دہشتگردی نے ملک سمیت سندھ کو بھی بری طرح متاثر کیا:وزیر اعلیٰ سندھ

دہشتگردی نے ملک سمیت سندھ کو بھی بری طرح متاثر کیا:وزیر اعلیٰ سندھ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی(اسٹاف رپورٹر)وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے، وقت کے ساتھ حالات خراب ہوئے، دہشت گردی نے پورے ملک سمیت سندھ کو بھی بری طرح متاثر کیا،کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری بڑھ گئی، ہم نے ٹارگٹ آپریشن شروع کیا، اللہ کا کرم ہے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، اسٹریٹ کرائم ایک چیلنج کے طور پر ڈیل کررہے ہیں، انشااللہ کراچی کے عوام کی مدد سے یہ بھی ختم کردیں گے، 18ویں ترمیم سے صوبوں کوکچھ اختیارات ملے، 18ویں ترمیم کے ثمرات واضح طورپرنظربھی آرہے ہیں۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس کے گریڈ 20 کے افسران اور آرمی کے سینئر افسرا ن پر مشتمل215رکنی وفد نے وزیراعلی ہاؤس میں ملاقات کی، جس کی سربراہی میجر جنرل ایمن بلال صفدر اور ریئر ایڈمرل زین ذوالفقار نے کی۔ ملاقات میں چیف سیکرٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ،چیئرمین منصوبابندی و ترقیات محمد وسیم، آئی جی سندھ پولیس کلیم امام، صوبائی سیکرٹریز اور دیگر اعلی افسران نے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعلی سندھ نے صوبہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق صوبائی ترقیاتی اسکیمیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دیگر معاملات پر اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے وقت کے ساتھ ساتھ یہاں پر بھی حالات بگڑنا شروع ہوئے دہشتگردی نے پورے ملک سمیت سندھ کی سوسائٹی کو بھی بری طرح متاثر کیا لیکن سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے کوئی دہشتگرد پیدا نہیں ہوا،دہشتگرد باہر سے آئے البتہ سہولتکار ضرور پیدا ہوئے کیوں کہ کچھ افراد نے جنونیت اور روایات کی زنجیروں نے جکڑے رکھا۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ ادوار میں کراچی میں دہشتگردی، ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری عروج پر تھی جسکو ہم نے ٹارگیٹ آپریشن کے ذریعہ ختم کیا اور آج اللہ کا کرم ہے کہ دہشتگردی، بھتہ خوری و ٹارگیٹ کلنگ کا خاتمہ ہوا ہے،اسٹریٹ کرائم کو ایک چیلنج کے طور لیا اورانشا اللہ کراچی کے عوام کی مدد سے اسکو بھی ختم کردیں گے اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ بھٹائی، سچل، سامی اور قائد کی سرزمین کو امن ، علم اور خوشحالی کا گہوارہ بنائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک میں کچھ کمزور پالیسیوں کی باعث توانائی بحران پیدا ہوا، جب ہم نے صوبائی حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت کوئی بھی عالمی برقی کمپنی تھر میں کام نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ہم سندھ حکومت کی ایک کمپنی بنائی اور اینگرو سے شراکتداری کی صورت میں تھر میں کول مائننگ کام کام شروع کیا آج کوئلہ نکل رہا ہے اور رواں سال کے آخر تک تھر کے کوئلہ سے بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔ مزید کہا کہ تھر کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر 1 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی اور ہماری کاوشوں کی بدولت تھر میں سرمائیدار وں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ اسکے علاوہ ہم نے پہلا پاور پلانٹ نوری آباد میں لگایا جہاں سے 100 میگاواٹ کراچی کو بجلی مہیا ہوتی ہے جسکے لیے اپنی ٹرانسمیشن کمپنی قائم کرکے نوری آباد سے کراچی تک ٹرانسمیشن لائین بچھائی۔وزیراعلی سندھ کی بریفینگ کے بعد وار کورس کے افسران نے سوالات بھی پوچھے جن کے جواب میں اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ اٹھارویں ترمیم ملک کی آئینی تاریخ میں بہت اہم ہے، جس سے صوبوں کو کچھ اختیارات ملے ہیں اور اسکے ثمرات واضع طور پر نظر بھی آرہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے سروسز پر سیلز ٹیکس میں رکارڈ وصولیاں کی ہیں ،سندھ روینیو بورڈ اس کی واضح مثال ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہمیں جو ادارے مرکز سے ملے انکی کارکردگی و خدوخال بہتر کی ہے ان اداروں میں جے پی ایم سی، این آئی سی وی ڈی، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میرٹ کو مدنظر رکھ ہم نے پولیس میں بھرتیاں کی ہیں نہ صرف 10 ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے بلکہ انکی پاکستان آرمی سے تربیت، تنخواہوں میں اضافہ، جدید اسلحے سے آراستہ کرنا ہماری کامیابیوں ے ثمر ہیں۔ ایک افسر کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ ہم ڈیمز کی تعمیر کے خلاف ہرگز نہیں البتہ ہمارا موقف واضح ہے کہ سسٹم میں پانی کا اضافہ نہیں ہورہا بلکہ پانی کا مطالبات بڑھ رہے ہیں،کوٹڑی سے نیچے پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سیڈیلٹا تباہ ہورہا ہے ماحولیاتی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور سمندر آگے شہر کی جانب بڑھ رہا ہے۔انھوں نے بتایا کہ ڈیم کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے توپانی پیدا کہاں سے ہوگا اورڈیمز کو بھرنے کے لیے کہاں سے پانی لائیں گے۔ زراعت پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے شرکا کو بتایا کہ خریف کی موسم میں سندھ کو پانی کی قلت سامنا تھا اور اب ربیع میں بھی 40 فیصد سے زیادہ کمی کا سامنہ ہے،پانی کی قلت کا سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے،کبھی کبھی سسٹم میں پانی آجاتا ہے جس کے سہارے ہم ڈیم بنانا چاہتے ہیں۔اس مسئلہ کا حل پانی کا تحفظ اور فصل کٹائی کو تبدیل کرنے میں ہے اورہمیں ایسی فصلوں کا انتخاب کرنا ہوگا جو کم پانی لیتی ہوں اسکے علاوہ ہمیں چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنانے ہونگے اورکینال لائننگ کرنی ہوگی۔