بریسٹ کینسر آگاہی مہم،مینار پاکستان کوگلابی روشنیوں سے سجا دیا گیا
لاہور(پ ر)شوکت خانم ہسپتال کی جانب سے بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی کے لیے جاری مہم کے سلسلے میں مینار پاکستان کو گلابی روشنیوں سے سجادیا گیا۔ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر کی جانب سے یکم اکتوبر کو اس سلسلے میں آگاہی مہم کا آغاز ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس وزیر اعظم سیکرٹریٹ اور کیبنٹ ڈویژن کوگلابی روشنیوں سے سجانے سے کیا گیا تھا۔ اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ شب تاریخی مینارِ پاکستان کو گلابی روشنیوں سے سجایا گیا۔ ہسپتال کے نگران چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر محمد عاصم یوسف نے ہسپتال کے دیگر ڈاکٹرز اور عملے کے ہمراہ روشنیا ں جلانے کا آغاز کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر محمد عاصم یوسف نے کہا کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس شرح کو کم کرنے کا سب سے بہترین حل اس بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اور بر وقت تشخیص ہے۔ تمام خواتین کو چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے ہر مہینے اپنا معائنہ ضرور کریں اور کسی بھی قسم کی غیر معمولی تبدیلی کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
اس مرض کی بر وقت تشخیص سے جان بچنے کا امکانات 90فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباًہر 9میں سے ایک خاتون اس مرض کا شکار ہو سکتی ہے اوراس مرض کی وجہ سے ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں خواتین موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر عاصم نے مزیدبتایا کہ شوکت خانم ہسپتال میں آنے والے تمام کینسر کے مریضوں میں سے بریسٹ کینسر کے مریضوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ پچیس سالوں کے دوارن شوکت خانم ہسپتال میں بریسٹ کینسر کا شکا ر ہزاروں خواتین کا علا ج کیا گیا ہے اور ہسپتال میں اس مرض کے علاج کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور ماہر ڈاکٹرز موجود ہیں۔ علاج کے ساتھ شوکت خانم ہسپتال کی جانب سے اخبارات، ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا اور آگاہی سیشنز کے ذریعے بھی ملک بھر میں لاکھوں افراد تک اس بیماری کے حوالے سے درست معلومات پہنچائی جاتی ہیں۔ہسپتال کی اس کیمپین کی وجہ سے ماضی قریب میں taboo سمجھی جانے والی اس بیماری کے حوالے سے لوگوں کی سوچ میں کافی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ اس بیماری کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اور بروقت تشخیص کے بارے میں آگاہی سے مجموعی طور پر ملک کے ہیلتھ سیکٹر پر بوجھ بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مہم ابھی جاری ہے اور ہسپتال کی جانب سے ہر ممکن طریقے سے اس بارے میں آگاہی پھیلانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔