وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر70

Sep 18, 2017 | 02:54 PM

شاہد نذیر چودھری

خلیفہ چنن دین نے ملک واحد کی طرف دیکھا اورپوچھا۔’’ملک جی اب کیا حکم ہے۔کالا چھاتی پرہی بیٹھا رہے۔تسلی ہو تو اسے باہر بلوالیں۔‘‘
ملک واحد اپنی شرط ہارگیا اورتمام انعام کالا کے سپرد کردیا۔
قیام پاکستان تک کالا آسمان شاہ زوری پربلند ہوتا گیا۔1947ء کے اوائل میں دہلی میں جمعہ کے روز اس نے ایک شاہی دنگل میں دہلی کے مشہورپہلوان کشن درگا کو چت کیا توگوجرانوالہ کے استاد وقت رحیم بخش سلطانی والا نے اس کو اپنے پٹھے ماجھے ٹوٹھ کے لیے مانگ لیا۔
ماجھا منجھا ہوا دنگلیا تھا۔کالا کی اس سے کشتی ہوئی جوایک گھنٹہ بعد برابرچھڑا دی گئی۔ اس کے تین دن بعد یعنی جمعہ کے روز ہی وزیرآباد میں کرم پہلوان کے بیٹے کوگرا دیا توایک کھلبلی سی مچ گئی۔ پھردہلی کے رستم دونی پہلوان سے برابر چوٹ پیش کی لیکن قیام پاکستان کے بعد دوبارہ دونی پہلوان سے معرکہ ہوا توکالا نے اسے صاف چت کردیا۔اس کشتی کے آٹھ دن بعد اس کی گوجرانوالہ کے مشہور پہلوان سلیمان میر صاحب والا سے لاہور میں کشتی ہوئی جس میں کالا فتح یاب ہوا۔

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر69  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلیمان کوگرانے کے بعد کالا نے بھولو برادران پر نظریں گاڑدیں اور رستم ہند امام بخش اوررستم زماں کے ایک عزیز غلام محی الدین پہلوان کو ایک کشتی میں پچھاڑ دیا۔ پھر 1949ء میں اکی پہلوان پسر امام بخش کوچت کرکے شیر پنجاب بن گیا۔ اکی کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اعظم پہلوان اور اچھا پہلوان میدان میں اترے مگر دونوں سے برابرکی چوٹ پیش کی۔ جب اچھا پہلوان اور اعظم جیسے نامی گرامی پہلوان اسے نہ گرا سکے توکالا صف اوّل کا شاہ زور بن گیا۔
اکی پہلوان کالا سے ہزیمت اٹھانے کے بعد شرمسار بھی تھا اور بدلہ لینے کے لیے بے انتہا مشقت کررہا تھا۔حمیدا پہلوان اور بھولوبرادران نے اکّی کو چکی کے دوپاٹوں میں پیس ڈالا تھا۔ بالآخر وہ دن آہی گیا جب اکی اورکالا کی جوڑطے ہو گئی۔
28جنوری1951ء کودوسال کے بعد اکی بڑی تیاری کرکے آیا تھا۔ ہرطرف اکی کی تیاریوں کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس کشتی کودیکھنے کے لیے بڑا ہجوم امڈ آیا تھا۔ انتظامیہ کولاٹھی چارج کرکے دنگل کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تھا۔جب دونوں پہلوان اکھاڑے میں آئے تو اکّی پہلوان نے اپنے بدن پر سیندور ملا ہوا تھا۔ سیندور بڑی مہنگی چیز ہوتا تھا لیکن بڑے پہلوان اسکو لگانا شان سمجھتے تھے۔وہ بڑے جوش وخروش سے اچھلتا کود تا اکھاڑے میں آیا لیکن کالا معمول کی طرح بڑے تحمل سے اکھاڑے میں آیا۔ پھردونوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تو اکھاڑہ میں سوال وجواب کی بارش ہونے لگی۔ اکی بڑھ بڑھ کر حملے کررہا تھا توکالا سنبھل سنبھل کرداؤکے توڑ پیش کررہا تھا۔ ایک بارجب اکی کالا کے پسندیدہ داؤ کی لپیٹ میں آیا توکالا نے اسے اپنا مخصوص دھوبی پٹرہ دے مارا۔ اکی کالا سے دور جاگرا مگرچت نہیں ہوا اور دوبارہ اس سے آلگا۔چند منٹ بعد اکی کوبھی اپنا داؤمارنے کا موقع ملا اور اس نے الٹا مارکرکالا کو دورگرا دیا مگرکالا بھی چت نہ ہوا۔پھر دونوں شاہزور سنبھل کرلڑنے لگے۔ کشتی پندرہ منٹ تک جاری رہی۔منصفین میں حمیدا پہلوان رستم ہند اور مہاجا بلاقی والا ستارہ ہند تھے۔ ان کے متفقہ فیصلہ کے مطابق کشتی برابرچھڑا دی گئی۔ یوں اکی اپنی شکست کا بدلہ نہ لے سکا اورکالا کی جوانمردی میں ایک اورستارے کا اضافہ ہو گیا۔
کالا پہلوان عروج کی طرف گامزن تھا کہ اسے یونس پہلوان سے کشتی لڑنا پڑگئی۔ایک وقت وہ تھا جب کالا اوریونس ایک ہی اکھاڑے میں زورکرتے تھے۔ حالانکہ دونوں کی دفیں الگ الگ تھیں مگر آپس میں چند باتوں پر اختلاف ہو گیا جس کی وجہ سے دونوں شاہ زورایک دوسرے کے مقابل آگئے۔ یہ کشتی اقبال پارک میں ہوئی۔عام خیال تھا کہ یہ کشتی مسابقت کے جذبے سے بھری ہوئی ہے۔ دنگل کا انتظام ٹھیک نہیں تھا۔ افراتفری کا عالم تھا۔ جولوگ پیچھے بیٹھے تھے انہیں کشتی نظر نہ آرہی تھی۔ لوگوں نے مٹی کے ڈھیلے اورکرسیاں مارنی شروع کردیں۔دنگل میں ہلہ گلہ مچ گیا۔ کشتی ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئی تھی کہ برابر چھڑا دی گئی۔اس کے بعد کالا کی اچھا پہلوان گوجرانوالیہ سے جوڑپڑ گئی۔ یہ بھی اقبال پارک میں ہی ہوئی۔ اس میں کالا نے اچھا کودھوبی پٹرہ مارکر چت کردیا تھا۔
کالا پہلوان کے عروج کی کمند عین درمیان میں ٹوٹ گئی۔آج تک شائقین کشتی حیران ہیں کہ1954ء میں جونہی اس کی شادی ہوئی وہ پہلوانی سے تائب ہو گیا۔ یہ ہنوز عجیب اسرار ہے کہ کشتی کے دلدادہ پہلوان نے کیوں اپنا لنگرلنگوٹ پھاڑ دیا۔ ایک بارکالا نے اپنے دوست سے اس بارے میں کہا تھا۔ ’’میں نے جان بوجھ کرپہلوانی چھوڑی۔کیونکہ اب اس پرزوال آرہا ہے۔دنگل کم ہونے لگے ہیں اورپہلوان آداب کشتی بھلا کر ماردھاڑ کرنے پر اتر رہے ہیں۔ مجھے عزت بچانی تھی سو میں تائب ہو گیا۔‘‘
کالا نے خود توکشتیاں لڑنی چھوڑ دیں مگر اپنے اکھاڑے کو آباد رکھا اور نامی گرامی شاہ زور تیار کیے۔ بھولا گاڈی رستم پنجاب، پپو چڑھدا سورج، پنا مرحوم، حمیدا چپلیاں والا،جیجا تیلی، قروبلیا، بلوپہلوان اور چن پہلوان نے اپنے استاد کے نام کوروشن رکھا۔
کالا پہلوان بسیار خور پہلوان نہیں تھا۔ اس کی خوراک بڑی معمولی تھی۔ وہ دو سیر گوشت کی یخنی پیتا اور ایک سیر بھنا گوشت کھاتا۔ دودھ روزانہ چار سیر پیتا اورایک سیر بادام ایک وقت میں پیتا تھا۔ اس کے علاوہ پھل وہ رغبت سے کھاتا۔ اس کے لیے ریاضت بھی خوب کرتا۔ وہ صبح صبح اٹھتا، تین ہزار ڈنڈ اور تین ہزارسپاٹے(بیٹھک)لگانے کے بعد تین میل دوڑلگاتا۔ بعد میں دومن کا گڑا گردن میں ڈال کر جھکا کراوپر اٹھاتا اورکبھی نیچے گراتا تاکہ اگرکوئی پہلوان اس کی گردن پر بیٹھ جائے تو اسے اٹھایا جا سکے۔
کالا پہلوان میدان سے ہٹ توگیا تھا مگر اس نے اپنے پیچھے ایسے شاہ زور چھوڑ دیئے تھے جو بھولو برادران کے لیے خطرہ بن رہے تھے مگرمقابل اتنے معمولی نہیں تھے۔ گوگا، اچھا، اکی، اعظم اور خود بھولوپہلوان کوہ گراں کی طرح اکھاڑوں میں ایستادہ تھے۔ ان کی مکمل دھاک تھی اورملکی بین الاقوامی سطح پر ان کا ایک خاص مقام تھا۔
1951ء کا سال پاکستان میں سیاست کے عدم استحکام کا سال تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت اور سوگواری سے اکھاڑے سونے ہو گئے اور کئی ماہ تک کوئی دنگل نہ ہو سکا۔ نواب صدیق خاں نواب زادہ شہید کے محرم راز تھے۔1951ء کے بعد انہیں کینیا میں سفیر بنا کربھیج دیا گیا اوروہ نیروبی میں پاکستانی سفیر کے احسن فرائض انجام دینے لگے۔یہ1953ء کی بات ہے۔ نیروبی میں چند بھارتی پہلوانوں نے اللے تللے مچار رکھے تھے۔نیروبی میں مسلمان بھی کثیر تعداد میں تھے۔انہیں بھارتی پہلوانوں کی شاہ زوری نے خائف کردیا تھا۔ خاص طورپررستم نیروبی تھمن سنگھ تو ایک فیل مست تھا۔ اس کا بھائی مہندر سنگھ اس سے بھی دو چارہاتھ آگے تھا۔ اس دور میں تھمن سنگھ توپس منظر میں چلا گیا تھا مگر اپنے بھائی کو اکھاڑوں کی چاٹ لگا گیا تھا۔ان دنوں نیروبی میں خوب دنگل ہوتے تھے۔ پاک وہند کے اکثرپہلوان نیروبی جاتے مگر نامراد ہو کرواپس آتے۔ پھرجب پاکستان کا ایک بڑا شاہ زور حسینا دفتری بھی شرمسار سا واپس لوٹا تو نیروبی کے مسلمان نواب صدیق خاں کے پاس پہنچ گئے اورکہا۔
’’کیا پاکستان میں پہلوان مر گئے ہیں جو ادھر کا رخ نہیں کررہے۔ گاماں رستم زماں، امام بخش،حمیدا رحمانی، بھولو برادران کہاں ہیں۔ انہیں یہاں بلوائیں۔ مہندر سنگھ نے ہماری ناک میں دم کررکھا ہے۔‘‘
نواب صدیق نے کہا۔’’میں ان کوبلاتا ہوں آپ صبر کریں۔ میرے ان سے ذاتی تعلقات ہیں مجھے امید ہے وہ جلد ہی آجائیں گے۔‘‘
نواب صاحب نے پاکستان میں گاماں پہلوان سے رابطہ کیا توانہوں نے جھٹ سے ہامی بھرلی اورلڑکوں کو نیروبی روانہ کردیا۔1953ء میں پانچ پہلوانوں کا جتھہ جس میں اچھا پہلوان ،اکی، گوگا، گلا پہلوان اورحسین پہلوان شامل تھے،نیروبی پہنچ گئے۔خلیفہ بلو بطور مہاوت ان کے ساتھ تھا۔ گاماں اورامام بخش نجی مصروفیات کی بنا پر کچھ دنوں بعد نیروبی پہنچے۔ ان دنوں بھولو اوراعظم پہلوان دہلی گئے ہوئے تھے۔
نیروبی کے مسلمانوں نے بھولو برادران کا جوش و خروش سے استقبال کیا اور پھر چند ہی دنوں بعد پاکستانی شاہ زور اپنا رنگ جمانے لگے۔(جاری ہے)

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں