میرے عزیز ہم وطنو !جمہوری صدر کا آمروں کے مشہور فقرے سے خطاب کا آغاز

میرے عزیز ہم وطنو !جمہوری صدر کا آمروں کے مشہور فقرے سے خطاب کا آغاز

  

تجزیہ :سہیل چوہدری

میرے عزیز ہم وطنو! صدر عارف علوی نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر روایت کے عین مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا آغاز اسی فقرہ سے کیا ، اگرچہ ماضی میں ملک میں کسی ہنگامی یا غیر معمولی صورتحال کے موقع پر عمومی طورپر کسی طالع آزما کے قوم سے خطاب کے موقع پر یہ فقرہ سننے میں ملتا تھا ، لیکن گزشتہ روز صورتحال قدرے مختلف تھی ، ملک میں جیسے تیسے لڑکھڑاتی جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے اپوزیشن کی طرف سے متنازعہ قرار دیئے جانے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں ایک جمہوری سیٹ اپ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے ، اس کے نتیجہ میں ملک کے تیرہویں منتخب آئینی صدر نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا آغاز اس مخصوص فقرہ سے کیا لیکن یہ کہنا بجا ہے کہ ملک کی سیاسی صورتحال معمول کے مطابق نہیں، حکومت کے آغاز سے ہی ملک میں ایک سیاسی کشیدگی کی فضا دکھائی دے رہی ہے حکومت اور اپوزیشن کے مابین اعتماد کی خلیج بہت وسیع ہے ملک کی تاریخ میں پہلی بار ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے سربراہ میاں محمد نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پابند سلاسل ہیں ، وہ پیرول پر اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے بعد عین اسی وقت دوبارہ اڈیالہ جیل پہنچے جب پارلیمنٹ میں صدر عارف علوی کے خطاب کا آغاز ہو اچاہتا تھا ، یوں ملک کی تاریخ کے انتہائی کشیدہ سیاسی ماحول میں صدر عارف علوی کے خطاب سے ایک نئے پارلیمانی دور اور سال کا آغاز ہوا ، ان مخصوص حالات کے پیش نظر صدارتی خطبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا ، وگرنہ عام حالات میں صدر کا پارلیمانی سال کے آغاز پر خطاب ایک رسمی اور معمول کی کارروائی گردانا جاتاہے ، لیکن گزشتہ روز ان کے خطاب کے موقع پر اپوزیشن کا کردار اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ حکومت کو امور مملکت چلانے کیلئے پھونک پھونک کر معاملہ فہمی سے آگے بڑھنا ہوگا، اگرچہ اجلاس مقررہ وقت سے تقریبا آدھے گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا، صدر نے اپنے خطاب میں بہت سے امور مملکت پر روشنی ڈالی اور انہی امور پر حکومت کی توجہ مبذول کروائی جو حکومتی جماعت نے اپنی انتخابی مہم میں عوام سے وعدے وعید کئے تھے ، صدر عارف علوی نے کرپشن کے خلاف اقدامات ، سادگی کو شعار بنانے اور اخراجات میں کمی سمیت قرضوں کے بوجھ کا ذکر کیا ، صدر نے کرپشن کے خاتمہ کیلئے اداروں کی مضبوطی کا ذکر کیا ، لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی میں کرپشن کے خلاف پر مہم سیاست کا شکار رہی جس کی بناء پر ان مہمات کا اہداف ہمیشہ مخصوص شخصیات ، مخصوص مقاصد کیلئے ہوتیں ، اس بناء پر کبھی کرپشن کے خلاف مہم کو بھر پور عوامی تائید حاصل نہ ہوسکی ، تاہم صدر مملکت نے سادگی پر بھی زور دیا اندرونی و بیرونی قرضوں کو قوم کے اوپر پہاڑ کا بوجھ قرار دیا تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ قرضوں کے اس پہاڑ سے کیسے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ، صرف اخراجات میں کمی سے ان سے نجات ممکن نہیں ، صدرنے ملکی معیشت میں خرابیوں کی نشان دہی کی تاہم دیکھنا ہے کہ حکومت معیشت کا پہیہ چلانے اور وسائل بڑھانے کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے ، حکومت تاحال معاشی چیلنجز سے عہدہ برآں ہونے کیلئے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ سامنے نہیں لاسکی ، کیونکہ عوام توقع کررہے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ملک کی معاشی صورتحال سے تو پہلے سے ہی باخبر تھی اوراس نے ان مسائل کے حل کیلئے کوئی معاشی منصوبہ سازی کر رکھی ہوگی ، لیکن حکومت ابھی سوچ و بچار کے عمل سے ہی گزر رہی ہے ۔

مزید :

تجزیہ -