وزیراعظم کاکسان پیکیج زندہ باد ۔۔۔مگر گندم؟
محترم وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے بالآخر اپنے منشور پر عملدرآمد کرنیکا فیصلہ کر لیا۔ جی ہاں اور معاملات میں تو پہلے ہی بجلی کے بے شمار منصوبوں پر تنقیدی قلم چلائی جا چکی ہے، مگر زراعت جو اس ملک کے جی ڈی پی کا 26فیصد حصہ بنتی ہے، اس کے بارے میں میاں صاحب کی ڈھائی سالہ حکومت میں خاموشی ہی خاموشی چھائی تھی۔ اب انہوں نے کسانوں کے بارے میں ایک انتہائی پروگریسو پیکیج کا اعلان کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ گزشتہ ماہ سے کسان سڑکوں پر آ چکے تھے اور آلوؤں اور چاولوں کو دکھا دکھا کر اور پھینک پھینک کر دہائیاں دے رہے تھے۔ واضح رہے کہ ہم بطور ایک عام شہری اور بطور رہنما فلور ملنگ انڈسٹری ہمیشہ اس ملنگ بات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ کسانوں کو فصلوں کا نرخ بڑھانے کی بجائے Inputsمیں سبسڈی دے کر ان کے معاشی حالات بہتر بنائے جانے چاہئیں، مگر ایسا نہیں کیا جا رہا تھا۔ آج یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ میاں صاحب اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت بالآخر اس ڈگر پر چل پڑی ہے،جس کا ہم مطالبہ اور تجاویز دیتے رہے ہیں۔ حکومت کے یہ اقدامات ایسے حالات میں قابل تحسین ہیں، جب ملک میں ہر طرف فصلوں کی اچھی رپورٹ ضرور ہے، مگر مارکیٹ میں اچھے اثرات نظر نہیں آئے۔ چاولوں اور کپاس میں کسانوں اور زمینداروں کی کمر ٹوٹی مگر اس کو سنبھالا گندم میں ضرور ملا۔
میاں شہباز شریف اور ان کے وزیر خوراک ، سیکرٹری خوراک اور ڈائریکٹر خوراک کی عملی کوششوں اور بھرپور دلیرانہ خریداری پالیسی نے کسان کے لئے گندم کا ریٹ گرنے نہیں دیا۔ اس سے بڑا پہلو ایک اور ہے ،جس کی نشاندہی ہم بعد میں کریں گے۔ نوازشریف صاحب کے کسان پیکیج میں نقصان کے فوری ازالہ کے طور پر ساڑھے بارہ ایکڑ زمین والے کسانوں کو فوری طور پر 5ہزار روپیہ فی ایکڑ کے مطابق رقم دی جا رہی ہے، جبکہ کھاد کی فراہمی بعدازاں نرخوں پر فراہمی کے لئے 20ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے اور کھادکی قیمتوں میں فوری طور پر 500روپیہ فی بوری کی کمی کی جا رہی ہے، جبکہ سستے ٹیوب ویلوں کی فراہمی پر 17ارب روپے رکھے گئے ہیں اور ٹیوب ویلوں کے حصول کے لئے بلا سود قرضے بھی جاری کروانے کا پروگرام شروع ہے۔ وزیراعظم صاحب نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ فصلوں کی انشورنس کا پریمیم حکومت خود ادا کرے گی، جبکہ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر لانے کے لئے بھی بلا سود قرضوں کا اہتمام ہوگا۔ انکم ٹیکس میں3سال کی چھوٹ اور زرعی ٹرن اوور ٹیکس کا خاتمہ بھی اہم اقدامات ہیں جو زراعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے اور انشاء اللہ ہم ترقی کی طرف بڑھیں گے۔
مگر بعض فیصلے ایسے بھی ہوتے ہیں، جن میں سٹیک ہولڈرز سے مشورہ ضروری ہوتا ہے۔ مَیں اسی لئے کئی سال سے اپنی تحریروں اور اعلیٰ حکام کو خطوط کے ذریعے ’’پاکستان ویٹ بورڈ‘‘ کے قیام کا مطالبہ کرتا رہا ہوں، مگر ایسانہیں کیا گیا۔ موجودہ حکومت کا ایک ہی فیصلہ گندم کی تجارت اور اس کی موجودہ صورت حال میں خرابی کا ذمہ دار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہو، مگر راقم الحروف اس تھیوری سے بالکل متفق نہیں کہ گندم کا ریٹ 1200سے 1300کر دینے سے سیاسی قوت بڑھے گی، اگر ایسا ہوتا تو پاکستان پیپلزپارٹی 5سالوں میں ریٹ ڈبل کر گئی ہے، مگر ووٹ اس کو جنوبی پنجاب میں کچھ بھی نہیں ملے۔ جی ہاں میاں صاحب آپ نے 1200 روپے فی من سے 1300روپے فی من کیا، مگر کسی نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ عالمی مارکیٹ گندم کی زائد پیداوار کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا، جب گندم کا عالمی نرخ پاکستان کے نرخ کو چھو بھی سکا ہو۔ صورت حال آج بھی یہ ہے کہ ہم نے ملک میں گندم 32500 روپے فی ٹن خریداری کی۔
عالمی مارکیٹ میں اس وقت گندم کی اوسط قیمت 16700روپے فی من ہے جو کرایہ وغیرہ ڈال کر اور پاکستان کی درآمدی ڈیوٹی ادا کرکے 27000روپے فی ٹن سے بھی کم پڑتی ہے اب 1300روپے فی من سے پیداوار تو لے لی، مگر دو سال ہو چکے ہم اضافی گندم کو بڑھاتے چلے جا رہے ہیں اور اس کی Disposalعالمی مارکیٹ میں تو کیا خود ہماری اپنی مارکیٹ یعنی افغانستان میں بھی ختم ہو چکی اور عملاً ہم ہمارے افسران اور خود حکومت اس سلسلہ میں منجمد ہو کر انتظار میں مصروف ہے کہ کوئی آئے گا اور اس گندم کو لے جائے گا۔ ایسا نہیں یہ اہم اور حساس معاملہ ہے اس پر زمینداروں نہیں، بلکہ ذخیرہ اندوزوں کی لابی اور مافیا کے زیر اثرآنے کی بجائے ہوش سے فیصلے کئے جائیں اور اس بات کومدنظر رکھا جائے کہ گندم اور آٹے کی ایکسپورٹ پر تو آپ 90ڈالر فی ٹن جعلی ایکسپورٹ پر لٹانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے، جبکہ یہی رقم عوام کو سستی گندم فراہم کرنے پر خرچ کی جا سکتی ہے اور اس سلسلے میں فیصلے کو لٹکایا ہوا ہے اور سننے میں یہی آتا ہے کہ فلاں نہیں مانتا، فلاں یہ کہتا ہے ، فلاں وہ کہتا ہے۔ میاں صاحب ایک تو اس بار آپ کو گندم ارزاں کرکے عوام کو سستا آٹا فراہم کرنا ہوگا اور دوسرا کسان پیکیج کی جتنی بھی تعریف کریں کم ، مگر گندم کے معاملہ پر ہمیں واپس 1200روپے فی من Rateکرنا ہوگا اور وہی 90ڈالر فی ٹن ان کسانوں کو بھی دے دیجئے، جو آج دیئے ہیں، مگر گندم کا نرخ عالمی نرخوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ میری ہی نہیں، ہماری ہی نہیں، شہری آبادی ہی کی نہیں، بلکہ کسانوں کی بھی ہمیشہ سے ڈیمانڈ رہی ہے۔ کہنے کو یہ ایک معاشی سوال ہے، جس کا خواب سیاسی نہیں معاشی بھی ہونا ضروری ہے، جواب کا انتظار رہے گا۔