پنجاب پٹرولنگ پولیس کارکردگی کے آئینے میں 

Oct 18, 2024

یونس باٹھ

پولیس کسی بھی ملک کی سیکیورٹی اور امن و امان کی ضامن ہوتی ہے۔ پیٹرولنگ پولیس پنجاب پولیس کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ اس کا قیام 2003 میں عمل میں آیا اور اس وقت پورے صوبہ پنجاب میں 350 سے زائد پیٹرولنگ پولیس کی چوکیاں آپریشنل ہیں۔ سب سے خوبصورت اور حیران کن بات یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے ڈی پی اوز کی مشاورت سے بلیک سپارٹس پر چوکیوں کی تعمیر عمل میں لائی گئی اور جن شاہراوں پر کبھی کوئی پیدل یا سائیکل سوار شام کے بعد لٹ جانے کے خوف سے پاوں نہیں رکھتا تھا انہی شاہراوں پر پوری پوری رات ہر نوع کی گاڑیاں رواں دواں نظر آنے لگیں۔اگر رواں ماہ کے پہلے دو ہفتوں کی کارکردگی کا جائذہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے۔ رواں ماہ شاہرات پر ای پولیس پوسٹ ایپ کے ذریعے 12 لاکھ 84 ہزار 736 افراد کی چیکنگ کی گئی، دوران چیکنگ 265 اشتہاری مجرمان اور عدالتی مفروران کو گرفتار کیا گیا۔پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق 5 لاکھ 60 ہزار 388 گاڑیوں کو چیک کیا گیا، جن میں سے 94 چوری شدہ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں برآمد کی گئیں۔ ایکسلی لوڈ مینجمنٹ کے تحت 9537 اوور لوڈڈ گاڑیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی جبکہ گیس سلنڈر کے غیرقانونی استعمال پر 565 گاڑیوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی گئی۔شہریوں کی سہولت کے پیش نظر 6649 ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے گئے اور 16 گمشدہ بچوں کو ان کے والدین سے ملوایا گیا۔پنجاب پولیس نے 89 عارضی و مستقل تجاوزات کو ختم کر کے ٹریفک کے بہاو کو بہتر بنایا۔ علاوہ ازیں 4326 مسافروں کو مختلف نوعیت کی مدد و رہنمائی فراہم کی گئی جبکہ پولیس خدمت مراکز پر 6750 شہریوں کو مختلف سہولیات فراہم کی گئیں۔پنجاب پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل راو عبدالکریم کی سربراہی میں شاہین صفت پی ایچ پی پولیس بڑی تن دہی اور دلجمعی کیساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بطریقہ احسن انجام دے رہے ہیں۔ مجرموں کو گرفتار کر کے مقامی پولیس کے حوالے کرنا،جائے وقوعہ کو محفوظ رکھنا، شاہراوں پر کسی جرم کی صورت میں مقامی پولیس کو مطلع کرنا، حادثے کی صورت میں زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا،شدید زخمی کو ہسپتال منتقل کرنا،رپورٹنگ کے مراکز کے طور پر خدمت سرانجام دینااور سڑک پر کسی بھی قسم کی امداد کے لیے ہمہ وقت تیاررہنا،مجاز اتھارٹی کے تعاون سے ہائی وے شاہراؤں کو ہر قسم کے تجاوزات سے پاک رکھنا، باوردی، تعلیم یافتہ، ہوشیار اور چوکس فورس کے روپ میں خود کو ہائی وے پر الرٹ رکھنا،صوبے بھر کی 12 شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام بحال رکھنا اور ملک کی مرکزی شاہراوں پر جرائم کی اندھی داستانوں اور سنگین وارداتوں (جیسے وہیکل تھفٹ، سٹریٹ کرائم،اغواء، ڈکیتی وغیرہ) پر عقابی نگاہ رکھنا انکے اولین فرائض میں شامل ہے۔اگر دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو توجہ، تحفظ اور پیار۔ہائی پٹرول کا شعار،کا پرچم تھامے یہ پہلی ماڈل پولیس ہے جو پنجاب میں تعینات کی گئی کہ جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہ روایتی پولیس نہیں، جواخلاق و کمالات سے مرصع ہیں اور آپ کو جرائم سے دور رہنے کی عملی و حقیقی تلقین کر تے ہیں۔ نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز۔ یہی ہے رخت سفرمیرِ کارواں کے لیے اس فورس کے قیام سے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے اور پولیس پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس فورس کے قیام کا مقصد عوام کے اذہان سے تھانہ کلچر کے خوف کو ختم کرنا بھی تھا اور اسی مقصد کے تحت پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس میں شامل کیا گیا۔ شاید ہی کوئی اکا دکا نوجوان گرایجویٹ ہو ورنہ ہر سپاہی کم ازکم ایم اے، ایم۔ ایس۔ سی یا ایم فل، پی۔ ایچ۔ ڈی ڈگری ہولڈر ہے۔ پڑھا لکھا ہونے کے سبب ہر جوان پبلک ڈیلنگ جانتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کا آغاز ”السلام علیکم“ جیسے الفاظ سے کرتا ہے۔کئی نوجوان محکمہ چھوڑ کر بڑی بڑی سیٹوں اور عہدوں پر براجمان ہو چکے ہیں۔ جب پیٹرولنگ پولیس بنی تو ایک کانسٹیبل کی تنخواہ تقریباً ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر یا معمولی سی کم تھی۔ اس وقت پنجاب پولیس کے کانسٹیبل کو 3500 روپے ماہوار مل رہے تھے جبکہ پی ایچ۔ پی کے سپاہی کی تنخواہ 10,000 تھی۔ پھر حالات نے کروٹ بدلی اور پی ایچ  پی کی تنخواہ پنجاب پولیس سے کم ہوتی گئی جو کہ ان کا مورال ڈاون کرنے کے مترادف تھی۔ مختلف الاونسز کاٹے گئے اور اب موجودہ ایڈیشنل آئی جی راو عبدالکریم کی ذاتی کوششوں سے آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے کمزور معیشت کے باوجود انہیں الاونسز مہیا کیے ہیں، تنخواہ بھی پنجاب پولیس کے برابر کردی گئی ہے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے جس کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔کچھ اصلاحی اقدامات پر ابھی غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سابق آئی جی پولیس فیصل شاہکار نے پی۔ ایچ۔ پی افسران کو نئی گاڑیاں دینے کا فیصلہ کیا جو کہ نہیں دی جاسکیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کی گاڑیاں ایس ڈی پی او صاحبان کو دیدی گئی ہیں تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔پی ایچ پی افسران کے پاس رہائش کی سہولت نہیں ہے۔فیول کا بڑا ایشو  ہے۔پی ایچ پی کے متعلق پیدا ہونیوالی شکایات انہی کے سینئر افسران کی بجائے ڈسرکٹ پولیس افسران کے پاس بھجوانااس فورس کے ساتھ ناانصافی ہے۔اکثر نوجوان گاڑیوں کو دھکا لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ ان کی اور ان کی یونیفارم کی گریس Grace کے خلاف ہے۔ پی ایچ پی افسران کو اگر نئی گاڑیاں مہیا نہیں کی جا سکتیں تو کم از کم پرانی گاڑیوں کی اچھی طرح مرمت کروائی جائے تاکہ بوقت ضرورت گاڑی کو بذریعہ سلف، اسٹارٹ کیا جا سکے اور چوروں ڈکیتوں کا کامیابی سے تعاقب کیا جا سکے۔قابل مرمت گاڑیوں میں اچھے ٹرن آوٹ کے ساتھ بیٹھنے کو ہرگز دل نہیں کرتا اس طرح فورس کا ٹرن آوٹ بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔آؤٹ آف ڈسٹرکٹ تبادلہ جات پیٹرولنگ پولیس کے منشور میں شامل نہیں تھے۔ ابتدائی سالوں میں پوسٹنگ ہوم اسٹیشن پر ہوتی تھی جس کی وجہ سے بوقت ضرورت گھر کا چکر لگ جاتا اور ملازمین ذہنی آسودگی محسوس کرتے۔ اب آؤٹ آف ڈسٹرکٹ اور آؤٹ آف ریجن تبادلہ جات بطور سزا کیے جاتے ہیں غالباً آوٹ آف ریجن تبادلہ جات میں کچھ نرمی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ ملازمین کو ایک خود کار نظام کے تحت ان کے ہوم اسٹیشن پر تعینات کیا جانا چاہیے تاکہ ان کے لیے آسانی رہے۔

مزیدخبریں