ڈینگی کی کورونا جیسی علامات: ڈاکٹروں کیلئے نیا چیلنج
ملک بھر میں کورونا کے وار ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے کہ ڈینگی نے سر اٹھالیاہے۔اس وقت مریضوں سے زیادہ ڈاکٹرز کو ایک انوکھی اور پریشان کن صورتحال کا سامنا ہے وہ یہ کہ کورونا اور ڈینگی کے مریضوں میں پائی جانے والی علامات بالکل ایک جیسی ہیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کوویڈ 19 میں دو ایسی منفرد باتیں ہیں جو کسی اور بیماری میں نہیں ہیں، ایک تو یہ کورونا ایک عالمی وباء ہے دوسرے اس کے مریضوں میں پائی جانے والی علامات دیگر مہلک امراض مثلا تپ دق،دمہ،ملیریا،شدیدبخار،ٹائیفائیڈ اور ڈینگی کے مریضوں میں پائی جانے علامات سے ملتی جلتی ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دیگر خطرناک بیماریوں کا مجموعہ ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کواصل مرض کی درست تشخیص کرنے کے لئے مریض کے کورونااور دیگر امراض کے ٹیسٹ بھی کروانے پڑجاتے ہیں۔اس مشکل صورتحال سے دنیا بھر کے ڈاکٹرز دوچار ہیں جس کے بارے میں نیشنل سینٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارمیشن میں شائع شدہ حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈینگی اور کورونا وائرس کے مریضوں کے درمیان ایک جیسی علامات پائی گئی ہیں جو کہ ڈینگی سے متاثرہ ایشیائی ممالک کے لیے ایک بڑاچیلنج بنتا جارہا ہے۔تحقیقی رپورٹ میں انڈونیشیا کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ایک ایسے مریض کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کی کورونااور ڈینگی رپورٹس ایک ساتھ پازیٹو آئی ہیں۔اس تحقیقی رپورٹ نے سائنسدانوں اور ڈاکٹرز کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ایک ہی مریض میں دو خطرناک امراض کی تشخیص اور پھر اس کا علاج یقینا ڈاکٹرز کے لئے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے، سوشل میڈیاپراس عجیب صورتحال کو ڈینگی اور کورونا کاپرینک کہا جارہا ہے۔مریض کے کس مرض کا علاج پہلے کیا جائے اور کیسے کیا جائے؟ڈینگی اور کورونا پازیٹو مریضوں نے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کو ایک انوکھی مشکل سے دوچار کردیا ہے تاہم کورونا کے مریضوں کی تشخیص کے لئے عالمی سطح پر کچھ ایسے نئے پوائنٹ وضح کئے گئے ہیں جن کو مدنظر رکھ کر ڈاکٹر صاحبان کو حتمی نتیجہ اخذ کرنے میں مدد مل جاتی ہے۔
ادھر لوگ کورونا سے اس قدر خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ اگر انھیں معمولی بخار،کھانسی،نزلہ زکام یا سانس میں لینے میں تھوڑی سی بھی دشواری ہو تو وہ اسے کورونا کی علامات سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس پر اکثریت اپنے مرض کی تشخیص اور علاج کروانے کی بجائے ٹوٹکوں،عاملوں یا نیم حکیموں کے پاس پہنچ کر وہ قیمتی وقت برباد کر دیتی ہے جس میں ان کا فوری علاج شروع ہوجانا چاہئے اکثرلیکن لوگ ناسمجھی میں اس وقت ہسپتال علاج کے لئے پہنچتے ہیں جب تک ان کا کیس کافی بگڑ چکا ہوتا ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف لوگ کورونا سے ڈرتے بھی ہیں اور دوسری طرف اس سے بچاؤ کے لئے ویکسین بھی نہیں لگواتے۔
حکومت لوگوں کو کورونا سے بچاؤ کے لئے قومی سطح پرویکسی نیشن مہم چلا رہی ہے جس کے تحت پنجاب میں بھی ویکسی نیشن مہم زوروشور سے جاری ہے۔ویکسی نیشن مہم کو کامیاب بنانے کے لئے صوبے بھرمیں 636 ویکسی نیشن سینٹرز قائم کئے گئے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے جس کے باعث کوروناکیسز میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔صوبائی محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر کی موجودہ رپورٹ کے مطابق پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران پنجاب بھر میں سات لاکھ سے زائدافراد کو کرونا وائرس ویکسین لگائی گئی۔ لاہور میں پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران انچاس ہزار سے زائدافراد کو ویکسین لگائی گئی ہے۔موجودہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ پنجاب میں ہر روز ویکسی نیشن کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہورہا ہے۔ ویکسی نیشن کے باعث صوبے بھر میں کورونا ایکٹو کیسز اور شرح اموات میں بھی کمی ہورہی ہے۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران پنجاب بھر میں کورونا کے چار سو پینسٹھ کیسز رپورٹ ہوئے اورچودہ افراد ہلاک ہوئے اس طرح صوبہ بھر کے تمام شہروں میں کورونا کی مجموعی مثبت شرح 2.5 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
ایک طرف جب کورونا کیسز میں کمی آنے لگی تھی تودوسری جانب ڈینگی بخارنے کورونا کا بھرپور ساتھ دینا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے صوبہ بھر میں ڈینگی بخار میں مبتلا فراد کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی کے مریضوں کاکرونامیں مبتلا ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔حالیہ رپورٹ کے مطابق پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران پنجاب میں ڈینگی کے 195 کنفرم کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ 139 کنفرم کیسز لاہور سے رپورٹ ہوئے ہیں حالانکہ لاہورمیں ڈینگی لاروا کو تلف کرنے اور اس کی افزائش کو روکنے کے لئے بھرپور کاروائیاں پہلے سے ہی جاری تھیں لیکن مون سون اور بارشوں کے موسم میں ڈینگی لاروا کی افزائش بڑھ جاتی ہے جس کو روکنے کے لئے حکومت کے ساتھ مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔اگر ڈینگی لاروا تلف کرنے کی سرگرمیاں تیز نہ کی گئیں تو خدانخواستہ ڈینگی اور کوروناکیسز میں مزید خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔