اگر یہ کام نہ کیا تو ہم اپنی زراعت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے

اگر یہ کام نہ کیا تو ہم اپنی زراعت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے
اگر یہ کام نہ کیا تو ہم اپنی زراعت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا میں شروع ہی سے یہی اصول چل رہا ہے کہ دریا چاہے کسی بھی ریاست سے نکلتا ہو مگر وہ جہاں سے بھی گزرے گا اس کے باسیوں کا دریا کے پانی پر پورا حق ہوگا،اور اگر کوئی قدرت کے اس گزرتے پانی کو کسی ریاست کے استعمال کے لئے روکے تو وہ جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔
میرے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعہ کھڑا کرنے کا منصوبہ تقسیم ہند کے دور کا ہے،البتہ اس پر عمل درآمد تب سامنے آیا جب بھارت نے مسلمان اکثریت والی ریاست کشمیر پر اپنا تسلط جما لیا۔ یہ ہند وائسرائے اور ہندو لیڈروں کا باہمی منصوبہ تھا۔تقسیم کے وقت کی جانے والی ناانصافی آج پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔کشمیر کے قریبی چند مسلم علاقے جن کو تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بننا تھا جان بوجھ کر بھارت کو دیئے گئے تاکہ بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ جما سکے۔درحقیقت بھارت کے کشمیر پر قبضے سے ہی آبی تنازعہ شروع ہوگیا تھا۔
پاکستان کو سیراب کرنے والے دریا بھارتی زیر اثر کشمیر سے ہی نکلتے ہیں۔کچھ برس گزرنے کے بعد جب بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو پاکستانی حکومت و ماہرین کو یہ ادراک ہوا کہ پاکستان تو ایک بڑے آبی مسئلے کا شکار ہے۔اس کے بعد بھارت کا پانی کو روکنا کا معمول بن گیا،جو اب تک جاری ہے صرف پانی کے روکنے کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی ہے۔سندھ طاس معاہدے سے پہلے پاکستان میں لوگوں کے دلوں میں جنگ کے وسوسوں نے جنم لیا،ہر با شعور پاکستانی یہی سوچتا تھا کہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے لئے ایک بڑی جنگ ہوگی،خدا نخواستہ اگر پاکستان پانی سے محروم ہوگیا تو ہمارے سرسبز میدان تو بنجر ہوجائیں گے قحط سالی ہمیں جکڑ لے گی،ہم سب چٹیل میدانوں میں افلاس کے مارے بادہ نشینوں کی طرح خوراک کی آس لگائے مارے مارے میلوں پیدل گھومتے نظر آئیں گے۔ایسے بے شمار وسوسے تھے جو پریشانی میں اضافہ کرتے تھے۔چناچہ پاکستان کی کاوشوں اور واویلے کے بعد 1960میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا جو اس وقت کے موجودہ ہمارے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم نہرو کے زیر نگرانی طے ہوا ۔یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی بدولت طے ہوا جس کی ضمانت پر دونوں ملک معاہدے کے لئے رضا مند ہوئے۔اس معاہدے کا فائدہ بھی بھارت کو پہنچا،کیوں کہ معاہدے کے تحت دو پاکستانی دریا راوی اور ستلج بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔باقی تین دریا سندھ چناب اور جہلم پاکستان کے حصہ میں آئے۔ورلڈ بینک نے معاہدے کے تحت پاکستان کو ڈیم بنانے کے لئے کچھ رقم فراہم کی جس کی بدولت پاکستان نے منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے۔چند برس گزرے بھارت نے اپنے کئے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنا شروع کردی پاکستانی حصے کے دریاؤں کا پانی روکنے کے لئے ان پر ڈیم بنانا شروع کر دیئے۔
1984میں دریائے جہلم پر وولر بیراج اور1990میں چناب پر بگلیہار ڈیم اور اسکے علاوہ چھوٹے بڑے درجنوں منصوبے مکمل کر کے پاکستان کو پانی جیسی عظیم نعمت سے محروم کرنا چاہا۔ہمارے گزشتہ وقت کے منصوبہ سازوں نے غفلت برتی اور بھارتی ڈیم مکمل ہونے کے بعد ان کے ڈیزائنز کو عالمی عدالت میں چیلنج کیا۔پاکستان کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا گیا کہ اب تو ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور خلاف ورزیوں سے باز نہ آیا اور پاکستانی حصے کے دریاؤں پر سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کا منصوبہ تیار کرلیا۔بس اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ دریاؤں کا رخ تبدیل کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ایسے بے دھڑک منصوبوں کی بدولت ہی مودی سرکار پاکستان کو بنجر کرنے کی بڑھکیں مارتی ہے۔تاہم خوش آئیند بات یہ ہے کہ ہمارے آبی ماہرین نے گزشتہ غلطیوں سے سیکھا اوربھارت کے جانب سے کشن گنگا اور راتلے ڈیم کی تعمیر کی شروعات سے پہلے ہی ان ڈیزائنز پر عالمی بینک میں اعتراضات اٹھادیئے۔جس کی بدولت گزشتہ دو روز عالمی بینک کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں آبی کانفرنس ہوئی جو بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ناکام ٹھہری۔عالمی بینک نے حکم دیا تھا کو دونوں فریقین مل بیٹھ کر معاملات طے کریں،اگر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو ثالثی کورٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔اب عالمی بینک کا حق بنتا ہے کہ وہ ثالثی کورٹ تشکیل دے۔سوچنے کی بات ہے کہ بھارت مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل کیوں چاہے گا جو اس کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔پاکستانی قیادت کو بھارت سے کوئی امید وابستہ نہیں رکھنی چاہئے، بلکہ اپنی اعلی و تیز سفارتکاری کی بدولت دنیا کے سامنے بھارت کی پاکستان مخالف سازشوں اور تعصب پسندی کو بے نقاب کرنا چاہئے۔تاکہ عالمی طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈال سکیں۔پاکستان کو عالمی بینک کو اپنے آبی مسئلے کی نوعیت بارے تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہئے اور ثالثی کورٹ کی تشکیل کے لئے رضا مند کرنا چاہئے تاکہ پانی جیسی عظیم نعمت کے اس سنگین مسئلے کو حل کیا جا سکے۔اب اپنی حکومتوں کی ناکامی کا اندازہ لگائے کہ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی پر اربوں خرچ ہوگئے مگر آج تک اس پر کام شروع نہیں ہوسکا۔بھارت ہے کہ دھڑا دھڑ ڈیم بناتا جا رہا ہے۔ہماری حکومت اور ذمہ داران کو جلد از جلد پانی کے اس سنگین مسئلے کو بھانپنا ہوگا اور بھارت نواز سازشوں کو بے نقاب کرکے کالا باغ سمیت مزید ڈیموں کی تعمیر کو ممکن بنانا ہوگا۔ورنہ بھارت کی ہٹ دھرمی تو برسوں سے قائم ہے۔میرے نزدیک موئثر اور فوری حل یہ ہی ہے کہ پاکستان جلد از جلد زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کر کے اپنے دریائی پانی کو محفوظ بنائے تاکہ پاکستان آئندہ برسوں قحط سالی کا شکار نہ ہو اور زراعت سے حاصل ہونے والی بھاری معیشت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔ذرا سوچئے!

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -