گوجرانوالہ جلسہ: حکومت اور اپوزیشن نے کوئی سبق سیکھا؟

گوجرانوالہ جلسہ: حکومت اور اپوزیشن نے کوئی سبق سیکھا؟
گوجرانوالہ جلسہ: حکومت اور اپوزیشن نے کوئی سبق سیکھا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گوجرانوالہ جلسے کے بعد سیاسی درجہ حرارت تو بڑھا ہی ہے، تاہم بہت سی باتیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے سبق چھوڑ گئی ہیں۔ خاص طور پر حکومت کے لئے کہ اس نے اس جلسے کو اتنی اہمیت کیوں دی کہ سارے حکومتی کام ٹھپ ہو گئے اور وزیراعظم و پوری کابینہ اس جلسے کو ناکام بنانے اور ناکام ثابت کرنے پر لگ گئی۔ پہلے بھی انہی کالموں میں لکھا گیا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک اس وقت کامیاب ہوتی ہے۔ جب حکومت اس کے بارے میں سنجیدہ اور اس سے خوفزدہ ہو جاتی ہے۔ کنٹینرز اور پکڑ دھکڑ کی فضا پیدا کر کے حکومت نے کیا حاصل کیا؟ وہ یہ سب کچھ نہ بھی کرتی تو جلسہ ایسا ہی ہونا تھا۔ حکومتی اقدامات سے یہ ہوا کہ ہر طرف اس جلسے کے چرچے شروع ہو گئے۔ اس کی آسان سی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ پی ڈی ایم کا کراچی میں جو جلسہ آج ہو گا، وہ اتنی زیادہ عوامی دلچسپی حاصل نہیں کر سکے گا، کیونکہ سندھ حکومت کی طرف سے اس کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ بس جلسہ برائے جلسہ ہوگا اور بات ختم ہو جائے گی۔ شاید اس جلسے کے بارے میں وزیر اعظم اور وفاقی و صوبائی وزراء بھی زیادہ گفتگو نہ کریں، جس طرح وہ گوجرانوالہ جلسے کے بارے میں پل پل کرتے رہے ہیں۔ اب بھلا شبلی فراز کو یہ چیلنج دینے کی کیا ضرورت تھی کہ اپوزیشن گوجرانوالہ اسٹیڈیم بھر کے دکھائے، وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ ایسے چیلنج تو کارکنوں کا لہو گرماتے ہیں، انہیں ٹھنڈا نہیں کرتے۔ معلوم نہیں کہ اس جلسے سے حکومت نے کوئی سبق سیکھا ہے یا نہیں، البتہ یہ حقیقت ہے کہ حکومت کی بد حواسی کے باعث اپوزیشن گوجرانوالہ میں ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
توقع کے عین مطابق نوازشریف نے اس جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے سخت باتیں کیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کشتیاں جلا چکے ہیں۔ وہ پاکستان واپس آنا نہیں چاہتے اور لندن میں بیٹھ کر اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر منتخب وزرائے اعظم کو اقتدار سے نکالنے کی تاریخ کو پاکستانی قوم کی بدقسمتی قرار دیا۔وہ اس بار اپنی تقریر میں کچھ اور آگے بڑھ گئے اور فوج کی جمہوری عمل میں بار بار مداخلت کو پاکستان کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔

خود اپوزیشن کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ گوجرانوالہ کا جلسہ ان کی توقع سے بڑھ کر کامیاب رہا۔ یہی بات حکومت کو بھی سوچنی چاہئے کہ اس کامیابی کے پیچھے عوامل کیا ہیں؟ صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ جلسہ ناکام ثابت ہوا اور عوام نے اپوزیشن کو مسترد کر دیا۔ تحریک انصاف  کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہی اپوزیشن پچھلے دو برسوں میں ایک بار بھی کوئی ڈھنگ کا جلسہ نہیں کر سکی، پھر گوجرانوالہ کے جلسے میں ہزاروں افراد کیسے آ گئے؟ اس حقیقت کو مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت کی ناکام پالیسیوں نے عوام کو بے زار کیا ہے اور وہ اپنا غصہ کسی نہ کسی انداز سے نکالنا چاہتے ہیں۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں گیارہ سیاسی جماعتوں کے صرف کارکن ہی نہیں آئے تھے، عام لوگ بھی تھے جن کی زندگی حکومت کی اقتصادی ناکامی نے مشکل بنا دی ہے۔ یہ بات حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کہ عوام بجا طور پر یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اس سے زیادہ ناکام حکومت ان کی زندگی میں نہیں آئی، کیونکہ کسی ایک شعبے میں بھی حکومت عوام کو ریلیف نہیں دے پا رہی، اُلٹا ہر روز کوئی نئی قیامت ڈھا دی جاتی ہے، اب اس کا جواب صرف یہی تو نہیں کہ موجودہ حالات پچھلی حکومت کے پیدا کردہ ہیں، عوام تو یہ جانتے ہیں کہ پچھلی حکومت کے دور میں چینی 54 روپے کلو اور آٹا 35 روپے فی کلو ملتا تھا۔ ادویات ان کی پہنچ میں تھیں اور دالیں، سبزیاں جنس نایاب نہیں بنی تھیں، یہ کیسی سرجری ہو رہی ہے کہ جس نے عوام کے کس بل نکال دیئے ہیں؟


اگر گوجرانوالہ کے جلسے کو حکومت ایک عوامی تنبیہ نہیں سمجھتی اور پرانی ہی ڈگر پر چلتی رہتی ہے، جس پر چل کر اس نے مافیاز کو کھلی چھوٹ دی ہے اور بنیادی اشیاء بھی عوام کی پہنچ سے دور کر دی ہیں، تو پھر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد آنے والے دِنوں میں گوجرانوالہ سے بھی بڑے جلسے کرے گا اور حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔گوجرانوالہ جلسے کے بعد اپوزیشن کو بھی بہت کچھ سوچنا ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -