جمہوریت ؟

جمہوریت ؟
 جمہوریت ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے پُرانے بحران کے نرغے میں جارہا ہے۔ تمدنی اور عسکری تعلقات میں کشاکش ہر محفل کا عنوان بن چکی ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے ایک خطاب میں اُنہیں بے دخل کیے جانے کی سازش کا ذکر کیا ہے۔ جس کا روئے سخن کون ہے، اس پر الگ الگ آرا ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستانی جمہوریت کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہے؟


زرداری ٹولہ ہو یا شریف جنتا، سیاست دانوں کے پاس جمہوریت کی کچھ عالمگیر اقدار کے حوالے سے ایک روایتی بیانیہ ہے جو وہ کسی بھی محفل میں الفاظ تک بدلے بغیر دُہرا دیتے ہیں۔ لیکن عملی حقائق کچھ مختلف ہیں۔پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ طاقت کی نہاد پر کھڑا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سماجی و سیاسی تشکیل کے فیصلہ کن عناصر بھی ’’طاقت‘‘کی تحریک پر کھڑے ہیں۔ یہ ایک برہنہ سچ ہے کہ یہاں چیزیں صحیح اور غلط کی بنیاد پر طے نہیں ہوتیں۔ بلکہ طاقت کے مراکز کے لئے پیدا ہونے والے خطرات کی توجیہات کے لئے صحیح وغلط کے پیمانے حرکت میں لائے جاتے ہیں۔ موقف کی ترتیب وتہذیب کا یہ انداز بجائے خود طاقت کی نفسیات کا مرہونِ منت ہے۔ پھرہماری تاریخ کا ایک جوہری پہلو غلامی کی نفسیات رہا ہے اور یہ نفسیات’’بے طاقتی‘‘کی مظہر ہوتی ہے۔ بس یہی بے طاقتی ، طاقت کے آگے آدمی کو سجدہ ریز رکھتی ہے۔ ایسا آدمی اپنے اندرون کے عقیدے اور بیرون کے فیصلہ کن ماحول کے درمیان مطابقت اور مخالفت پیدا کرنے کے رجحانات میں اپنا علم الکلام پیدا کرتا رہتا ہے۔ ہماری جمہوریت اس ناموزوں زمین پر کھڑی ہے۔ اگر یہاں وزیراعظم کی پوری تقریر کوئی تاثر پیدا نہیں کرتی اور فوجی ترجمان کا ایک دو فقروں پر مشتمل ٹوئٹر ایک ماحول بنا دیتا ہے، تو اس کی پشت پر تاریخی و نفسیاتی عوامل کی ایک لمبی قطار ہے۔
سیاست دانوں کے پاس اس پورے تناظر کا کوئی حقیقی اور ٹھوس تجزیہ نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اُن کی اپاہج ذہنی صلاحیتوں سے کوئی اُمید بھی نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ اس معاملے کا کوئی درست ادراک ہی کر سکیں گے۔ طاقت کی نہاد پر کھڑے معاشرے کو ایک متبادل ذہنی ، فکری ، علمی اور عملی ماحول دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت جن خطوں میں کامیاب سمجھی جاتی ہے وہاں اس کا تعلق خواندگی کی شرح سے بھی جوڑا جاتا ہے اور وہاں کی یک نوعی سماجی ساخت بھی اس سے پیوستہ باور کی جاتی ہے۔مغرب میں تصور کی سطح پر یہ مسئلہ طے شدہ ہے۔ اگر چہ جمہوریت پر خلقی اعتراضات ، ایک نظام کے طور پر انسانی سماج کے لئے اس کے موزوں اور ناموزوں ہونے کی بحث بھی پیدا کرتے ہیں۔ مگر جہاں یہ مسئلہ اپنی بناوٹ میں طے شدہ ہے وہاں یہ باور کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کے بیج سماجی پسماندگی میں جڑ نہیں پکڑتے۔


پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت جن سیاست دانوں کی خاندانی جاگیر اور اُن کے بچوں کی دائمی میراث ہے وہ ایک خاص جاگیر داری اور صنعتی اشرافیہ کے گنے چنے خاندانوں سے آتے ہیں۔ جو سماجی ابتری کو اپنی انتخابی حکمتِ عملی کے باعث جوں کاتوں رکھنے پر مُصر رہتے ہیں۔تاکہ انسانوں کایہ ریوڑ جو کسی بھی جمہوریت میں ووٹ کی طاقت سے ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے، اپنی رائے میں آزاد نہ ہو جائے اور یہ چند لوگوں کی مکمل تحویل میں رہے۔ یہ وہ چند لوگ ہوتے ہیں جن سے ’’معاملات‘‘ کرنا آسان ہوتے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت کے فیض یافتگان اصل میں وہ ووٹر نہیں ،بلکہ یہ ’’چندلوگ‘‘ ہیں، جو اُن ووٹروں کو اپنی تحویل میں رکھتے ہیں۔ اب عسکری اداروں پر اعتراض کیا ہے؟ یہی ناں کہ وہ کچھ سیاسی قوتوں کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر اُنہیں اپنی مرضی سے ’’چلاتی‘‘ ہیں تاکہ جمہوری نظام پر اُن کی گرفت رہے۔ ایم کیوایم کی طاقت بھی اِسی لئے ایک ہاتھ میں رکھی جاتی ہے تاکہ سب سے الگ الگ بات کرنے کے بجائے’’ ایک آدمی‘‘ سے بات کرنا پڑے۔ تو جمہوریت میں سیاست دان کیا کرتے ہیں؟ وہ یہی کام بآندازِ دگر اُن ’’چند لوگوں‘‘ کے ساتھ تال میل رکھ کر کرتے ہیں۔ یہی تو طاقت کی نفسیات ہے جو طریقۂ واردات میں بھی یکساں طور پر ظاہر ہوتی ہے۔


سماجی پسماندگی دور کرنے کے لئے تعلیم اور صحت کے شعبے بنیادی معاونت کرتے ہیں۔ مگر سیاست دانوں نے بنیادی طور پر ان دونوں شعبوں کو ایک کاروبار بننے کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ ہمارے بچے تعلیم کے نام پر علم نہیں ایک دھوکا پڑھتے لکھتے ہیں ۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ جسے یہاں موضوعِ بحث بنانے کی گنجائش نہیں۔جہاں تک کاروبارِ صحت کا تعلق ہے تو یہ ایک مکروہ دھندے کی شکل میں نہایت خطرناک طریقے سے منظم کردیا گیا ہے جس میں تبدیلی بجائے خود ایک آپریشن ضربِ عضب کا تقاضا کرتی ہے۔سیاست دانوں اور حکمرانوں کی بنیادی ترجیحات میں یہ شعبے اس لئے شامل نہیں کہ ان دروازوں سے سماج اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا اور ’’چند لوگوں‘‘ کی تحویل سے نجات پاتا ہے۔ سیاست دان جس جمہوریت کے خطرات کا رونا روتے ہیں پہلے اُس جمہوریت سے قوم اور عوام کو متعارف تو کرائیں تاکہ وہ اس کی حفاظت کے لئے کوئی حساسیت اپنے اندر پیدا کر سکیں۔ جمہوریت پاکستان کے اندر سیاست دانوں کی طاقت کا ایک دوسرا نام ہے۔ یہ ایک اور طرح کی آمریت ہے۔ افراد کے طور پرعوام اپنے ذہنوں میں فوجی جرنیلوں اور سیاست دانوں کو عملاً کیسے الگ الگ کرسکتے ہیں جب کہ اُن کے شب وروز دونوں نظام ہائے حکومت میں ایک ہی طرح سے گردش کرتے ہوں۔ ایک عام آدمی کو اس سے کیسے فرق پڑے گا ، یہ فرق ڈال کر عملاً اب تک کسی سیاست دان نے دکھایا نہیں ہے۔


اس سماج میں تو مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں جرنیلوں سے نجات بھی ممکن ہے مگر جمہوری رہنماؤں سے تو نجات بھی بالکل ممکن نہیں ۔ جنرل ایوب خان گئے توپھر چلے ہی گئے۔ یحییٰ خان کا معاملہ بھی یہی تھا۔ اور ابھی ابھی کراچی کے ایک مقامی ٹیلی ویژن’’ میٹرو‘‘کے ایک ایسے اینکر کے سامنے مشرف اپنا دفاع پیش کررہے ہیں جسے دیکھنے اور سننے کے لئے شاید ایک آدمی بھی میسر نہ ہو۔ مگر بھٹو ، شریف اور اس طرح کے دیگر سیاسی خاندانوں کا تسلط تو کسی نظام الاوقات کا پابند ہی نہیں۔ یہ گزشتہ چار دہائیوں سے سیاست کر رہے ہیں ۔ آتے اور جاتے ہیں۔ بیماریاں اور بڑھاپا بھی اُنہیں اقتدار کی لت اور لپک سے دور نہیں کرتا۔ پھر ان کے بچے ہیں۔ کیا اس نظامِ انتخاب سے آنے والے سیاست دان اِسے جمہوریت قرار دے کر اس کامقدمہ لڑ پائیں گے۔ کوئی حد ہوتی ہے ، کہیں آدمی بس بھی کرتا ہے۔ مگر پاکستان کی سماجی تشکیل ہی کچھ ایسی ہے کہ یہاں سیاست دان اور جرنیل ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کاجواز بن کر مطلعِ اقتدار پر طلوع ہو جاتے ہیں۔ اور عوام ایک مجموعی تصویر کو دیکھنے کے بجائے اپنی بے طاقتی کی نفسیات میں ایک دوسرے کے تعصب کا شکار ہوکر ایک دوسرے کے خلاف بن کر سوچتے ہیں۔ یہی سماجی پسماندگی ہے اور اِسی میں جمہوریت کا بیج نہیں پنپتا۔اِسی لئے یہاں پُرانے بحران نئے سرے سے سر اُٹھاتے رہتے ہیں۔ نوازشریف عمرِ خضر پاکر اگلی چار صدیاں بھی اقتدار میںآتے رہے تو یہی شکایت کرتے ہوئے ملیں گے۔ کیونکہ اس سماج میں یہی کچھ ممکن ہے۔

مزید :

کالم -