نواز شریف جیت گئے

نواز شریف جیت گئے
 نواز شریف جیت گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک اعصاب شکن جنگ کے بعد بالآخر نواز شریف جیت گئے۔ عمران خان نے کس کس بہانے، کن کن الفاظ اورکس کس مقام پر ’’نواز شریف استعفیٰ دے دو‘‘ کا ورد نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی سمیت ہر تانگہ پارٹی نے استعفیٰ کا دباؤ ڈال کر بھی دیکھ لیا۔

نواز شریف نے استعفیٰ نہیں دینا تھا نہیں دیا۔ اپوزیشن کا ’’ناجائز‘‘ مطالبہ مان کر اقتدار کی پوشاک اتاری نہیں ’قانون کے جنگل میں جھاڑیوں کی نذر کر دی۔ نواز شریف اور ان کی پارٹی کو استعفے کے مطالبے سے کسی (بیرونی) سازش کی بو آرہی تھی‘ اس لیے وہ سیدھے راستے پر چلنے کی بجائے جنگل کی طرف بھاگ نکلے۔ جنگل تو پھر جنگل ہے نا۔


سالہا سال سے کاروبار اور اقتدار پر قابض شریف خاندان کے دونوں شعبوں کے حسابات کئی حوالوں اور کئی برسوں سے مشکوک تھے۔ وہ جو کہتے ہیں ناکہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے تو ہمارے ہاں یہ کہاوت تجارت اور سیاست کے لیے بھی صادق آتی ہے۔

اس لیے شریف خاندان نے تجارت کی محبت اور سیاست کی جنگ میں جو کچھ بھی کیا، جائز سمجھ کر کیا۔ پاناما لیکس کوئی انوکھا کارنامہ تھا نہ عمران خان کی کنٹینر تقریروں میں کوئی نئی بات۔ شریف خاندان کئی برسوں سے ایک ہی طریقے سے دونوں کاروبار کرتا چلا آرہا تھا۔ ماضی کی شاید ہی کوئی حکومت ہو جس نے پارلیمنٹ میں اس لوٹ مار کا ڈھول نہ پیٹا ہو لیکن اپوزیشن میں بیٹھی ہر پارٹی نے اپنا آنگن بچانے اور اپنا چولہا جلانے کے چکر میں ڈھول کی تھاپ نچلے سروں پر رکھی۔ ہاں پاناما فیصلے پر مبارکباد کے حقیقی مستحق سراج الحق ہیں،انہوں نے اپنے حلیف عمران خان کو کئی بار سمجھایا کہ کرپٹ حکمرانوں سے نجات دھرنوں اور سڑکوں سے نہیں ملے گی عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دینا پڑے گی۔ سراج الحق صاحب کے پہلے قدم کے بعد کارواں بنا اور پھر عدالت کے تیور ایسے بدلے کہ دنیا ہوئی حیران۔ قانون بنانے والے اور اسے نافذ کرانے والے کسی ادارے نے بھی کبھی آنکھیں اتنی سرخ نہیں کی تھیں۔

کبھی آنکھیں دکھانے کی نوبت اگر آئی بھی تو مفادات کی کالی پٹی باندھ کر ہمیشہ ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے‘‘ والی پالیسی اپنائے رکھی۔ اب عدالتی اور تفتیشی افسروں نے آنکھیں دکھائیں تو ایسی کہ پورا خاندان چالیس سالہ ریکارڈ سمیت دھر لیا۔ بس چلتا تو ’’ابا جی‘‘ اور مرحوم بھائی عباس شریف کو بھی نوٹس جاری کر دیتے۔ اسی لیے تو پر تعیش فرنیچر سے خالی کمرے میں ایک عام سی کرسی پر ایک عام سے شہری جیسی تصویر کا بے نقاب ہونا پورے خاندان کو برا لگا۔ شاہی خانوادے کو ایسی تفتیش کی پہلے عادت ہی کہاں تھی۔ویسے شاہی خاندان کو فوٹو لیکس پر سیخ پا ہونے کی بجائے اسے نیوز لیکس کے رد عمل میں انتقامی کارروائی سمجھ کر درگزر کرنا چاہیے تھا۔ بظاہر کہنا تو آسان ہے لیکن کیا کیا درگزر کیا جاتا۔


جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے واٹس ایپ کال اور اوپر سے عدالت کا اعتراف ہمیشہ پڑھتے آئے کہ جج کبھی نہیں بولتا ’اس کا فیصلہ بولتا ہے۔ لیکن اب عادل بولتے ہیں اور ڈٹ کر بولتے ہیں۔ گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے القاب ہمیشہ مخالف وکلا فریقین کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن منصف خود فریق کا کردار ادا کرنے لگے تو درگزر محال ہوتا ہے۔ کمرہ عدالت کے باہر وکلا اور فریقین کے نام نہاد ترجمان سیاسی عدالتیں لگاتے رہے اور منصف درگزر کرتے رہے۔ دن بھر کے عدالتی ریمارکس پر الیکٹرانک میڈیا شام کو اپنے بے لگام فیصلے سناتا رہا اور منصفین اعلیٰ چپ سادھے رہے۔


کمرہ عدالت میں منصفین بولے سو بولے، اس کا فیصلہ کہیں زیادہ گرجدار تھا۔ اتنی گونج تھی کہ شریف خاندان کے اقتدار کا سومنات لرز کے رہ گیا۔ ایوان سیاست میں دراڑیں پڑ گئیں۔ بلاشبہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ تھا۔ ایک بڑے کاروباری اور سیاسی خاندان کے با رے میں تھا۔ غالب اکثریت کا خیال یہی تھا کہ اس مقدمے کا بھی کچھ نہیں بنے گا۔ بس تاریخ پر تاریخ تاریخ پر تاریخ ہو گی اور عدم ثبوت یا کسی بھی روایتی عذر کی بنا پر مقدمہ داخل دفتر کر دیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے بڑی خوردبرد کے کئی پرانے اور کئی تازہ مقدمے ابھی تک عدالتوں کی دھول چاٹتے رہے ہیں اور کئی مقدمے ایسے بھی ہیں جن میں بدنام ترین کرپٹ ملزم اٹھارہ سال عدالتوں میں پیشیاں بھی بھگتتا رہا‘ ملک کا صدر بھی رہا‘ ایک تگڑی پارٹی کا شریک چیئرمین بھی ہے اور بدعنوانی کے بڑے مقدمات میں باعزت بری ہو کر ’’پوتر‘‘ بھی ہو گیا، گویا:

رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
وجہ وہی روایتی ’ٹھوس ثبوتوں کی عدم دستیابی۔ کمزور اور پھسپھسے دلائل کی بھرمار اور نتیجہ آصف علی زرداری بدعنوانی کے گہرے سمندر سے باہر۔ پاناما کیس کی ابتدائی سماعتوں میں بھی کچھ ایسا ہی تاثر ملا پہلے تو عدالت عظمیٰ نے اسے سماعت کے قابل ہی نہ سمجھا پھر کہا گیا کہ یہ ٹھوس ثبوت نہیں‘ یہ تو غیر مصدقہ فوٹو کاپیاں ہیں یہ اخباری تراشے ہیں جس میں محض پکوڑے ڈال کر کھائے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ فریقین عدالت کا وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹھوس ثبوت لائیں۔ پانچ عالی دماغ ججوں نے پاکستانی تاریخ کی تیز ترین سماعت کر کے قوم کا تاثر اور عدالت کا مزاج ہی بدل کے رکھ دیا۔ ثبوتوں کی ’’ردی‘‘ کو کھنگال کھنگال کے تین ججوں نے نواز شریف کو مومن کامل پایا جبکہ دو کی نظر میں وہ وزارت عظمیٰ کے اہل نہیں تھے۔ ججوں کے اختلاف رائے پر دھانسو قسم کی جے آئی ٹی کا رویہ دیکھ کر اچھی بھلی نون لیگ غصے میں نہال لیگ بن گئی۔ حالانکہ جے آئی ٹی پر سب سے پہلی تنقید حسب عادت خود پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کی اور پھر اپنی پارٹی کا بوجھ اٹھانے والے اکلوتے چیئرمین شیخ رشید ہم نوالہ ہم پیالہ بنے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کیا آئی، نواز شریف کے حامی تین ججوں نے اختلاف کرنے والے ججوں سے مل کر عدالت عظمیٰ کی تاریخ ہی بدل دی۔ شریف خاندان سمیت قانونی ماہرین کا ایک مخصوص دھڑا اس مخمصے کا شکار ہے کہ پہلے تین ججوں کو نواز شریف کو سمجھنے میں غلطی کیسے ہوگئی اور جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق (بادی النظر میں) کلین چٹ ملنے کے باوجود پانچوں جج نواز شریف کی نا اہلی پر متفق کیسے ہوگئے اور نااہلی بھی اس وجہ سے ’بقول فیض !
وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا
وہ بات انہیں بہت ناگوار گزری ہے
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق فیصلے پر نواز شریف کا ظاہری اطمینان سر تسلیم خم کرنا، شدید ردعمل کے بجائے نچلے سروں پر بیرونی سازش کا الاپ اچھی روایت ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اچھی بات ملکی تاریخ میں پہلی بار آئین کی دفعہ 63,62 کا اطلاق ہے اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں ایک چپڑاسی سے لے کر ملک کے صدر تک، ایک ریڑھی والے سے لے کر ملک کے سب سے امیر تاجر تک کوئی بھی صادق و امین نہیں۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے 63'62 کی تلوار چلانا، نہایت جرأت مندانہ قدم ہے۔ ڈر تو اس بات کا ہے کہ پارلیمان کے سارے ’’نواز شریف‘‘ آئین سے یہ دفعات حذف کر کے ہمیشہ کے لیے صادق و امین بن گئے تو عدالتوں اور جے آئی ٹیز کا کیا بنے گا۔ نون لیگ پھر نہال لیگ بن جائے گی اور یہی نعرہ لگائے گی: تم کتنے نواز شریف نکالو گے، ہر بار نواز شریف آئے گا!

مزید :

کالم -