پنجاب کا اگلے آٹھ ماہ کا بجٹ

پنجاب کا اگلے آٹھ ماہ کا بجٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


شدید ہنگامہ آرائی، ہاتھا پائی اور تھپڑ رسید کرنے کے مناظر کے درمیان پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے آٹھ ماہ کے لئے2026ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا،بجٹ میں صوبے کی آمدن کا تخمینہ1652 ارب روپے لگایا گیا ہے، وفاق سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت 1276 ارب روپے ملیں گے،بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے لئے500ارب روپے رکھے گئے ہیں،تعلیم اور صحت پر657 ارب روپے خرچ ہوں گے، بجٹ میں زراعت کے لئے93ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے، جس میں سے کسانوں کو بلا سود قرضے دیئے جائیں گے۔فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل اسٹیٹ کے لئے چار ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ لاہور اورنج لائن ٹرین کے لئے33 ارب، مقامی حکومتوں کے لئے 438ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے، بجٹ میں اساتذہ کے لئے ٹیبلٹ فراہم کرنے پر رقم مخصوص کی گئی ہے، ذہین طلباء کے لئے سابق حکومت کی لیپ ٹاپ سکیم ختم کر دی گئی ہے، ترقیاتی اخراجات میں 238 ارب کم کر دیئے گئے ہیں، صوبے میں اعلیٰ معیار کی تین یونیورسٹیاں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، حکومت نے اپنے اِس پہلے بجٹ کو بہترین قرار دیا ہے اور ایسا بجٹ پیش کرنے پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے وزیر خزانہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس بجٹ سے خوشحالی کا نیا باب کھلے گا۔
بجٹ سیشن میں جو ہنگامہ آرائی اور ہاتھا پائی ہوئی یہ طویل عرصے سے قائم بُری روایات کا ہی تسلسل ہے،اِس ایوان میں سابقہ حکومت نے جتنے بھی بجٹ پیش کئے اُن سب میں وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران اس وقت کی حزبِ اختلاف نے نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی کی، ایک دو ڈیسکوں کی توڑ پھوڑ البتہ ’’مور اوور‘‘ ہے باقی سب کچھ پرانا ہے، تین برس تک یہاں سابق وزیر خزانہ عائشہ غوث پاشا اِسی طرح کی ہنگامہ آرائی کے دوران اپنی بجٹ تقریر پڑھتی رہیں، بجٹ کی کتابوں اور دستاویزات کے پرزے بھی کم و بیش اِسی طرح اُڑتے رہے۔ہاشم جواں بخت ابھی جواں سال ہیں اِس لئے انہوں نے بھی ہنگامہ آرائی کے دوران جوش وجذبے سے اپنی پہلی بجٹ تقریر مکمل کی، اُنہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ آئندہ پانچ سال تک اُنہیں کس قسم کے حالات سے واسطہ پڑ سکتا ہے، بجٹ تقریر کے سالانہ ایونٹ کے ساتھ اِسی طرح کی ناخوشگوار یادیں وابستہ ہیں اور اگر اس بُری روایت کو حکومت اور حزبِ اختلاف نے مل کر سنجیدگی کے ساتھ ختم نہ کیا تو نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں ایسے کتنے مناظر آئندہ بھی دیکھنے پڑیں گے،1958ء کے مارشل لاء سے پہلے سیاست دانوں کے ادوار میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو ایسی ہی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آج کے جمہوری ایوانوں کو اِس قسم کی صورتِ حال سے محفوظ رکھے۔
اِس بجٹ کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بہت اعلیٰ بجٹ ہے اور وزیراعظم عمران خان کے وژن کے عین مطابق ہے، حکومتی وزراء نے بجٹ کی تعریف و توصیف بھی کی ہے، جو سب حسبِ سابق ہی ہے۔ سابق حکومتیں بھی اپنے بجٹوں کی ایسے ہی تعریف کیا کرتی تھیں اور ایوان میں بجٹ تقریر کی کاپیوں کے پرزے بھی ایسے ہی اُڑا کرتے تھے،کوئی حکومت بتا دیں جس نے اپنے بجٹ کو کبھی بُرا کہا ہو اور کوئی ایسی اپوزیشن بتا دیں، جس نے اپنی مخالف حکومت کے بجٹ کی تعریف کی ہو،اِس لئے یہ جو تعریف ہو رہی ہے اور جو مخالفت ہو رہی ہے یہ بھی حسبِ روایت اور دستورِ زمانہ کے عین مطابق ہی ہے،بلکہ کہیں کہیں تو الفاظ بھی وہی ہیں، لگتا ہے بیان لکھنے والوں نے سی ڈیز میں سے پرانے مسودے نکال کر اُن میں حالات کے مطابق ردوبدل کر کے نئے انداز میں پیش کر دیئے ہیں۔
جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے وہ تو وفاق کے ضمنی بجٹ میں بھی کہیں نظر نہیں آئی تھی، اِس لئے کوئی اگر پنجاب کے بجٹ میں تبدیلی ڈھونڈے گا تو اسے مایوسی ہو گی، اِس لئے بہتر یہ ہے کہ مایوسی سے بچنے کے لئے اِس قسم کی مشقت نہ ہی کی جائے، لیکن جو لوگ بجٹ کی تعریف کر رہے ہیں وہ اِس میں تبدیلی بھی تلاش کر لیں گے اور کہیں نہ کہیں سے عمران خان کا وژن بھی ڈھونڈ ہی لیں گے۔ حکومت کے دو ماہ میں وفاقی حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی کا جو تازہ سونامی آیا ہے وہ بھی تو عمران خان کے وژن کے مطابق ہی ہے،وژن کیا الفاظ بھی اُن کے اپنے ہیں۔
بجٹ میں1300 سے2500 سی سی کی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر لگژری ٹیکس کم کر دیا گیا ہے، دوسرے صوبوں میں یہ ٹیکس پہلے ہی کم ہے،اِس لئے لوگ اپنی گاڑیاں دوسرے صوبوں میں رجسٹر کراتے تھے،جس کا نقصان پنجاب حکومت کو ہوتا تھا اس جانب سابق حکومت کی توجہ بھی دلائی گئی تھی،لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور اس مد میں کم وصولیاں ہوتی رہیں، اب یہ کم کیا گیا ہے تو امید ہے حکومت کی آمدنی بڑھے گی۔ سٹیمپ ڈیوٹی میں بھی اضافہ کیا گیا ہے،جس سے آمدنی میں اضافہ ہو گا۔موٹر سائیکل کی لائف ٹوکن فیس میں300روپے اضافہ کیا گیا ہے، اب موٹر سائیکل کی رجسٹریشن پر 1500 روپے یک مشت ادا کرنے ہوں گے۔ ایک ہزار سی سی تک کی گاڑی پر بھی لائف ٹوکن فیس پانچ ہزار روپے بڑھی ہے اور اب اس کی رجسٹریشن پر یک مشت 15ہزار روپے وصول کئے جائیں گے۔ موٹر سائیکل اور ایک ہزار سی سی کی گاڑی عام آدمی ہی استعمال کرتا ہے، اِس لئے یہ دعویٰ تو بالکل نہیں کیا جا سکتا کہ اس بجٹ میں عام آدمی پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالا گیا،جو بھی موٹر سائیکل خریدے گا یا ایک ہزار سی سی کی گاڑی رجسٹر کرائے گا وہ عام آدمی ہو یا خاص آدمی اسے یہ ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔’’ٹیکس فری‘‘ بجٹ میں اِسی طرح کے کئی اور ٹیکس بھی بڑھائے گئے ہیں ۔
بجٹ میں تین نئی یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان کیا گیا ہے،چونکہ یہ بجٹ صرف آٹھ ماہ کے لئے ہے، اِس لئے یہ یونیورسٹیاں اگر اگلے آٹھ ماہ میں بننا شروع ہو جائیں تو یہ ایک اچھا اقدام ہو گا۔ سابق حکومت نے لاہور میں نالج پارک بنانے کا اعلان کیا تھا،لیکن کئی سال کے بعد بھی یہ منصوبہ ادھورا ہی رہا،جس کی وجہ یا تو فنڈز کی عدم دستیابی تھی یا شاید زمین وغیرہ کے حصول کے سلسلے میں کچھ مسائل درپیش تھے۔ میگا پراجیکٹس کے ساتھ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے، اِس لئے اگر ایسے پراجیکٹ شروع کئے جائیں،جو ایک سال میں مکمل ہو جائیں یا کم از کم اُن کا بڑا حصہ تکمیل تک پہنچ جائے تو پھر اگلے بجٹ میں اسے مکمل کرنا آسان ہوتا ہے،امید ہے تین نئی یونیورسٹیاں بنانے کا حشر نالج سٹی کی طرح نہیں ہو گا۔ وزیراعلیٰ نے ترقی و خوشحالی کا جو نیا باب اس بجٹ کے ذریعے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ توقع ہے کہ عوام الناس اگلے آٹھ ماہ میں یہ دروازہ کھلتے ہوئے دیکھیں گے۔

مزید :

رائے -اداریہ -