’’آہا۔۔۔رادھا دیوی آئی ہیں۔ پدھارئیے دیوی جی۔۔۔پدھارئیے آج کیسے داس کی یاد آگئی۔ ہمرے بھاگ آپ ہمری کٹیا میں پدھاریں۔ ہم تو بڑے بھاگیہ شالی ہیں دیوی جی! آپ نے کیوں کشٹ اٹھایا؟ داس کو آگیا دی ہوتی آپ کے چرنوں میں آجاتا۔‘‘ پرتاب چہکا۔ کچھ دیر عبدالودودکو دیکھ کر رادھا نے اپنی نظریں پرتاب پر مرکوز کر دیں۔ اب دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ یک بیک رادھا کا چہرہ تپ گیا۔
’’مورکھ! تو نے بڑی بھول کی جو رادھا کو کشٹ دیا۔ کیا تو بھول گیا تھا کہ رادھا کس شکتی کا نام ہے؟‘‘ اس کی غضبناک آواز کمرے میں گونجی۔ عبدالودود آرام سے چلتا ہوا ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کی ہر ادا سے وقار جھلکتا تھا۔ وہ بڑی دلچسپی سے دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔
’’آج تیری سندر تاکا کوئی داؤ پر تاب پر نہ چلے گا۔ ہم تجھ سے نراش ہوئے اور اپنا من اس سندرنار کو ارپن(دے دیا) کر دیا ہے۔ دیکھو تو یہ سندرتا میں تم سے کم نہیں‘‘ پرتاب نے محو خواب صائمہ کی طرف اشارہ کیا۔ میری کن پٹیاں تپ گئیں۔ قریب تھا کہ میں اس کتے پر جھپٹ پڑتا رادھا کی آواز آئی۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر91 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’پرتاب ! میں اب بھی تجھے شما کر سکتی ہوں، کیول تجھے اتنا کرنا ہوگا کہ اس سندرناری کو اس کے پتی کے حوالے کر دے اور دیا کی بھکشا مانگ، مجھے وشواس ہے موہن تیرے اپرادھ کو بھول کر تجھے شما کر دے گا، یدی سے سمے تیرے ہاتھ سے نکل گیا تو تو جیون بھکشا مانگے گا بھی تو نہ ملے گی۔ میں تجھے ایک اور سر دیتی ہوں کہ میری بات مان لے اور وہ بھی اس کارن کے تونے میری بڑی سیوا کی ہے‘‘ رادھا کا لہجہ اتنا سرد تھا کہ پرتاب کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ کچھ دیر بعد وہ سنبھل کر بولا۔
’’سمے تو کب کا بیت گیا رادھا۔۔۔! یاد ہے میں نے تیرے چرنوں میں سر رکھ کر تجھ سے پریم کی بھکشا مانگی تھی۔ پرنتو تو نے اس پلید مسلے کے کارن میری بنتی کو سوئیکار نہ کیا۔۔۔یاد ہے نا؟‘‘ پرتاب غصے سے بل کھا کر رہ گیا۔ اس کے انداز میں چوکنا پن تھا وہ کبھی رادھا کو دیکھتا کبھی عبدالودود کو۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔اب اپنے مہاگرو اس دھشٹ کالی داس کو بلا کہ وہ تجھے میرے شراپ سے بچائے۔ آواج دے کسی اور شکتی کو۔۔۔رادھا تجھے اس سنسار سے پرلوک بھیجنے کے کارن آئی ہے۔ میں نے تیری تپسیا کے کارن تجھے ایک اور سردیا تھا پرنتو تو مورکھ ہے‘‘ رادھا غضبناک ہوگئی۔
اس کے ساتھ ہی اس نے چھت کی طرف دیکھ کر کسی اجنبی زبان میں کچھ کہا۔ میرا خیال تھا کہ ابھی چھت سے آگ کا گولہ گرے گا اور پرتاب کو جلا کر خاکستر کر دے گا۔ فکر مجھے صائمہ تھی کہیں وہ بھی آگ کی زد میں نہ آجائے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا کمرے کے ایک کونے سے بسنتی کی مکروہ ہنسی سنائی دی۔
’’کھی۔۔۔کھی۔۔۔کھی، دیوی جی! ہم بھی کسی کارن یہاں بیٹھک لگائے بیٹھے ہیں کیا تیری شکتی نے تجھے ہمرے بارے جانکاری نہیں دی؟‘‘ اس کی کھرکھراتی آواز آئی۔ ساتھ ہی اس کا گندہ وجود ظاہر ہوگیا۔ رادھا نے چونک کراسکی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔
بسنتی اپنے گندے وجود کو گھسیٹتی مسہری کے قریب آگئی جس سے بدبو کے بھبھکے اٹھ رہے تھے۔
’’تو۔۔۔؟ تو رادھا کی شکتی کے آڑے آئے گی؟‘‘ رادھا نے زہر خند سے کہا ۔ اسکے ہونٹوں پر حقارت بھری مسکراہٹ چھا گئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر منہ ہی منہ کچھ پڑھا اور چھت کی طرف دیکھ کر کسی کو پکارا۔ اس سے پہلے کہ گولا چھت سے بسنتی پر گرتا بسنتی چلائی۔
’’مہاراج! یہ کلنکی آگئی ہے اپنے وچن کے انوسار میری سہائتا کرو‘‘ اچانک کمرے کے ایک کونے سے چنگھاڑ سنائی دی۔
میں اور محمد شریف بری طرح اچھل پڑے۔ دیکھا تو ایک دیونما شخص جس کا سر چھت سے لگ رہا تھا اور جسم کسی پہاڑ کی طرح تھا ایک طرف سے نمودار ہوا اور چنگھاڑتا ہوا رادھا کی طرف بڑھا۔ اس کے جسم پر ریچھ کی طرح بال تھے۔ یوں لگ رہا جیسے بالوں سے بھرا ہوا گوشت کا پہاڑ لڑھک رہا ہو۔ا س نے اپنا پاؤں اٹھا کر دھم سے زمین پر رکھا جس سے بڑی بھیانک آواز خارج ہوئی۔ اس کے جسم پر فقط ایک لنگوٹی تھی۔ کمرے کی چھت لگ بھگ پچاس فٹ بلند ہوگئی۔ وہ پہاڑ اس میں سر جھکائے چل رہا تھا۔ رادھا نے ایک نگاہ غلط اس پر ڈالی اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے گوشت کے اس پہاڑکو دیکھا، اچانک اسکی آنکھوں سے سرخ روشنی کی دھار نکل کر اس پر دیو پر پڑی اور ایک لمحے میں اسے جلا کر دھویں میں تبدیل کردیا۔ دھواں چکراتا ہوا چھت کے پاس جا کر غائب ہوگیا۔ میں جو اس دیو کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا رادھا نے بڑی آسانی سے اسے ختم کر دیا۔ عبدالودود جو بڑی دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اسکے چہرے پر رادھا کے لئے تحسین کے تاثرات ابھر آئے۔ بسنتی نے اپنے مددگار کا یہ حشر دیکھا تو فوراً غائب ہوگئی۔
’’چمارو‘‘ رادھا غضبناک ہو کر گرجی۔
’’جی دیوی جی!‘‘فورا! چمارو کی آواز آئی۔
’’بسنتی کو لاؤ‘‘ رادھا نے اسے حکم دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک دھماکے کے آواز آئی اور کسی نے بسنتی کو زمین پر پھینک دیا۔ وہ درد سے بلبلا اٹھی۔ ابھی وہ کھڑی بھی نہ ہو پائی تھی کہ رادھا نے چھت کی طرف دیکھا۔ آگ کا گولہ نمودار ہو کر بسنتی کے سر پر گرا۔ اس کے منہ سے ایسی دلخراش چیخ برآمد ہوئی جس سے دل دہل جائیں۔ پل کے پل آگ کے گولے نے اسے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
’’پاپن۔۔۔رادھا کی شکتی کو نشٹ کرنے چلی تھی‘‘ رادھا نے نیچے تھوک دیا۔
’’اب کیا وچارہیں تیرے؟‘‘ غیض و غضب میں بھری رادھا نے پرتاب سے کہا جسکے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔بسنتی کا حشر دیکھ کر وہ خوفزدہ نظر آنے لگا۔
’’کالی داس کا شراپ تجھے بھسم کر دے گا‘‘ اس نے ڈرے ڈرے لہجے میں کہا۔ اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا چھا گیا لیکن سکینڈ کے ہزاویں حصے میں دوبارہ روشنی ہوگئی۔
’’کیا بالکوں جیسے چمتکار دکھا رہا ہے؟ کوئی ایسا کام دکھا کر رادھا کو تجھے اپنا سیوک کہنے پر لاج نہ آئے۔‘‘ رادھا نے اس کا تمسخر اڑایا۔
’’رادھا! ہمرادھرم ایک ہے۔ ہمرے بیچ یدھ اچھی نہیں۔ تو ان مسلوں کے کارن اپنے ہی دھرم کے ایک بچاری کو نشٹ کرنے کا وچار من میں لا رہی ہے ، کیا تجھے لاج نہیں آتی؟ تو نے ایک مسلے سنگ اپنے شریر کا سمبندھ جوڑا، میں نے کتنا کہا تجھے یہ شوبھا(زیب) نہیں دیتا تو دوجے دھرم کے منش سنگ ایسا سمبندھ رکھے۔ پرنتو تو نے میری ایک نہ مانی۔ یدی تو منش جاتی سنگ ایسا سمبندھ رکھ سکتی ہے تو میں کیوں نہیں؟‘‘ پرتاب نے بڑی ڈھٹائی سے کہا۔ میرا سر بے اختیار شرم سے جھک گیا۔ محمد شریف کیا سوچتاہوگا کہ میں کیسا آدمی ہوں؟ میں نے دیکھا رادھا بھی شرمساردکھائی دے رہی تھی۔ اسنے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ہاں۔۔۔مجھ سے بھول ہوئی۔ میں نے پوتر پریم کوپلید کیا۔پرنتو اب میری آنکھیں کھل چکی ہیں اس مہاپرش نے‘‘ اسنے میری طرف اشارہ کیا۔
’’اپدیش دے کر میری آنکھیں کھول دیں۔ اس نے کہا تھا ہم دونوں کے بیچ جو سمبندھ ہے وہ اس کے دھرم کی شکشا(مذہب کی تعلیمات) کے انوسار ٹھیک نہ ہے۔ اس دن سے میں نے من میں ٹھان لیا میں دوبارہ اس سے ایسا سمبندھ نہیں رکھوں گی۔ ہاں میں اس سے پریم کرتی رہوں گی۔ پرنتو پریم آتما سنگ ہوگا شریر سنگ نہیں۔ جب اسنے مجھے اپدیش دیامجھے بڑی لاج آئی۔ میں واقعی اس کے پریم میں پاگل ہوگئی تھی۔ یدی پریم تو دو آتماؤں(روحوں) کا بندھن ہے، شریرکا نہیں۔‘‘ رادھا نے یہ کہہ کر ہم سب کو حیران کردیا۔ اسکی نظریں زمین میں گڑی ہوئی تھیں۔ چہرے سے شرمندگی کا اظہارہو رہا تھا۔(جاری ہے )
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر93 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں