میر جبر اور جمہوریت (قسط نمبر5)
میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز غیر سیاسی خاتون ہونے کے باوجود سیاست میں کردار اکرنے پر مجبور ہوگئی تھیں ۔خاتون اوّل کے طور پر اپنے معمولات منصبی ادا کرنے کے باوجود وہ خالصتاًگھریلوخاتون تھیں لیکن12 اکتوبر1999کے فوجی انقلاب میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر جب میاں نواز شریف کووزارت عظمیٰ سے ہٹا کرانہیں انکے بھائی شہباز شریف سمیت طیارہ کیس میں جیل پہنچا دیا گیا تو چند ہی دنوں میں بیگم کلثوم نواز شریف نے گھر سے نکل کر سیاسی جدوجہد شروع کردی ۔انہوں نے کن حالات میں حکومت کے خلاف میدان سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا ،وہ کیا گھڑیاں تھیں۔ان کے اہل خانہ اور جماعت پر کیا گزری ؟بیگم کلثوم نواز شریف نے بعد ازاں ان حالات کو انتہائی باریکی اور دردمندی سے ’’جبر اور جمہوریت‘‘ کے نام سے کتاب میں قلم بند کیا تھا ۔بیگم کلثوم نوازکی یہ سیاسی جدوجہد انکے غیر معمولی کردار،دلیری اور جذبے کی داستان ہے کہ انہوں نے سنگین ترین حالات میں آمریت کو چیلنج کیا اور جمہوریت کی شمع روشن کئے رکھی ۔روزنامہ پاکستان میں اس کتاب کو قسط وار شائع کیا جارہا ہے ۔
ا خیال ہے کہ وہ ان کاغذات یا نوٹیفکیشن کی تلاش میں تھے جس کے تحت آرمی چیف کو برطرف کیا گیا تھا لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نوٹیفکیشن انہیں نہ مل سکا حالانکہ وہ ان کے سامنے ہی پڑا تھا۔ خدا نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی اور یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ وہ ان کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ اس سلسلہ میں حسین سے بھی بہت پوچھ گچھ کی گئی۔ پھر وہ نوٹیفکیشن کسی نہ کسی طرح میرے پاس پہنچ گیا۔
جی ہاں! تو ذکر بیٹے حسین نواز سے ملاقات کا ہو رہا تھا۔ اس موقع پر ایک مدت کے بعد اپنے باپ (حسین) کو دیکھ کر ساڑھے تین سالہ زکریا کی جو حالت ہوئی، اسے دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔ حتیٰ کہ وہ سپاہی جو حسین کو لائے تھے، ان کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے۔ اس ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد یہ انتہائی رقت آمیز منظر تھا جس کی یاد آج بھی نگاہوں میں چبھن پیدا کردیتی ہے۔ معصوم زکریا باپ سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ بلک بلک کر فریاد کررہا تھا، میں ابو کے ساتھ جاؤں گا۔ فوجیوں نے اس چیختے چلاتے بچے کو کھینچ کر حسین سے جدا کیا۔ اس دلخراش منظر نے پورا ماحول سوگوار کردیا۔ یہاں موجود سپاہی بھی اس کا اثر قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔
اس کے بعد دو ہفتوں کے دوران دو مرتبہ ہم اسی میس میں جاکر حسین سے ملے، اس وقت سردی کا موسم تھا، میں نے دیکھا کہ حسین نے شہباز بھائی کا کوٹ پہن رکھا ہے۔ میں نے حسین سے پوچھا کہ یہ شہباز بھائی کا کوٹ ہے؟ حسین نے بتایا کہ یہ اسے سپاہیوں نے لاکردیا ہے اور اسے پہن کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انکل میرے ساتھ ہیں۔ اس کوٹ سے آنے والی ان کے جسم کی خوشبو مجھے ان کی قربت کا احساس دلاتی رہتی ہے۔
نیرنگئی سیاست
خیالات کا ایک ہجوم ہے جو ماضی کے دریچوں سے نکل کر صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے کے لئے برقرار ہے۔ جب میں اس امر کے متعلق سوچتی ہوں کہ ایک گھریلو عورت، جس کی زندگی بچوں کی پرورش اور امور خانہ داری میں صرف ہورہی تھی دفعتاً کیسے سیاست کی پرخاروادی میں داخل ہوئی اور کم و بیش ایک سال تک رائے عامہ کو اصلی صورتحال سے آگاہ کرنے اور متحرک کرنے کے لئے قریہ قریہ صدائے حق بلند کرتی پھری تو حیران رہ جاتی ہوں کیونکہ نواز شریف صاحب کے سیاست میں ہونے کے باوجود نہ تو میں نے کبھی عملی سیاست میں حصہ لیا بلکہ حصہ لینا تو درکنار میں میاں صاحب سے سیاسی معاملات پر کبھی گفتگو بھی نہیں کرتی تھی۔
12 اکتوبر کے شبخون کے بعد جیسا کہ میں آپ کو بتاچکی ہوں کہ ہم لوگ رائیونڈ زرعی فارم پر نظر بند رہے۔ اخبارات کی عدم دستیابی کے سبب ہم نہ صرف پرویز مشرف کے اقدامات سے بے خبر تھے بلکہ اپنوں کی بے وفائی کی اطلاعات بھی ہم تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ جب نظر بندی کا خاتمہ ہوا تو بہت جلد میرے علم میں آیا کہ وہ لوگ جو میاں صاحب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے اور زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تھے، طوطا چشم ہوچکے ہیں۔ ابھی جمہوریت پر تلوار چلے ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ کچھ اپنوں کے ایسے بیانات آنے شروع ہوگئے کہ جیسے وہ مدتوں سے ان حالات کے متمنی ہوں۔ انشاء اللہ کبھی اس موضوع پر تفصیلاً یادداشتیں مرتب کروں گی کہ 12 اکتوبر کے بعد کن افراد نے کیسی قلابازیاں کھائیں مگر ابھی صرف مختصراً چند واقعات کا تذکرہ کرنا چاہوں گی تاکہ قارئین کرام میری تقاریر کا مطالعہ کرتے ہوئے اس وقت کی سیاسی و ملکی حالات سے واقف ہوں اور میری گفتگو کو حالات کے تناظر میں پرکھ سکیں اور اپنی دیانتدارانہ رائے قائم کرسکیں۔
میں اس امر پر سخت متعجب تھی کہ 12 اکتوبر کے بالکل اگلے روز ہی اعجاز الحق نے بیان دیا تھا جس سے ان کی فوجی اقدام پر خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی اور یہ صرف ان ہی تک محدود نہ تھا بلکہ کچھ دیگر افراد بھی پرویز مشرف کے سامنے نمبر بنانے کی دوڑ میں صاف نظر آرہے تھے اور ان لوگوں کی سرگرمیاں تو میاں اظہر کے گھر 9 نومبر کو ہونے والے اجلاس میں ہی طشت ازبان ہوگئی تھیں جس میں انہوں نے آمریت سے مفاہمت کی خواہش کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا۔
نومبر کے وسط میں جب ظفر علی شاہ نے فوجی اقدام کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تو اس عمل کی تعریف کرنے کی بجائے اعجاز الحق نے اس کو ان کا ذاتی اقدام قرار دیا بلکہ یہاں تک ہی قصہ محدود نہ رہا اسی دن اعجاز الحق نے اراکین اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور برملا آمریت سے اپنے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے آپ کو میاں صاحب کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی کیونکہ ان کو یہ یقین دہانی کروائی جارہی تھی کہ اگر وہ پارٹی میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ سکتا ہے۔ اس سلسلے کی کڑی 16 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی سامنے آئی جس میں پارٹی قیادت کے حوالے سے اعتراضات اتھائے گئے۔ مگر خوش آئندہ بات یہ تھی کہ پارلیمانی پارٹی نے فوجی اقدام کی مذمت کرکے اپنا بھرم کم از کم اس وقت محفوظ کرلیا تھا۔
نظر بندی کے اختتام پر میں، میری دونوں بیٹیاں او رمیری ساس کراچی پہنچے اور اگلے روز 22 نومبر کو ہماری نواز شریف صاحب سے ملاقات کروائی گئی۔ میری نظر میاں صاحب پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ حالات کی سختیاں ان کے اعضاء و جوارح سے صاف نظر آرہی تھیں مگر ان بدترین حالات کے باوجود ان کے مزاج کی لطافت اور بلند ہمتی اپنی جگہ پر قائم تھی۔ انہوں نے ہم سے بالکل عمومی حالات کی طرح خیریت دریافت کی۔ بچیوں کے برستے آنسوؤں کو دیکھ کر حوصلے سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کا چہرہ اس امر کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ آئین کی بالا دستی کے لئے ان بدترین حالات کے لئے پہلے سے ہی تیار تھے۔ ہم سب کا اس وقت تو فرط جذبات سے برا حال ہوگیا جب میرے نواسے، جو میاں صاحب کی گود میں تھا، نے ملاقات کے آخر میں اترنے سے انکار کرکے رو رو کر اپنا برا حال کرلیا مگر میاں صاحب ہم سب کو تسلی دیتے رہے کہ حق کے راستے میں کربلا، کوفہ اور شام آتے ہیں مگر قافلہ حق رکتا نہیں بلکہ منزل کی جانب رواں دواں رہتا ہے اور ہمیں بھی ان جنت کی مالک پاک ہستیوں کے نقش قدم پر چلنا ہے کہ جن کی گردراہ ہونا بھی جنت کی دھول سے کم نہیں۔
کراچی سے واپسی پر چوہدری شجاعت حسین بھی ہمارے ساتھ جہاز میں تھے۔ ان سے اس سے پہلے کراچی میں ملاقات ہوچکی تھی۔ انہوں نے کراچی میں بھی اور دوران سفر بھی پارٹی قیادت کے حوالے سے میرے خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے متواتر اس موضوع کو زیر بحث رکھا۔ میں نے ان کو صاف بتادیا کہ میں پارٹی کی قیادت تو کجا مستقلاً سیاست میں رہنے کی بھی خواہش مند نہیں ہوں بلکہ میری تمام سرگرمیاں صرف اس وقت تک رہیں جب تک شریف خاندان کے مرد پابند سلاسل ہیں۔ جونہی حالات نے پلٹا کھایا میں واپس گھر ہستی سنبھال لوں گی۔ چودھری شجاعت نے میری فیصلہ کن انداز کی گفتگو کو بڑے غور سے سنا اور غالباً دل میں اس سے نتائج اخذ کرتے رہے۔ انہوں نے میرے ان تمام خیالات کو لاہور پہنچتے ہی صحافیوں کے گوش گزار بھی کردیا۔ اس واقعہ کے ذکر کا سبب صرف یہ ہے کہ چودھری برادران شروع ہی سے جانتے تھے کہ ہمارے خاندان یا پارٹی کی سطح پر کوئی ایسی سرگرمی نہیں کی جارہی کہ جس کا مقصد مجھے پارٹی کی سربراہی دینا ہو۔
چودھری شجاعت سے ملاقات کے بعد میری نواز شریف صاحب سے جب دوبارہ ملاقات ہوئی تو اس وقت تک امین اللہ چودھری وعدہ معاف گواہ بن چکے تھے۔ اس لئے یہ صاف نظر آرہا تھا کہ آمریت جمہوریت کو سزا دینے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ میاں صاحب نے مجھے کہا کہ پارٹی کو آپ میری طرف سے یہ پیغام دیں کہ ہمیں متحدہ رہنا ہے اور مجھ پر حالات جتنے مرضی پرآشوب ہوجائیں مگر ہمیں آئین کی بالادستی اور حرمت پر کوئی سودے بازی نہیں کرنی۔ جب میں نے ان کو پارٹی کے مختلف عہدیداروں کی منفی سرگرمیوں سے آگاہ کیا تو وہ بولے کہ میں جانتا ہوں کون کون اقتدار کی بھوک میں مبتلا ہے؟ مگر ہمارا فرض ہے کہ امکانی حد تک ان کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کریں تاکہ مسلم لیگ کا اتحاد پارہ پارہ کرنے کی خواہش رکھنے والے عناصر اپنے مذموم ارادوں کو روبہ عمل نہ لاسکیں اور اگر پھر بھی وہ ایسا کرہی گزریں تو ان کا جمہوریت دوست ہونے کا نقاب برسرعوام خود اترجائے گا۔
میاں صاحب کی یہ تمام گفتگو میں پارٹی کے سرکردہ عہدیداروں تک فوراً پہنچادی۔ اس کے بعد میاں صاحب کی ہدایت پر میں پارٹی کے مختلف عہدیداروں سے ملاقات کرنے لگی تاکہ بالمشافہ مسلم لیگ کے سربراہ کا پیغام ان تمام اصحاب تک پہنچادوں۔ پانچ دسمبر کو چودھری شجاعت سے میری اور مریم کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں ہم دونوں نے میاں صاحب کا پیغام دینے کے علاوہ عمومی سیاسی صورتحال پر بھی گفتگو کی۔ چودھری شجاعت نے مجھ سے کہا کہ آپ ہمیں کسی موقع پر اور کسی قسم کے حالات میں پیچھے نہیں پائیں گی۔
میری زندگی کا وہ لمحہ حد درجہ یادگار تھا جب میں 7 دسمبر کو پشاور گئی اور ظفر جھگڑا صاحب کی رہائش گاہ پر متعدد وفود سے میری ملاقات ہوئی۔ کارکنوں اور رہنماؤں کے یہ وفود صرف اور صرف مجھے یہ کہہ رہے تھے کہ آپ نواز شریف صاحبہ کو یہ پیغام پہنچادیں کہ ہم ہر مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں اور انشاء اللہ ہمارے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئے گی۔ صابر شاہ اور سرانجام خان کی طرف بھی جانا ہوا۔ ان دونوں کے ثابت قدم رہنے کے عزم نے مجھے بڑا حوصلہ دیا۔ جب مسلم لیگ سرحد کے اجلاس میں صابر شاہ نے میرے سر پر دوپٹہ رکھنے کی پختون رسم ادا کی تو اس وقت انہوں نے کہا کہ ہم نے سر پر دوپٹہ رکھ کر مرنے کی قسم کھائی ہے۔ ان تمام افراد کا جذبہ اور عمل میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔( جاری ہے)