پنجاب اسمبلی میں جمہوری اقدار کا جنازہ

پنجاب اسمبلی میں جمہوری اقدار کا جنازہ
پنجاب اسمبلی میں جمہوری اقدار کا جنازہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اُس کا فرنیچر بھی ٹوٹا اور پُرتشدد واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔یہ بھی پہلی بار ہوا کہ چھ ارکان اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی گئی اور انہیں بجٹ سیشن کے دوران اسمبلی میں آنے سے روک دیا گیا،کیا اسے جمہوریت کے لئے نیک شگون قرار دیا جا سکتا ہے۔

کیا اسمبلی جیسے مقدس ایوان میں ایسی ہڑبونگ اور متشدد صورتِ حال کی اجازت دی جا سکتی ہے، اس سے پہلے اسمبلی کے اندر تو تکار اور سپیکر کے سامنے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑنے کے واقعات تو ہوتے رہے ہیں،مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایوان کے ڈیسک اور کرسیاں توڑ دی جائیں،جو ڈیسک پہلے بجائے جاتے تھے، اب اُن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی،احتجاج کا یہ طریقہ تو پہلے کلرکوں اور وکلاء نے اختیار کیا تھا،جو اپنے ہی دفاتر کو تہس نہس کر دیتے تھے۔ کیا یہ روایت اب صوبائی اسمبلی میں بھی پہنچ گئی ہے،کیا اسے جمہوریت کی ترقی قرار دیا جائے یا ارکانِ اسمبلی کے لئے یہ ندامت کی گھڑی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے جو روایت قائم کی ہے اللہ نہ کرے کہ دوسری اسمبلیوں میں بھی اپنائی جائے۔ یہ تو صاف لگ رہا ہے کہ دلیل کی بجائے تشدد سے بات منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

شہباز شریف کی گرفتاری پر اتنا غصہ،سمجھ سے بالا تر ہے، انہیں قومی اسمبلی میں لے جایا گیا،انہوں نے وہاں اچھا خطاب بھی کیا۔یہی طریقہ ہوتا ہے احتجاج ریکارڈ کرانے کا،لیکن جب اسمبلی، اجلاس کے بعد کسی لٹے ہوئے گھر کا منشر پیش کرنے لگے تو سمجھو ہم پٹڑی سے اُتر گئے ہیں اور جمہوری اقدار کو اپنے رویوں کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے اندر پہلے دن سے اپوزیشن کا رویہ جارحانہ ہے۔ حلف برداری سے لے کر کل اس واقعہ تک سب دیکھ رہے ہیں کہ اسمبلی کو چلنے نہ دینے کا فیصلہ بھاری نظر آتا ہے۔

حمزہ شہباز شریف پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی ہے کہ وہ بطور اپوزیشن لیڈر ایک منجھے ہوئے سیاست دان کا کردار ادا کریں، مگر بدقسمتی سے وہ ارکانِ اسمبلی کے ساتھ کبھی باہر دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی اسمبلی کے اندر متشدد احتجاج کی قیادت کرتے ہیں، پارلیمانی روایات میں تو ہم نے یہی دیکھا ہے کہ جب اپوزیشن احتجاج کرتی ہے تو اس کا انتہائی قدم یہ ہوتا ہے کہ وہ اسمبلی سے واک آؤٹ کر جاتی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران بہت گرما گرما دیکھنے میں آئی،مگر ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا جیسا پنجاب اسمبلی میں دیکھا گیا، صرف واک آؤٹ کیا جاتا رہا اور حکومتی بنچوں کی طرف سے معذرت اور منانے کے بعد اپوزیشن ایوان میں واپس آتی رہی۔

اگر آپ اُن بنچوں اور ڈیسکوں کو توڑ دیتے ہیں، جن پر بیٹھ کر ایوان میں اپنی آواز اٹھاتے ہیں تو پیچھے کیا بچتا ہے،سنگ و خشت سے عمارتیں تو بنتی ہیں،جہاں پیدا نہیں ہوتے۔

یہ درست ہے کہ مسلم لیگ(ن) دس برس تک اسی اسمبلی میں حزبِ اقتدار کے طور پر موجود رہی ہے اور اب اُس کے لئے حزبِ اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنا آسان نہیں، روزانہ ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی یہ بیان داغتے ہیں کہ جلد پنجاب میں ہماری حکومت قائم ہو جائے گی۔

جب نفسیات میں یہ چیز چُبھتی رہے گی تو ایک اچھی حزبِ اختلاف کا کردار کیسے ادا ہوسکے گا، پھر تو یہی کچھ ہوگا جو اگلے دن پنجاب اسمبلی میں ہوا اور جمہوریت ہکا بکا رہ گئی۔
بھاری بھرکم اپوزیشن کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنی عددی قوت سے اسمبلی کو چلنے ہی نہ دے یا باڈی پالیٹکس کرے۔ اُس کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے فیصلوں پر تعمیری تنقید کرے، ایسی قابل عمل تجاویز سامنے لائے،جو حکومت کو اپنے فیصلے تبدیل کرنے پر مجبور کردے یہ رویہ کہ سپیکر کو بے بس کردینا ہے اور مخالفین کو گلی محلے کی لڑائیوں جیسے رویے سے زچ کرنا ہے،ایوان کو چلنے نہیں دینا، ایک غیر جمہوری عمل ہے۔

ایوان نہیں چلے گا تو جمہوریت کیسے چلے گی۔ جمہوریت نہیں چلے گی تو ملک کیسے آگے بڑھے گا، مسلم لیگ (ن) بدقسمتی سے نئی صورتِ حال کو قبول نہیں کرسکی۔ وہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو ہر صورت چلتا کرنا چاہتی ہے، یہ خواہش ضرور ہو سکتی ہے،مگر اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے جو آئینی راستہ ہے، اُسے بھی اپنانا ضروری ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ اسمبلی کو جام کر دیا جائے۔

اُسے مچھلی منڈی سے بھی آگے کی شے بناکر یہ تاثر دیا جائے کہ موجودہ اسمبلی چل نہیں سکتی۔ اپوزیشن کو اگر وزیر خزانہ کی تقریر سے اختلاف تھا، یا وہ ضمنی بجٹ پیش کرنے کی مخالف تھی تو ڈیسک بجاتی رہتی یا پھر واک آؤٹ کرجاتی، سپیکر کے ڈائس پر چڑھنے کی کوشش کرنا، وزیر خزانہ کا مائیک چھیننا اور اسمبلی کے فرنیچر پر غصہ نکالنا کسی بھی طرح جمہوری رویے کی چغلی نہیں کھاتا۔

پوری دنیا نے دیکھا کہ اسمبلی میں کیا ہوا،جو مناظر اور تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہے، جیسے کسی میونسپل کارپوریشن کے اجلاس میں ہنگامے کے بعد کی تصویریں ہیں۔ لگتا ہی نہیں سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی کے اجلاس کی باقیات ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویزالٰہی کو ہنگامہ آرائی کے بعد سخت فیصلہ کرتے ہوئے چھ ارکان اسمبلی کی رکنیت معطل کرنا پڑی، اب اسے بھی ایک انتقامی کارروائی قرار دیا جائے گا، حالانکہ سپیکر کے پاس اور کیا اختیار ہے کہ ایوان کو پُر امن طریقے سے چلائے۔

جب اُس کی رولنگ مانی جائے گی اور نہ اُس کا حکم کارگر ہوگا، بلکہ اُلٹا اسی کو ہدف بنانے کے لئے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا جائے گا تو پھر نتیجہ یہی نکلے گا، جس طرح پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت مسلم لیگ (ن) کو برداشت نہیں ہو رہی، اسی طرح چودھری پرویز الٰہی کی سپیکر شپ بھی اُس کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں، بدگمانی اتنی ہے کہ حمزہ شہباز شریف کو چودھری پرویز الٰہی کی موجودگی میں ’’جناب سپیکر‘‘ کہتے ہوئے بھی خاصی تکلیف ہوتی ہوگی۔ چودھری برادران اور شریف برادران جو ایک زمانے میں ایک پنتھ دو کاج تھے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں میں دونوں کی گہری چھنتی تھی۔

اب ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں، عمران خان نے جب چودھری پرویز الٰہی کا سپیکر پنجاب اسمبلی کے لئے انتخاب کیا تھا تو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے چودھری پرویز الٰہی کو اس منصب پر لائے ہیں۔

چودھری پرویز الٰہی کو پہلے بھی سپیکرشپ کا طویل تجربہ ہے اور اب بھی وہ ایوان کو ایک تجربہ کار سپیکر کی حیثیت سے چلانا جانتے ہیں۔ شاید ان کی اس تجربہ کاری کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) نے ایک اور طرح سے انہیں ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔

اب تک پنجاب اسمبلی کے جتنے بھی اجلاس ہوئے ہیں،سب کے سب انتشاراورہڑبونگ کی نذر ہوئے،اس بار تو انتہا ہی ہو گئی کہ اسمبلی کے اندر جنگ و جدل کا سماں پیدا ہو گیا۔ سپیکر کو بے بسی کی تصویر بنا دیا گیا۔حتیٰ کہ ان پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

اسمبلی کے عملے کو بھی مارا پیٹا گیا، اس سے لگتا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، بلکہ آگے ہی آگے بڑھنا چاہتی ہے، ہر اجلاس ہنگامہ آرائی کا منظر پیش کرے گا اور ہر بار اسپیکر کو کارروائی آگے بڑھانے کے لئے ایک نئے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسے خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا اسمبلی کو چلنے نہ دینے کی حکمت عملی جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف نہیں۔ اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں ایسی بہت سی راہیں ہیں کہ جن پر چل کر اپوزیشن اپنا ٹھوس اور بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے۔ حکومتی بنچوں کو زچ کرنے کے اور بھی بہت سے راستے ہیں۔ اس پنجاب اسمبلی کی شاندار روایات پر نظر ڈال کے بہت کچھ سیکھا جا سکتاہے۔

اس میں کیسے کیسے شاندار پارلیمنٹیرین رہے ہیں، جنہوں نے اعلیٰ معیار و اقدار کے ساتھ اس جمہوری ایوان کو آگے بڑھایا ۔ یہ مار دھاڑ اور تشدد کرنے والے تو ماضی میں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔

کیا ہم جمہوری رویوں کے حوالے سے ترقی معکوس کا شکار ہیں۔ کیا ہم آگے کی طرف دیکھنے کی بجائے خود کو جمود کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا حالیہ واقعہ جمہوریت کے ماتھے پر تمغہ نہیں، بلکہ ندامت کا انمٹ داغ لگا گیا ہے۔ یہ فخر کی نہیں اہلِ پنجاب کے لئے شرمندگی کی گھڑی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -