کراچی اور پانی کی ضروریات
پاکستان میں محدود و، کم یا مختصر وسائل رکھنے والے لوگوں کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہے۔ ضروریات زندگی جنہیں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، ناپید ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو مسائل یا ضروریات کا ہمالیہ ورثہ میں ملا ہے ، ماضی ٰ کی کسی ایک حکومت کا کیا دھرا نہیں ہے یا کوئی ایک اس کی ذمہ دار نہیں ہے، بلکہ کم سے کم گزشتہ پچاس برسوں میں اس ملک میں مسائل جنم لیتے رہے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنا جن کی بھی ذمہ داری تھی وہ آنکھیں بند کئے اگر نہیں بیٹھے تھے تو ان کی ترجیحات ضروریات کے ہم پلہ نہیں تھیں۔ کسی بھی شعبہ کا جائزہ لیں وہاں کوتاہی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے۔
تعلیم، صحت، خوراک، روزگار، اور دیگر چیزوں کی طرف سے ہر حکومت نے آنکھیں بند رکھی ہیں۔ ماضی میں حکومتوں کو کس نے روکا تھا کہ پانی کے لئے ذخائر تعمیر نہیں کئے جائیں۔ جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لینے کے بعد ڈیم فنڈ کے قیام کا اعلان کر دیا تو ان پر سیاست دانوں کے ایک گروہ نے تنقید کی آبشار کھول دی۔ یہ تو بروقت بہتر ہوا کہ چیف جسٹس نے کھلی عدالت میں سخت الفاظ میں تنقید کرنے والوں کو تنبیہ کی ۔ کیا اس ضمن میں ماضی کی حکومتیں اقدامات نہیں کر سکتی تھیں۔ لیکن بات و ہی ہے کہ ترجیحات کچھ اور تھیں۔
کراچی میں خصوصا پینے کے پانی کی قلت پر منصوبوں پر منصوبے بنتے رہے، کراچی یا صوبائی حکومت کی باگ ڈور جن سیاسی عناصر کے ہاتھوں میں رہی وہ اس پر زبانی جمع خرچ کرتے رہے لیکن انہوں نے اس قلت کو دور کرنے یا قابو پانے کی عملًا کوشش ہی نہیں کی۔ کراچی میں ان تمام عناصر جن میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہی کسی نہ کسی حیلے بہانے اقتدار میں رہیں، پانی کی قلت دور کرنا ان کی ترجیحات میں اولین درجہ نہیں رکھتی تھیں۔ اندرون سندھ صورت حال کراچی سے مختلف نہیں ہے۔ کوئی شہر ایسا نہیں جہاں پینے کے لئے صاف پانی کی فراہمی کی جاتی ہو۔ اگر کسی کو شک ہے تو سپریم کورٹ کے قائم کردہ واٹر کمیشن کی روداد پڑھ لے ، آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ آپ حیران ہوں گے کہ تھرپارکر میں تو اب سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے ، لیکن اس کے ہیڈ کوارٹر مٹھی میں رہائش رکھنے والے لوگوں کو تیس دن میں ایک دن وہ بھی چند گھنٹوں کے لئے پینے کا میٹھا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
مٹھی نہر علاقے سے صرف پچاس کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ تھرپارکر کے دیگر علاقوں کی بات رہنے دیں تو بہتر ہی ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے گزشتہ دو ادوار میں تھرپارکر میں زیر زمین کڑوے پانی کو استعمال میں لانے کے لئے چھوٹے بڑے 480 آر او پلانٹ نصب کرائے تھے ۔ ان کی اکثریت مختلف اسباب کی بناء پر ناکارہ ہوگئی ہے۔ اس لئے نہیں کہ یہ پلانٹ پاک اوسس نامی کمپنی نے لگائے تھے یا اس لئے نہیں کہ پاک اوسس کمپنی کے بظاہر کرتا دھرتا انور مجید صاحب ہیں بلکہ اس لئے کہ انہیں لگانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کی کوئی حکمت عملی وضع ہی نہیں کی گئی۔ انور مجید کو روکنا ٹوکنا ، وزیر اعلی مراد علی شاہ کے بس کی بات اس لئے نہیں تھی کہ انور مجید کے سرپرست آصف علی زرداری ہیں۔
مسلہ یہ نہیں ہے کہ برسر اقتدار ٹولوں میں شامل افراد کو پانی کی قلت کا اندازہ نہیں تھا بلکہ وہ تو کراچی یا دیگر اضلاع میں رہائشی مکانات کی قلت دور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس دلچسپی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انہیں اس کام سے مالی منغعت حاصل ہے۔ کراچی میں فلیٹ قطار سے تعمیر کرنے کی اجازت کون دیتا ہے؟ حیدرآباد میں مختلف علاقوں میں بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت کن کی آشیر واد سے حاصل کیجاتی ہے۔ سکھر میں بلند عمارتیں کون تعمیر کراتے ہیں اور اس سے حاصل کردہ رقوم کن کن افراد کے حصے میں جاتی ہیں۔ ہر قسم کی سہولتوں سے محروم نئی بستیاں اس لئے بسائی جاتی ہیں کہ کسی طرح فوری طورپر زیادہ سے زیادہ پیسہ سمیٹا جا سکے۔ حکومت میں براجمان افراد نے یہ آواز کبھی بلند کی کہ ان تعمیرات کو فوری طور پر روک دیا جائے۔
نام نہاد بلڈر اور ڈیولپر پر پابندی عائد کر دی جائے۔ مختلف رقبوں کے جو مکانات ایک یا زیادہ سے زیادہ دو خاندانوں کے تصرف میں تھے، ان پر بلند عمارتوں کی صورت میں درجنوں خاندانوں کو رہائش فراہم کر دی گئی۔ جب ایک طرف پینے کے لئے پانی کی سہولت ہی موجود نہیں ہے تو ایسی رہائشگائیں تعمیر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ سب کا مفاد پیسے میں تھا۔ کراچی میں سپر ہائی پر جو بہت بڑے رقبوں پر ٹاؤن بنائے جارہے ہیں ، کبھی کسی نے جائزہ لیا کہ اس علاقے میں پینے کا پانی کہاں ہے اور نکاسی آب کی کیا سہولت ہے؟ کروڑو ں کے مکانات میں رہائش رکھنے والے افراد پینے کا پانی کس طرح حاصل کریں گے اور نکاسی آب کیسے اور کہاں ہوگی؟ ضرورت مند افراد یا سرمایہ کار افراد نے ان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر دی ہے، جن کو پیسہ بنانا تھا وہ مالی طور پر مستفید ہو رہے ہیں، حکومت نے یہ تک نہیں سوچا کہ پیسہ تو کوئی بنا کر نکل جائے گا اور مسائل اس کے لئے کھڑے ہوجائیں گے۔
مشکل یہ ہے کہ حکومت پر بھی بلڈروں کے ساتھ شراکت داری کرنے والے لو گوں کی گرفت ہے۔ حکومت کسی پرندے کا نام نہیں ہے، وہ ایسے افراد کا مجموعہ ہوتی ہے جو وزراء ہوتے ہیں یا اسمبلیوں کے رکن ہوتے ہیں۔ اس لئے اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر آواز ہی نہیں اٹھاتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے گھروں میں زیر زمین کڑوے پانی کو میٹھا کرنے اور استعمال میں لانے کے لئے آر او پلانٹ نصب کئے ہوئے ہوں ، جب اپنے گھروں میں بجلی کی قلت یا لوڈ شیڈنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے محل نما گھروں میں بھاری قوت کے جنریٹر نصب کے ہوئے ہوں تو انہیں کیوں کر احساس ہو کہ لوگ پینے کے پانی کے لئے ترس رہے ہیں ، بجلی کی قلت نے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ موجودہ حکومتوں میں شامل افراد کی بھاری اکثریت اس لئے مبرا نہٰں ہے کہ انہیں بھی ذاتی طور پر یہ سہولتیں حاصل ہیں۔ اگر ان کا ہدف اقتدار حاصل کرنا تھا تو انہوں نے وہ حاصل کر لیا ، اب جو ہوتا ہے وہ دیکھا جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان اتوارکو کراچی آئے تو انہیں بتایا گیا کہ کراچی میں 57 ملین گیلن پانی کی قلت ہے۔ ان کے سامنے مسائل رکھنے والوں نے سمجھا کہ شائد ان کے پاس کوئی جادوئی چراغ ہے جس کو استعمال میں لاتے ہوئے وہ کراچی میں پانی کی قلت دور کردیں گے۔ یہ ناممکن ہے۔ عمران خان ہوں یا وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، خواہش رکھنے کے باوجود اس مسلہ کو حل نہیں کرسکیں گے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر گزرنے والے روز بجلی کے استعمال میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اسی طرح اس ملک میں پانی کی ضرورت اور طلب میں بھی اضافہ ہورہا ہے، کراچی میں اس کی ضرورت کے پیش نظر اضافہ ہو رہا ہے۔ اس قلت پر قابو پانے کا ا یک حل تو یہ ہے کہ پانی فراہم کیا جائے۔ کیا یہ اتنا آسان ہے۔ اس کے ساتھ دیگر کئی اقدامات کرنا ہوں گے۔
سب سے اہم اور اول قدم یہ ہونا چاہئے کہ کراچی اور سندھ کے دیگر تمام اضلاع میں کسی ایک مدت یا غیر معینہ مدت کے لئے بلند عمارتوں کی تعمیر اور نئی بستیوں کے قیام پر ہر طرح سے پابندی عائد کی جائے۔ پہلے پانی کا انتظام کیا جائے پھر تعمیرات یا بستیوں کے قیام کی اجازت دی جائے۔ تعمیر کی اجازت دینے پر اس امید پر سمجھوتہ کرنا کہ پانی کا مسئلہ حل کر لیا جائے گا، حماقت کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ کراچی ہو یا لاہور، یا اسلام آباد، یہ فیصلہ وفاقی حکو مت کرے اور تمام صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لے کر اس پر عمل در آمد کرا نے کا پابند کرے ۔ جب تک سخت فیصلے نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک تو پانی یا بجلی کی قلت دور کرنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں ہوگا۔ بہت مشکل ہے اور مشکلات میں مزیداضافہ ہی ہوگا اگرلوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو کہ حکمرانی کی سیاست کی ناکام تریں قسم کہلاتی ہے۔