چشمِ فلک نے کیا کیا دیکھا

چشمِ فلک نے کیا کیا دیکھا
چشمِ فلک نے کیا کیا دیکھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایوانوں میں بلند ہوتی آواز میرے کانوں میں گونجتی کئی سوالات اٹھا رہی ہے کہ باپ کے سامنے گرفتار بیٹی اور بیٹی کے سامنے گرفتار باپ ایک جاں گداز منظر تھا جو چشمِ فلک نے دیکھا 150 بات شاید شاہوں کی ہو رہی تھی ورنہ میں تو روز ایسے واقعات پڑھتا اور سنتا ہوں کہ جہاں حوا کی بیٹی سب کے سامنے آئے دن ذلیل و رسوا کر دی جاتی ہے اور پھر انصاف کے لئے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ کبھی اس ڈگر کبھی اس ڈگر 150 کبھی اس نگر کبھی اس نگرماری ماری پھرتی ہے۔ جب حکمرانوں کے در پہ بھی رسائی یا شنوائی نہیں ہوتی تو بھرے مجمعے میں خود کو آگ لگا کے ربِ ذوالجلال کا انصاف ڈھونڈتی ہے۔ مجھے تو ماڈل ٹاؤں واقعہ کی بچی ابھی تک نہیں بھولی جس کے سامنے اس کی ماں کے منہ میں گولی ماری گئی تھی اور بیٹی کے سامنے ایک حاملہ ماں کسی کودنیا میں لانے سے پہلے ہی کوکھ میں لئے ملکِ عدم سدھاری تھی 150 ہاں وہی ماں جس کی ایف آر کٹوانے کے لئے دھرنے دیے گئے تھے 150 چند اور جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے تھے اور پھر ملکی اداروں کے کہنے پہ پرچہ تو درج ہوا تھا لیکن جس جس کا نام اس میں تھا سب نے ترقیاں پائیں تھی کہ شاید ظلم و ستم کے سجے میدان میں دکھائی گئی بزدلی ہی وہ دلیری تھی جو حکمِ حاکم پہ سرفراز کرتی ہے۔
پنجاب میں بیان کی گئیں ترقی کی باتیں اور صاف پانی گو کہ آپ کی زبان سے ادا ہوئے وہ کارنامے ہیں کہ جس کی ایک بھی بوند سے کوئی مستفید نہ ہوا اور چار ارب روپے کام آئے۔ ہاں وہی پنجاب جس میں آج بھی آپ کی رعایا صاف تو کیا فقط پانی کو ترستی ہے اور خدائے عز و جل کی طرف سے ہوتی بارشوں کے سہارے زندگی بسر کر رہی ہے۔ جی وہی جنوبی پنجاب جس میں جانور اور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے اسے آج تک آپ کا حکم سمجھتے ہوئے نہایت عاجزی سے بجا لاتے رہے ہیں 150 یہ منظر نہ تو آپ کے لئے جاں گداز تھا اور نہ ہی شایدچشمِ فلک کے لئے اس لئے تو کی گئی چشم پوشی نے آپ کو شفاف طریقوں سے اورنج ٹرین کے ایسے منصوبے دیے کہ سینکڑوں ارب خرچ آئے اور آپ کے سوا کوئی بھی آج تک اس پہ سوار ہو کے تیزی سے پیچھے دوڑتے گذرتے مناظر میں ہاتھ ہلا ہلا کے لطف اندوزنہ ہو سکا۔ بات ہوئی نیب میں سہولیات کی تو صاحب یہی کچھ آپ نے اس غریب عوام کو دیا ہے سو آپ بھی انہی سہولتوں سے جی بھر کے فائدہ اٹھائیں۔ بات چشمِ فلک کی ہے تو شاید اس دن وہ بھی روئی تھی لیکن آپ کو نظر نہیں آئی کہ جس دن نابینا اور معذور آپ کے دارالحکومت میں ڈنڈے سوٹے کھاتے سارا دن آپ کی قوت کے مظاہرے کے سامنے بھاگ رہے تھے 150 چشمِ فلک تو اس دن بھی آبدیدہ تھی جس دن آپ ایک مظلوم باپ کے سامنے قہقہے لگاتے اپنے کارناموں پہ اپنی سپاہ کے ساتھ مسرتیں بکھیر رہے تھے۔ چشمِ فلک تو اس دن بھی بہت روئی تھی جس دن غربتیں تیس ہزار ارب روپے کے قرضوں تلے دبی بلک رہیں تھی 150 باپ گلے کاٹتے ، دودھ میں زہر ملاتے اور مائیں نہروں میں جان دینے کو چھلانگیں لگاتیں اپنی ممتا کے فرض سے سبکدوش ہوئی جاتیں تھی 150 چشمِ فلک تو اس دن بھی مغموم تھی جس دن دانش سکولوں کے سکینڈلز باہر آ رہے تھے اور چھپن کمپنیوں سے بنایا گیا مال اندر جا رہا تھا۔ چشمِ فلک کی غمگینی تو ان دنوں بھی عروج پہ تھی جن دنوں ثبوتوں کو نذرِ آتش کرکے اس عوام کے اصل مجرموں کو سہولت کاری فراہم کی جارہی تھی 150
آپ نے ایک میثاق پہ دستخط کرکے جب احتساب کو فوٹو کاپیاں مہیا کی تھیں اس دن بھی عوام کے ساتھ ساتھ چشمِ فلک بھی مسوسی ہوئی تھی۔ اگر یاد آئے تو جب آپ پاکستانی طیاروں کو اپنی جاگیر سمجھ کے ہر علاج کے لئے لندن اور امریکہ کا رخ کرتے تھے تو اس قوم کی بچیاں شاہراہوں اور بیت الخلاء کی دیواروں کی اوٹ میں بچے جنم دے رہی تھیں اس دن بھی چشمِ فلک دل پہ ہاتھ رکھ کے کھڑی تھی 150 کیا آپ کے دورِ حکومت میں ایک وزیرِ خزانہ وزیرِ اعظم کے جہاز پہ بیرونِ ملک سدھارا اور آج تک نہ لوٹا، کیا نام دیں ہم اس دوستی اور رشتہ داری کو۔ اسلام آباد ائرپورٹ جب ٹپکتی ہے اور کبھی اس کے ساتھ لگنے والے مسافر پل گرتے ہیں تو یقین مانئیے اس دن بھی چشمِ فلک پہ چھائے مناظر بین کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے تعمیر کئے گئے سریے اور سیمنٹ کے گواہ کیوں آپ کے لئے گواہی دینے نہیں اٹھتے 150 کیوں آپ کے لئے عام عوام آواز نہیں اٹھاتی کیونکہ کبھی اس پہ بھی توجہ دی ہوتی تو آج وہ آپ کو مسیحا مانتی جان دیتی ۔ عوام سمجھ گئی ہے اور کسی نئے فریب کے جال میں پھنسنے سے پہلے خوب سوچتی ہے۔ تحریکِ انصاف کی ضمنی انتخابات میں ناکامی اس کا بین ثبوت ہے کہ جس میں حلقے کی عام عوام نے پرانے مہروں کو سر پہ بٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ اب جب کہ انسانی آنکھوں کی پٹیاں کھل رہی ہیں تو چشمِ فلک سے گواہی کیوں۔ کہیے کہ یہ عوام جن کی خدمت میں آپ نے خون پسینہ بہایا ہے آپ کو اس سنگھاسن پہ بٹھائیں جس کے آپ حقدار ہیں۔ صاحب احتساب ہمیشہ ہی اس قوم کا ہوا ہے کبھی سائیکل چوری پہ تو کبھی دھنیہ چوری پہ 150 اس ملک کی جیلیں چند سو سے چند ہزار روپے کے نا دہندگان سے بھری ہوئی ہیں۔ یہاں پہ انصاف موت کے بعد ملتا ہے اور آپ کو اپنے مقدمات تیزی سے چلنے پہ بھی اعتراض ہے 150 انصاف کے ان احتسابی اداروں پہ اگر آج آپ سوال اٹھا رہے تھے تو یہ آپ کے ہی بنائے ہوئے ہیں جن سے آپ کی عوام گذری ہے اور گذرتی ہے۔ آپ بھی گذر جائیے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ محمود و ایاز کی ایک ہی صف جب آپ کا نعرہ ہے تو پھر تکلف کیسا 150 دے دیجیئے ہر سوال کا جواب ثبوت کے ساتھ اور اسی چشمِ فلک کو شادمانی سے منور کر دیجیئے جو آج بقول آپ کے اس نا انصافی پہ رنجیدہ ہے۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -