شادی ہالوں او رہیلمٹ کے بارے میں عدالتی احکامات

شادی ہالوں او رہیلمٹ کے بارے میں عدالتی احکامات
شادی ہالوں او رہیلمٹ کے بارے میں عدالتی احکامات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عدلیہ ماتحت ہو،اعلیٰ یا عظمیٰ ہم کسی کے بھی فیصلے پر اعتراض نہیں کر سکتے اور نہ کرتے ہیں تاہم یہ اصول بھی عدلیہ ہی کا طے کردہ ہے کہ کسی بھی فیصلے پر نیک نیتی کے ساتھ تنقید کی جا سکتی ہے ہم تو تنقید کے بھی قائل نہیں تاہم اگر عدلیہ کے کسی فیصلے سے عام لوگ متاثر ہو رہے ہوں تو اس کی نشان دہی میں کوئی قباحت نہیں کہ ایسا کریں تو نیت بالکل ٹھیک ہوتی ہے اور آج ہمیں بھی ایسا موقع ملا ہے کہ ہم انتہائی دیانت داری سے عدلیہ کے بعض احکام یا فیصلوں پر بات کر سکیں اور ان کے ایسے اثرات سے خود فاضل عدلیہ ہی کو آگاہ کریں،جن کی وجہ سے عوام کو مشکل کا سامنا ہے، جب سے عدالتِ عظمیٰ نے از خود نوٹس کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی شروع کی ہے۔عدلیہ سے عوام کی توقعات زیادہ وابستہ ہو گئی ہیں، اصولاً تو عدالت عالیہ بھی اس اختیار کی حامل ہے کہ ازخود نوٹس لے سکے، تاہم یہ بوجھ زیادہ تر عدالت عظمیٰ کے فاضل سربراہ نے اٹھا لیا ہے، تاہم عدالت عالیہ بھی عوامی اہمیت کے امور پر سماعت کر رہی ہے اور احکام جاری کئے جا رہے ہیں۔بہتر یہی ہے کہ پہلے عدالت عظمیٰ ہی سے بات شروع کی جائے۔فاضل چیف جسٹس محترم مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دُکھ کا اظہار کیا کہ وہ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کیا،لیکن جو کرنا چاہتے تھے وہ کر نہیں سکے۔

فاضل چیف جسٹس نے بالکل درست فرمایا، تاہم ایسا بھی نہیں کہ ان کی کارروائی سے کچھ ہوا نہیں،بہت سے احکام اور فیصلوں نے بہت اثرات بھی چھوڑے ہیں تاہم اگر محترم جج صاحب کو کچھ احساس ہوا ہے تو ہم بھی نشاندہی کر دیتے ہیں شاید اس سے اندازہ ہو کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ جناب چیف جسٹس کو ایسے افسوس کا اظہار کرنا پڑا۔

ہمارے خیال میں اور ہماری نیک نیتی والی رائے کے مطابق فاضل چیف جسٹس عدالتی سربراہ ہیں، انتظامی چیف نہیں ہیں،اِس لئے وہ آئین و قانون کے دائرہ میں رہ کر حکم دے سکتے ہیں، اس پر عمل تو انتظامیہ کا فرض ہے یا پھر جس معاملے میں متعلقہ ادارے کو ہدایت کی جائے اس نے کرنا ہوتا ہے اور یہی نہیں ہوا جو مایوسی والی بات ہے۔
عدالت عظمیٰ میں متعدد از خود نوٹس والے امور میں جاری ہونے والے احکام کو کس طرح ہوا میں اُڑا دیا گیا،اس کی ایک دو مثالیں عرض کر دیتے ہیں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ فاضل چیف جسٹس کو مایوسی کیوں ہوئی،ہم ایک مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو لاہور اور دیگر شہروں میں مسائل کا سبب بن رہے تھے،ان کو احکام دیئے گئے،لیکن متعلقہ حکام نے ایسی تشریح کی اور رپورٹ پیش کی کہ مسائل جوں کے توں موجود ہیں اور عدالت مطمئن ہو گئی۔

فاضل چیف جسٹس نے نوٹس لیا کہ شادی گھر بھی نجی سکولوں کی طرح عام عمارتوں میں بنا لئے گئے اور ان کے پاس پارکنگ تک کی جگہ نہیں،جس کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں یا جن کے سامنے گرین بیلٹس ہیں،وہ پارکنگ کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور سبزہ تباہ ہو جاتا ہے۔ عدالت نے خصوصی طور پر لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو طلب کیا، رپورٹ منگوائی تو معلوم ہوا کہ شہر میں اس نوعیت کے 180 شادی گھر ہیں،جو عوامی پریشانی کا باعث ہیں، چیف جسٹس نے ان کو سربمہر کرنے کا حکم جاری کر کے مسائل دور کرنے اور قواعد مرتب کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی، پہلے تو یہ ہوا کہ یہ شادی گھر ایک ہفتہ یا دس دن کے بعد ہی کھلنا شروع ہو گئے۔

راستہ یہ نکالا گیا کہ سب نے اشٹام پر یقین دہانی کرائی کہ ٹریفک میں رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دی جائے گی، ابتدا میں مالکان نے سیکیورٹی گارڈ متعین کئے جو پارکنگ اس طرح کراتے تھے کہ ٹریفک نہ رُکے، تاہم پھر پہلے والا ہی حال ہو گیا۔ عدالت کے روبرو رپورٹ پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ جلد ہی قواعد و ضوابط بنا دیئے جائیں گے، چنانچہ اِس سلسلے میں اتھارٹی کا باقاعدہ اجلاس بلایا گیا اور بورڈ میٹنگ میں یہ معاملہ زیر غور آیا، بورڈ (اتھارٹی والے) نے انتظامیہ ایل ڈی اے کے مرتب کردہ قواعد و ضوابط کی منظوری دی، جس کے مطابق شادی گھر کی تعمیر کے لئے رقبہ متعین کرنے کے علاوہ پارکنگ کی سہولت رکھنا لازم قرار دیا گیا اور دوسرے اعتراضات کی روشنی میں قواعد بنا دیئے گئے،چنانچہ یہ طے ہو گیا کہ آئندہ جو شادی گھر بنے گا اس کی اجازت تب دی جائے گی جب مالک قواعد و ضوابط پورے کرے گا۔

اب اسی اجلاس میں عدالت عظمیٰ کے حکم کو صفر(MINUS) کرنے کا خوبصورت انتظام کیا گیا اور یہ اضافی منظوری دی گئی کہ جو شادی گھر اب بن چکے ہیں ان کو پانچ سال کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا کاروبار سمیٹ لیں یا پھر شادی گھر کو قواعد کے مطابق بنا لیں۔عدالت کو مطمئن کر دیا گیا اور نوٹس داخل دفتر۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف پہلے سے موجود شادی گھر وہی کچھ کرنے لگے جو پہلے سے کرتے چلے آ رہے تھے،بلکہ اس دوران ایسے دو چار شادی گھر اور بھی بن گئے، فاضل چیف جسٹس اس کا نظارہ زیادہ دور نہیں، وحدت روڈ اور فیصل ٹاؤن والے علاقے میں کر سکتے ہیں،اسی طرح بعض اور احکامات پر عمل کرتے ہوئے بھی انتظامیہ نے اپنا کام دکھایا ہے۔

اب ایک نیا مسئلہ فاضل جج مسٹر جسٹس اکبر قریشی کے حکم سے پیدا ہو گیا ہے،ان کی طرف سے موٹر سائیکل سواروں کے لئے ٹریفک قواعد کے مطابق ہیلمٹ کی پابندی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ لاہور ٹریفک پولیس نے اس پر عمل کی ایسی تیزی دکھائی کہ کئی جھگڑے ہوئے اور کئی دلچسپ واقعات رونماہوئے۔بہرحال طوعاً کرعاً شہریوں نے ہیلمٹ خرید کر استعمال کرنا شروع کر دیئے،اب بھی قریباً 75 سے80فیصد حضرات نے یہ تکلیف اٹھائی ہے، ابھی یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ اب فاضل عدالت عالیہ کے مسٹر جسٹس اکبر قریشی ہی نے ایک اضافی حکم جاری کر دیا کہ موٹر سائیکل،سکوٹر پر پیچھے بیٹھی سواری خواہ مرد ہے یا عورت یا بچہ، وہ بھی ہیلمٹ پہنے گا، ٹریفک پولیس کی موجیں، بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا، اب لوگوں کے لئے نئی پریشانی شروع ہو گئی ہے کہ وہ پہلے ہیلمٹ کی بڑی قیمتوں سے نالاں تھے کہ اب نئی صورت پیدا ہو گئی ہے، خصوصاً خواتین نے زیادہ احتجاج کیا ہے۔

ہماری گزارش یہ ہے کہ یہ ہدایت یا حکم قانون کے مطابق ہے، دُنیا بھر میں اس پر عمل ہوتا ہے، تاہم ہمارے ملک میں عملی مشکلات پر نظر رکھنا ضروری تھا اور ایسا ہونا چاہئے، بہتر ہو گا کہ نیا مسئلہ پیدا نہ ہو،اِس لئے اس حکم میں کچھ رعایت کی جائے، پہلے چلانے والے عادی ہو جائیں تو پھر کچھ مہلت دے کر یہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -