اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 39
میں دن کی روشنی میں درخت کے ساتھ اس طرح لٹکا ہوا جھول رہا تھا کہ رسہ میری گردن میں پڑا تھا اور سر ایک طرف کو ڈھلک گیا تھا۔ اور میں نے سانس روک کر اپنے جسم کو ایک مردہ لاش میں تبدیل کر لیا تھا۔ میرا میزبان قنطور بھاگ کر میری طرف آیا۔ وہ کچھ گھبرایا ہوا تھا۔ جلدی سے پلٹ کر اپنی کوٹھری میں گیا۔ میں نے پلکیں اُٹھا کر دیکھا۔ وہ کوٹھری سے باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں چاقو تھا۔ اس نے رسہ کاٹ دیا۔ میں دھڑام سے نیچے گر پڑا۔
گاؤں کے دوسرے لوگ بھی آکر میرے لاش کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ میرے میزبان نے انہیں بتایا کہ یہ مردہ شخص (یعنی میں ) مسافر تھا۔ رات کو اس کے پاس آیا تھا۔ بادشاہ کے سپاہی اس کے پیچھے لگے تھے۔ ایک آدمی بولا ضرور یہ کوئی مجرم ہوگا اور قید سے فرار ہوا ہوگا۔ ہمیں اس کی لاش کو بستی سے باہر صحرا میں پھینک دینا چاہیے۔ کہیں ہم پر بھی شاہی عتاب نازل نہ ہو۔ باقی سارے لوگوں نے اس کی تائید کی۔ میں یہ سب کچھ سن رہا تھا۔ قنطور یعنی میرے میزبان نوجوان نے جھک کر میرے دل کے ساتھ کان لگائے۔ میں نے اپنے دل کی دھڑکن کو اتنا خفیف کر لیا تھا کہ کسی کو اندازہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ میں زندہ ہوں۔ اس نے کہا : ’’ یہ مرچکا ہے۔ اگر سب کی رائے یہی ہے تو ہم اسے بستی سے دور پھینک آتے ہیں۔ ‘‘ میں بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ لوگ مجھے بستی سے دور پھینک آئیں اور موقع پاتے ہی میں اٹھ کر کسی دوسری طرف چلا جاؤں۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 38پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انہوں نے میری لاش کو ڈولی ڈنڈا کر کے اٹھایا۔ بستی سے دور ریت کے ٹیلوں کے درمیان لے آئے اور ایک جگہ ریت کے چھوٹے سے گڑھے میں پھینک دیا۔ کم بختوں نے میری گردن سے رسی کا پھندا اتارنے کی بھی ضرورت محسوس ہی نہیں کی تھی۔ خیر مجھے اس سے کیا غرض کہ پھندا گردن میں پڑا ہے کہ نہیں۔ تھوڑی دیر بعد تو میری لاش زندہ ہو کر وہاں سے بھاگنے والی تھی۔ میں نے تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھول کر دیکھا کہ دھوپ ماند پڑ رہی تھی اور آسمان پر ابرچھانا شروع ہوگیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ بستی کے دوسرے لوگ تو لاش چھوڑ کر واپس جارہے ہیں مگر میرا میزبان قنطور میری لاش کے قریب رہنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے بستی والوں کو بتایا’’ یہ لاش میرے مہمان کی ہے اور مجھ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ میں اسے گدھوں کے حوالے کرنے کی بجائے زمین میں گڑھا کھود کر دفن کر دوں‘‘ بستی کے لوگوں نے جواب میں کہا ’’ یہ بادشاہ کا قیدی تھا۔ ہم نے اس کی لاش کے ساتھ بہتر سلوک کیا تو ہماری بستی پر بھی بادشاہ کا قہر نازل ہوسکتا ہے اس لئے لاش کو کھلے میدان میں ہی پڑا رہنے دو‘‘
میزبان قنطور کہنے لگا۔’’ میں اس کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں۔ اگر شاہی دستہ یہاں آگیا تو میں اعتراف کرلوں گا کہ لاش کو میں نے دفن کیا تھا۔ مگر میں اپنے مہمان کی لاش کی بے حرمتی ہوتے نہیں دیکھ سکتا ‘‘بستی والے میرے میزبان کے خلاف بڑبڑا کر واپس چلے گئے۔ میں دل میں اپنے میزبان کے اس اعلیٰ اخلاق سے بڑا خوش ہوا۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ میرا میزبان اصل میں کون ہے اور میری لاش سے وہ کیا کام لینا چاہتا ہے۔
جب بستی کے لوگ چلے گئے تو میرے میزبان قنطور نے ایک جگہ سے ریت ہٹانی شروع کردی جیسے وہ میرے قبر کھود رہا ہو۔ میں ذراسی پلکیں اٹھائے دیکھ رہا تھا کہ قبر کا گڑھا کھودتے ہوئے میرا میزبان بار بار بستی والوں کی طرف نگاہ ڈال لیتا ہے جو گاؤں کی طرف واپس چلے جا رہے تھے۔ اس کی حرکتیں مجھے کچھ پر اسرار سی لگ رہی تھیں لیکن میں نے کوئی زیادہ خیال نہ کیا۔ اب میں اس انتظار میں تھا کہ میرا میزبان قبر کھود کر مجھے اس میں لٹانے کے بعد چلا جائے اور میں کچھ دیر بعد اپنی قبر سے نکل کر فرار ہو جاؤں۔ مجھے کسی سے کوئی سرو کار نہیں تھا۔
اس وقت جب کہ میں لاش کی صورت میں آنکھیں بند کئے ریت کے ڈھیر میں پڑا تھا تو میری بند پلکوں کے اندر سوائے میرے یہودی محبوبہ نفتانی کی حسین و دلنواز شکل کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ میں جتنی جلدی ہوسکے کوئی نہ کوئی بھیس بدل کر دوبارہ شہر بابل میں اپنی محبوبہ کو تلاش کرنا چاہتا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق میرے میزبان قنطور کو اب تک قبر کا گڑھا کھود لینا چاہیے تھا۔ میں نے نیم وا آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ بہت آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور وہ بار بار گاؤں کی طرف دیکھ لیتا تھا۔ میں حیران ہوا کہ یہ شخص قبر کھودنے میں تاخیر اور تساہل سے کیوں کام لے رہا ہے۔
بادلوں سے اب ہلکی ہلکی گرج کی آوازیں آرہی تھیں مگر ابھی بونداباندی شروع نہیں ہوئی تھی۔ قنطور نے جب دیکھا کہ میدان صاف ہے اور بستی کے لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں تو اس نے جلدی جلدی میری تھوڑی سی کھدی ہوئی قبر کے اوپر اس طرح کی ڈھیری بنا دی جیسے وہ سچ مچ کی کوئی قبر ہو اور پھر میری لاش کو اپنے کاندھے پر اٹھا لیا اور ریت کے ٹیلوں کی طرح چلنے لگا۔ میرے حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا کہ آخر یہ میری لاش کو نذر آتش کرنا چاہتا ہے یا اپنے قبیلے کی رسومات کے مطابق مجھے کسی خاص جگہ پر دفن کرنا چاہتا ہے؟ وہ میری لاش کاندھے پر اٹھائے ریت کے ٹیلوں میں کافی دور نکل گیا۔ میں نے محسوس کیا نہ تو وہ تھکا تھا نہ اس کا سانس پھولا تھا۔ میں نے سوچا نوجوان ہے اس میں نوجوانی کا خون ابھی موجود ہے اس لئے اسے تھکان کا احساس نہیں ہو رہا۔ وہ ایک بلند ٹیلے کی اوٹ میں آگیا۔ یہاں اس نے ایک جگہ بہت سی اگی ہوئی جھاڑیوں کو پاؤں سے ایک طرف ہٹایا اور پھر ٹیلے کے اندر ایک تنگ و تاریک چھوٹی سی سرنگ میں داخل ہوگیا۔ سرنگ میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا ۔ آگے جا کر سرنگ ایک طرف گھوم گئی۔ میرا سر قنطور کے پیچھے لٹکا ہوا تھا اور میں آنکھیں کھولے دیکھ رہا تھا۔ سرنگ کی چھت میرے میزبان قنطور کی سر سے کوئی چار پانچ انچ ہی اونچی تھی۔ سرنگ کا موڑ گھومتے ہی ایک کھوہ آگئی جو سرنگ کی رتیلی دیوار میں کھود کر بنائی گئی تھی۔ یہاں اس نے مجھے زمین پر لٹا دیا۔ میں اب بھی یہی سوچ رہا تھا کہ قنطور میزبانی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے مہمان کی لاش کو کسی بہت سی محفوظ جگہ پر سپرد خام کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے وہ مجھے اس سرنگ کے اندر لایا ہے لیکن اب ایک عجیب غریب بات ہوئی۔
مجھے کھوہ کے اندر لٹانے کے بعد میرا میزبان قطور زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لئے اور اپنی نظریں سامنے دیوار پر گاڑھ دیں۔ میں آدھی کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مجھے پہلے بھی مقناطیسی کشش کا احساس ہوا تھا اور میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ بہت کم ہی پلکیں جھپکتا ہے اور پلکیں مسلسل کھلی رکھ کر بات کرتا ہے ۔ قنطور کے چہرے پر ایک سیاہی سی چھاتی چلی گئی اور اس کی آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوگئیں۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا کہ یہ اس کے چہرے میں کسی قسم کی تبدیلی ہو رہی ہے۔ معاً مجھے خیال آیا کہ وہ میری لاش پر جادو ٹونہ کر کے اپنا کوئی خاص مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن میں اپنی زندگی کا ایک محیر ا لعقول اور سنسنی خیز تجربہ کرنے والا تھا۔(جاری ہے)