چیف جسٹس کا عوام کی نبض پر ہاتھ
روزانہ ہی ملنے والے کچھ لوگ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کب ریٹائر ہو رہے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں چیف کی ریٹائرمنٹ قریب آنے کا غم کھائے جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو دوسرے زاویئے سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے دن گن رہے ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خلاف چیف جسٹس نے از خود نوٹس لئے ہیں اور جنہوں نے قانون کو گھر کی لونڈی بنا رکھا تھا۔ تاہم ان لوگوں کی تعداد بلا شبہ لاکھوں میں ہے جو چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ قریب آنے پر گھلے جا رہے ہیں، ان کی خواہش یہ ہے کہ چیف جسٹس جانے سے پہلے وہ سب کچھ ٹھیک کر جائیں جو حکمرانوں نے کبھی نہیں کیا۔
پاکستان میں ڈیم بنانے کا تو کسی نے مستقل مزاجی کے ساتھ سوچا ہی نہیں تھا، برسوں بیت گئے ہم کالا باغ ڈیم ہی میں اُلجھے رہے، وقت گزرتا رہا اور اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک دن بھی مزید ضائع کرنے کے لئے موجود نہیں ہے۔ اب ایسے میں اگر چیف جسٹس نے ڈیم بنانے کے لئے ڈنڈا اٹھا لیا ہے تو اس میں کیا برا کیا ہے؟ ان کے اس فعال کردار کی وجہ سے بھاشا ڈیم بناؤ ایک تحریک سی چل نکلی ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان بھی بھرپور معاونت کر رہے ہیں، بلکہ انہوں نے اسے اپنا ایجنڈا بنا لیا ہے ۔ ڈیم بنانا ایک ڈیڈ ایشو تھا جسے زندہ کیا گیا ہے یہ زندہ ہوا تو احساس ہوا ہے کہ بحیثیت قوم ہم کتنی بڑی غفلت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ پانی ہمارے لئے سونا بنتا جا رہا ہے اور اس سونے کی حفاظت نہ کی گئی تو بنجر زمینیں، سوکھے کھیت کھلیان اور قحط سالی ہمارا مقدر بن جائے گی۔
تاہم صرف یہی پہلو نہیں جس پر چیف جسٹس نے توجہ دی، بلکہ ایسے بے شمار گوشے ہیں جن پر ان کی نگاہ پڑی تو عقدہ کھلا کہ قوم کے ساتھ کتنا بڑا ظلم اور کتنا بڑا دھوکہ کیا جا رہا ہے۔ آپ فرضی اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کیس کو ہی لیں، کس بے دردی کے ساتھ ملکی دولت کو لوٹ کر باہر بھیجا گیا۔ تقریباً پچاس ارب روپے کے اکاؤنٹس تو ثابت ہو گئے ہیں، ابھی نجانے اور کتنے ہیں۔ جتنے بڑے مافیاز اس دھندے میں ملوث ہیں، عام حالات میں تو ان پر کوئی ہاتھ ہی نہیں ڈال سکتا تھا۔ تمام ادارے ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں، اب بھی جب سپریم کورٹ خود اس کیس کو دیکھ رہی ہے، با اثر لوگ بچ نکلنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو دباؤ میں لانا ممکن نہیں وہ جو کہتے ہیں کر جاتے ہیں۔
آصف علی زرداری نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح ایف آئی اے پر دباؤ ڈال کر اس کیس سے نکل جائیں، لیکن چیف جسٹس نے انہیں ایف آئی اے کے روبرو پیش ہونے پر مجبور کر دیا۔ جب سے سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے کو اپنی مکمل سپورٹ فراہم کی ہے ان میں نئی جان پڑ گئی ہے اور وہ نہایت ہی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ عوام چیف جسٹس سے اس لئے خوش ہیں کہ وہ مفادِ عامہ کے شعبوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے نوٹس لینے پر انتہائی سنگین اور شرمناک حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے پتہ چل رہا ہے کہ غریب عوام کو کس کس طرح سے لوٹا جا رہا ہے۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، نہ ہی کوئی حکومتی محکمہ یا وزارت ایسے لوگوں سے عوام کو بچاتی ہے، جنہوں نے پرائیویٹ ادارے بناکر عوام کی کھال اتارنے کا اپنا ہی نظام بنا رکھا ہے۔
مثلاً یہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے معاملے ہی کو دیکھیں۔ مرکز میں بھی وزارتِ صحت ہے اور صوبوں میں بھی وزارتیں ہیں، مگر کبھی کسی نے دھیان نہیں دیا کہ یہ نجی ہسپتال کیا سروسز فراہم کر رہے ہیں اور اس کے بدلے میں پیسے کتنے بٹورتے ہیں؟ بعض ہسپتال تو ایسی جگہوں پر ہیں جہاں فضا آلودہ ہے اور پارکنگ تک کا کوئی مناسب انتظام نہیں۔ چیف جسٹس نے نجی ہسپتالوں کے بارے میں از خود نوٹس لیا تو بڑے تلخ حقائق سامنے آئے۔ انہوں نے بڑی درد مندی سے یہ ریمارکس دیئے کہ یہ ہسپتال انسانیت کی خدمت کے لئے نہیں، بلکہ انسانیت کا لہو نچوڑنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ یہ خبریں تو ہم آئے روز سنتے ہیں کہ کسی ہسپتال میں غریب خاندان کے کسی فرد کی وفات ہو گئی تو اس کی لاش اس وقت تک نہ دی گئی جب تک ہسپتال کے تمام اخراجات نہ ادا کئے گئے۔
اب ذرا غور کیجئے کہ ایسے موقع پر ہسپتال انتظامیہ جو مرضی چاہے بل بنا دے، ورثا ادا کرنے پر مجبور ہوں گے، کیونکہ ان کے عزیز کی نعش جو پڑی ہوتی ہے۔ دل کا سٹنٹ ڈالنے کے لئے سپریم کورٹ نے پی ایم ڈی سی کی مشاورت سے ایک لاکھ روپے (زیادہ سے زیادہ) فیس مقرر کی تھی، مگر یہاں تین سے چار لاکھ روپے بھی لئے جاتے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں طب کا شعبہ شتر بے مہار بنا ہوا ہے۔ نجی ہسپتال اور کلینکس لوٹ مار کا ذریعہ ہیں۔ دوسری طرف اسی سے جڑا ایک مافیا اور ہے اور وہ ہے ادویہ ساز فیکٹریاں۔۔۔
بھارت میں جس دوائی کا نرخ دس روپے ہے، وہ پاکستان میں کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچی جا رہی ہے۔ وزارتِ صحت کے چند افسروں سے مل کر ملٹی نیشنل اور نیشنل سطح کی کمپنیاں من مانی قیمتیں رکھ لیتی ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں ادویات کی قیمتیں بغیر حکومتی منظوری کے بڑھا دی جاتی ہیں، ایک بار نہیں کئی بار۔۔۔ آپ ایک میڈیسن جس قیمت پر لیتے ہیں، اگلے ماہ وہ اس قیمت پر دستیاب نہیں ہوتی۔ اب یہ وہ معاملات ہیں جن پر ہماری حکومتوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔ چیف جسٹس کی عقابی نظر ان پر بھی پڑ گئی ہے۔ ان سے درخواست یہ ہے کہ نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار کا کیس صرف لاہور کے ہسپتالوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اس کا دائرہ پورے پنجاب تک پھیلا دیں۔
مثلاً ملتان ہی کی مثال لیجئے۔ یہاں جو چند بڑے نجی ہسپتال موجود ہیں۔ وہ عوام کی صحیح معنوں میں چمڑی اتار رہے ہیں ان میں اکثر نشتر ہسپتال کے ڈاکٹر کام کرتے ہیں، وہ نشتر میں مریضوں کو داخل کرتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں،بلکہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریض دیکھتے ہیں اور وہیں داخل کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کو اس پہلو کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ سرکاری ہسپتالوں میں بڑے ڈاکٹر مریض کیوں نہیں دیکھتے۔ ڈیوٹی ٹائم میں ان کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائی جانی چاہئے۔منرل واٹر مافیا بھی چیف جسٹس کی نظروں میں آ گیا ہے، دورانِ سماعت ہوشربا حقائق سامنے آئے ہیں، حکومت کو چند ٹکے دے کر یہ کمپنیاں پانی حاصل کرتی ہیں اور پھر اسے مہنگے داموں بیچتی ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ان کا پانی بھی اعلیٰ معیار کا نہیں ہوتا۔ حکومت کی طرف سے چیکنگ کا کوئی ایسا نظام نہیں کہ جو گاہے بہ گاہے ان کمپنیوں کے منرل واٹر کسی لیبارٹری میں معیار کی کسوٹی پر پرکھ سکے۔ ایک طرف عام آدمی کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا اور دوسری طرف یہ سرکاری پانی کو اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اسی قسم کی صورت حال ہے جیسی کراچی میں ہے، جہاں ٹینکر مافیا کو تو پانی وافر مقدار میں مل جاتا ہے، لیکن عوام پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ اربوں روپے کا یہ کاروبار روکنے سے نہیں رک رہا۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے جسٹس امیر ہانی مسلم کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ تمام سزائیں بروئے کار لائیں، مگر کسی کو یہ اجازت نہ دیں کہ وہ عوام کا پانی چرائے۔ مگر لگتا ہے کہ کراچی میں ٹینکر مافیا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اسے پکڑنے والا کوئی نہیں۔ اس کی ذمہ داری سپریم کورٹ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ سندھ حکومت جب تک مصلحت سے کام لینے کی روایت ختم نہیں کرتی اور ٹینکر مافیا سے آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹتی اس وقت تک کراچی میں حالات بہتر نہیں ہو سکیں گے۔ آج بھی کراچی کے شہری پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں اور آج بھی ان کی نظر یں کسی اور پر نہیں صرف چیف جسٹس کی طرف لگی ہوئی ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت آنے سے ایک بڑا فرق یہ پڑا ہے کہ چیف جسٹس کے اقدامات کی حکومت کی طرف سے مخالفت ختم ہو گئی ہے، وزیر اعظم عمران خان چیف جسٹس کے اقدامات کی تعریف کرتے ہیں اور اسے اپنی حکومت کے لئے سود مند قرار دیتے ہیں کہ اس سے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ دور گیا جب کسی رکن اسمبلی کے خلاف سپریم کورٹ کارروائی کرتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ ایک خاص جماعت کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ اب سپریم کورٹ کارروائی کرے تو رکن اسمبلی کو از خود اپنی صفائی دینا پڑتی ہے۔ کراچی کے ایم پی اے عمران شاہ اور ایم این اے عامر لیاقت کی مثالیں سامنے ہیں۔ چیف جسٹس کے جتنے بھی ایکشن ہیں، وہ صرف اس محدود سے طبقے کے خلاف ہیں جس نے اس ملک کو بری طرح لوٹا ہے۔
اب انہوں نے اگلے ہفتے سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بارے میں از خود نوٹس کے تحت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ فی الوقت اس نکتے پر جواب طلب کیا گیا ہے کہ مختلف سوسائٹیاں کتنا پانی استعمال کر رہی ہیں اور اس کا معاوضہ کیا دے رہی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر پانی جیسی سہولت بھی مفت حاصل کرلی جاتی ہے لیکن نہ تو ٹیکس دیتی ہیں اور نہ پانی کی قیمت ادا کرتی ہیں۔ اب عوام کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ جس طرح چیف جسٹس نے موبائل کمپنیوں کے ناجائز ٹیکسوں کو ختم کر دیا ہے، اسی طرح بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار کا بھی نوٹس لیں۔ بجلی کے بلوں میں 48 فیصد ٹیکس شامل ہوتے ہیں۔ ٹیکس در ٹیکس کی صورت بھی ہے۔ مثلاً جب مختلف ٹیکس بجلی کی قیمت میں شامل کر دیئے جاتے ہیں تو ان پر سیلز ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے چاہئیں، اللہ کرے وہ اس پر عمل کرانے میں کامیاب رہیں، تاہم چیف جسٹس چونکہ مسائل کے حل کی نشاندہی ہی نہیں کرتے، بلکہ انہیں حل کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں، اس لئے عوام ان کی طرف دیکھتے ہیں، جب کسی سے اتنی امیدیں وابستہ ہو جائیں تو اس کے ریٹائر ہونے کی خبر یقیناً ایک تشویش کو جنم دیتی ہے جس کا آج کل لوگ اظہار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔