 2016ء میں ہوئی تھی جس میں اردگان بال بال بچ گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر روس کا مردِ آزاد ولاڈی میرپوٹن بیچ میں نہ آتا تو اردگان صاحب کا بوریا بستر گول ہو چکا ہوتا۔ اس ناکام بغاوت کے شاخسانے میں ترک مسلح افواج میں جو کانٹ چھانٹ ہوئی اور غداروں پر جو مقدمات چلائے گئے ان کی خبریں اب قصہ ء پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ تاہم امریکی اثر ورسوخ آج بھی ترکی میں موجود ہے۔۔۔ اس پر مزید گفتگو ہم آگے جا کر کریں گے۔۔۔


ترکی کے اربابِ اختیار نے اس بغاوت کے بعد پاکستان سے درخواست کی کہ ان تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جائے جو پاک ترک ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیرِ انتظام چلائے جا رہے ہیں اور ان ترک اساتذہ (خواتین اور مرد) کو واپس ترکی ڈی پورٹ کر دیا جائے۔ لیکن پاکستان کو اس معاملے میں کئی دشواریوں کا سامنا تھا۔۔۔ ایک تو ترکی کے ساتھ موجودہ حکومت کے اربابِ اختیار و اقتدار کے وہ تعلقات تھے جن کے دو طرفہ ڈانڈے تجارت اور دفاع سے ملے ہوئے تھے۔ ان تعلقات کے بارے میں گاہے بگاہے ہمارے میڈیا پر بہت کچھ کہا سنا جاتا ہے اور آج بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں۔۔۔ دوسرے ان اداروں میں زیر تعلیم 10ہزار سے زیادہ پاکستانی طلباء و طالبات کا معاملہ تھا کہ اگر وہ سکول بند ہو جائیں گئے تو یہ ہزاروں طلباء کہاں جائیں گے۔۔۔ اور تیسرے ان ترک اساتذہ کی ڈی پورٹنگ کا مسئلہ تھا جن کو خدشہ تھا کہ جب وہ واپس اپنے ملک جائیں گے تو وہاں اردگان انتظامیہ کی پولیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور ان کو گولن کی اسلامی تحریک (ہزیمت) سے منسلک ہونے کی سزا ملے گی۔ ہزاروں لاکھوں ترک باشندے ترکی میں پہلے ہی اس جرم میں قید و بند کی صعوبتیں بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں جو ترک خاندان ان سکولوں اور کالجوں سے منسلک تھے ان میں سے 30کو واپس ترکی ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا لیکن 70 خاندان ابھی تک پاکستان ہی میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (UNHCR) سے باقاعدہ رہائشی سرٹیفکیٹ لے لئے تھے جن کی معیاد 24 نومبر 2017ء کو ختم ہورہی ہے۔ لیکن پھر معلوم نہیں کہ کیا ہوا کہ ایک ترک خاندان کے چار افراد (مسٹر کا کماز، مسز کاکماز اور ان کی دو جواں سال بیٹیاں جن کے نام بالترتیب ہدا نور اور فاطمہ ہما تھے) کو فی الفور ترکی بھیجنے کے انتظامات کئے گئے۔

جیسا کہ خبروں میں بتایا گیا ہے یہ ترک فیملی واپڈا ٹاؤن لاہور میں رہ رہی تھی جہاں سے ان میاں بیوی کو انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پکڑا اور 27ستمبر 2017ء کو ایک سپیشل پرواز کے ذریعے جو ترکی سے آئی تھی اور جس میں ترک پولیس کے اراکین شامل تھے کے حوالے کر دیا جبکہ دونوں لڑکیاں ریگولر پاکستانی پروازوں سے کراچی بھیج دی گئیں اور اب ان کو بھی ترکی بھیجا جا چکا ہے۔


اس کیس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اسی ترک جوڑے کے دوستوں نے لاہور ہائی کورٹ میں حبسِ بے جا کی ایک درخواست دائر کر رکھی تھی جس میں عدالت عالیہ نے فیصلہ دیا تھا کہ ان کو ترکی واپس نہ بھیجا جائے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ یہ کیس ہنوز لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور آج (17اکتوبر 2017ء ) جب یہ سطور قلمبند کی جا رہی ہیں، اس کی سماعت جاری ہے۔


ترکی اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی ایک سے زیادہ پرتیں (Layers) ہیں۔۔۔ ایک پرت کا تعلق تو باہمی تجارتی روابط سے ہے جبکہ دوسری پرت بین الاقوامی تعلقات سے مربوط ہے۔۔۔ ترکی اور پاکستان دونوں اگرچہ ایک طویل عرصے تک امریکہ کے منظورِ نظر اتحادی رہے ہیں۔ لیکن آج حالات مختلف ہو چکے ہیں۔ ترکی گزشتہ سال (جولائی 2016ء سے) امریکہ سے بدظن ہے اور روس کے قریب جا چکا ہے ۔اسی طرح پاکستان بھی صدر ٹرمپ کی آمد کے بعد ٹرمپ کی افغانستان پالیسی کے تناظر میں اس سے بدظن ہے اور روس کا قرب حاصل کر رہا ہے۔ ہر چند کہ گزشتہ دنوں پاکستان نے ایک امریکی فیملی کو غیر ملکی اغواء کاروں سے بازیاب کروا کر واپس کینیڈا بھیج دیا ہے اور ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے باہمی سرد مہری کی برف کچھ پگھل رہی ہے لیکن ہنوز مطلع ابر آلود ہے۔ مسقط میں حالیہ چار ملکی کانفرنس (پاکستان، چین، افغانستان اور امریکہ) کے اختتام پر اگرچہ کوئی رسمی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا لیکن یہ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکہ کو بالآخر یہ احساس ہو چلا ہے کہ جب تک طالبان کو آئندہ کسی افغان حل میں شامل نہیں کیا جائے گا، افغانستان کا مسئلہ لاینحل رہے گا۔۔۔


دو روز پہلے مشاہد حسین سید نے یہ کہہ کر دنیا کو حیران کر دیا ہے کہ امریکہ اب دنیا کی واحد سپرپاور نہیں رہا۔ اب روس اور چین اس کی برابری کے قریب پہنچ چکے ہیں۔یعنی یہ دنیا اب دو قطبی کی بجائے ’’سہ قطبی‘‘ ہونے جا رہی ہے۔ یہ تیسرا پول کہاں ہو گا، اس کا فیصلہ آنے والا وقت جلد کرنے والا ہے۔

ممکن ہے اس وقت تک شائد کوئی چوتھا پول بھی سامنے آ جائے۔ شمالی کوریا جس طرح کھل کر امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے، میرے خیال میں شائد وہ چوتھے پول کی بنیادیں رکھ رہا ہے۔۔۔ آج جو چیز نظروں سے اوجھل ہے، آنے والے کل میں شائد مجسم ہو کر سامنے آ کھڑی ہوں:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
پاکستان کی طرح ترکی نے بھی ابھی امریکہ سے حتمی قطعِ تعلقی کا فیصلہ نہیں کیا۔ دونوں ممالک کے سٹیک ایک دوسرے کے ساتھ بہت اہم اور بہت وزن دار ہیں۔۔۔ ترکی دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے لے کر آج تک امریکہ کا ایک اہم حلیف رہا ہے۔۔۔ ناٹو کے 29ممالک میں ترک فوج کی نفری (امریکہ کے بعد) سب سے زیادہ ہے ۔۔۔ ترکی ،ناٹو کا انتہائی مشرقی فلینک ہے۔۔۔ ترکی میں ایک سے زیادہ امریکی فوجی اڈے (Bases) ہیں جن سے اٹھ کر امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر ترک تازیاں کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔۔۔ انہی اڈوں میں ایک اڈے کا نام انسرلِک (Incirlic) ہے جو ترکی کے جنوب مغرب میں ایک وسیع و عریض امریکی مستقر ہے۔۔۔ اس مستقر میں امریکہ نے 50سے زیادہ جوہری بم بھی رکھے ہوئے ہیں جن کو بوقت ضرورت ’’کام میں‘‘ لایا جا سکتا ہے۔۔۔ اور ترکی، مسلم دنیا کو یورپ سے ملانے والا ایک پل بھی ہے!


لیکن آج یہی ترکی امریکی حلقہ ء اثر سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ برس کی بغاوت نے اردگان کو امریکہ سے بدگمان اور روس کے قریب کر دیا ہے۔ ترکی نے حال ہی میں روس سے ایک نہائت پاور فل ائر ڈیفنس سسٹم بھی خریدا ہے ۔جو غیر ملکی باشندے گزشتہ برس کی بغاوت میں ترکی میں پکڑے گئے تھے ان میں کئی امریکی بھی شامل ہیں۔

یعنی یہ امریکی باشندے اب ترکوں کے ہاں گویا یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک، ٹرمپ انتظامیہ کو مشورے دے رہے ہیں کہ اپنے 50عدد جوہری بموں کو انسرلک سے نکال کر کہیں اور سٹیشن کر دیا جائے۔ ایک ممکنہ اور متبادل جگہ اسرائیل کا وہ اڈہ ہے جو امریکہ نے حال ہی میں جنوبی اسرائیل میں بنایا ہے۔۔۔ اور اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکیوں کے علی الرغم یورپی یونین نہیں چاہتی کہ ترکی کو ناٹو سے نکال دیا جائے۔۔۔

متذکرہ بالا سطور سے قارئین کو معلوم ہوا ہو گا کہ خارجہ تعلقات کا مسئلہ کس قدر الجھا ہوا ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم نے اگر وزارتِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا تھا تو اس کے جواز کی کچھ نہ کچھ سمجھ تو آپ کو ان سطور کے پڑھنے کے بعد آ گئی ہوگی۔ (میرے مخاطب میری طرح کی اوسط فہم اردو میڈیم پاکستانی جو ہیں!)

مزید :

کالم -