بزدار وزیراعلیٰ بنیں یا گھر جائیں؟

بزدار وزیراعلیٰ بنیں یا گھر جائیں؟
بزدار وزیراعلیٰ بنیں یا گھر جائیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مجھے یہ جان کر بالکل حیرت نہیں ہوئی کہ ملتان اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھا ہے، جس میں اپنا دکھڑا بیان کیا ہے، بس انہوں نے یہ نہیں لکھا کہ ”رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے“ باقی سب کچھ لکھ دیا ہے، کیونکہ وہ رُل ضرور گئے ہیں،مگر انہیں رکن ِ اسمبلی بن کر ”چس“ کوئی نہیں آئی۔اس چٹھی میں انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب میں اُن کی کوئی عزت نہیں،سب کچھ بیورو کریسی کے ہاتھوں میں ہے،حتیٰ کہ کسی ترقیاتی منصوبے یا تہوار کی افتتاحی تقریب بھی ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے ہاتھوں سرانجام پاتی ہے اور ارکانِ اسمبلی حتیٰ کہ صوبائی وزیر مشیر بھی بس تالیاں بجانے کے لئے بلائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار انہیں وقت نہیں دیتے، جبکہ چیف سیکرٹری اور آئی جی تو انہیں اچھوت سمجھتے ہیں،ایسے حالات میں عوام کا سامنا کرنا مشکل ہو چکا ہے،کیونکہ لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے بھی ہمیں بے بس پاتے ہیں،اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ انتخابات میں شاید تحریک انصاف کو امیدوار ہی نہ ملیں۔ایک ایم پی اے نے اس خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ ہم احتجاج کریں اور پارٹی کو برباد ہونے سے بچائیں۔ مَیں تو پہلے بھی متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی گھروں میں دبک کر بیٹھے ہوئے ہیں، باہر آتے ہوئے انہیں خوف آتا ہے۔ کئی جگہوں پر تو اُن کی گمشدگی کے بینرز لگے ہوئے ہیں اور فیس بُک پر اُن کی تصویریں لگا کر حلقے کے عوام انہیں مضحکہ خیز پوسٹوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔پنجاب جیسے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کی یہ بے توقیری کیا پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے علم میں نہیں،کیا انہوں نے اوپر تلے پارٹی کے جو عہدیدار بنائے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں نہیں بتاتے کہ ”سسی ئ بے خیرے تیرا لٹیا شہر بھمبور“۔


مزیداری کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ(ق) جو تحریک انصاف کی پنجاب میں اتحادی ہے، کے کسی رکن ِ اسمبلی کویہ مسئلہ درپیش نہیں۔وہ بیورو کریسی پر بھی حاوی ہیں اور اُن کے کام بھی ترجیحی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اُن کی پشت پرکھڑے ہیں۔جہاں جہاں اُن کے ارکانِ اسمبلی ہیں،وہاں انہوں نے اپنی پسند کے افسران تعینات کرا رکھے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کا افتتاح بھی ارکان اسمبلی کرتے ہیں اور ان پر تختیاں بھی اُن کے ناموں کی لگتی ہیں۔چودھری پرویز الٰہی کو پتہ ہے کہ بیورو کریسی کو ڈھب پر کیسے لانا ہے، پھر انہوں نے عمران خان کو بھی کہہ رکھا ہے کہ اُن کی راجدھانیوں میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار یا کوئی دوسرا مداخلت نہ کرے۔ اب ایک طرف پنجاب کا یہ رخ ہے تو دوسری طرف وہ رخ ہے جس کا کوئی رخ ہی نہیں اور ”چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے“والا معاملہ ہے۔ کپتان تو بضد ہیں کہ انہوں نے وسیم اکرم ثانی ہی سے کام چلانا ہے، مگر کام تو چل ہی نہیں رہا۔ عثمان بزدار آج کل جتنے کمزور نظر آ رہے ہیں،پہلے کبھی نہیں تھے۔ پہلے بھی ان کی گرفت معاملات پر اتنی مضبوط نہیں تھی، مگر اب تو سارا پردہ ہی چاک ہو چکا ہے اور ہر بندے کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر نہیں۔ شہباز گل کے استعفے اور عون چودھری کو ہٹائے جانے کے بعد جو کہانیاں سامنے آئی ہیں، وہ اس بات کو طشت ازبام کرتی ہیں کہ خود تحریک انصاف کے اندر عثمان بزدار کے خلاف بغاوت در بغاوت چل رہی ہے۔

خبریں تو یہ بھی ہیں کہ عثمان بزدار کی کرپشن کو شہباز گل،عمران خان تک پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے عثمان بزدار نے انہیں پنجاب سے دیس نکالا دینے کا فیصلہ کیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان نے شہباز گل کے استعفے سے پہلے عثمان بزدار کو تبدیل نہ کرنے کا عزم دہراتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ان پر کرپشن کے جو الزامات لگائے گئے، انہوں نے تحقیق کرائی ہے، وہ سب بے بنیاد ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایسا کوئی الزام ثابت ہوا تو پھر وہ سخت ایکشن لیں گے…… سیانے کہتے ہیں کہ حکمران کی سب سے بڑی طاقت اس کا اعتماد ہوتا ہے، وہ اعتماد کھو دے تو کرسی ڈگمگانے لگتی ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اب صرف عمران خان کے اعتماد پر کھڑے ہیں، باقی خود ان کا اعتماد ڈانواں ڈول نظر آتا ہے۔ میڈیا ہو یا سیاستدان،ہر کوئی اس انداز سے سوچنے لگا ہے کہ عثمان بزدار کے ہوتے ہوئے پنجاب میں کوئی بہتری نظر نہیں آ سکتی۔ بیورو کریسی ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں حکومت نام کی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ کل ہی وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک گھڑا گھڑایا بیان اخبار میں چھپا کہ مصنوعی مہنگائی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ انہوں نے افسروں کو ہدایت کی کہ وہ دفتروں سے باہر نکلیں، منڈیوں اور بازاروں کا رخ کریں، منظور شدہ قیمتوں سے زائد بیچنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائیں۔ آپ بازار جائیں، سبزی دال، پھل اور دیگر اشیاء خریدیں تو صاف پتہ چل جائے گا کہ کتنی لٹ مچی ہوئی ہے۔ ہر روز قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے،مگر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔

جن افسروں کو وزیر اعلیٰ حکم جاری کرتے ہیں، وہ دفتروں سے نکلنا گناہ سمجھتے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق عثمان بزدار، وزیر اعظم عمران خان کو خود کہہ چکے ہیں کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا حکم مانتے ہیں، وزیر اعلیٰ کے کہنے پر کوئی تبادلہ نہیں کرتے۔ اب یہ ہے وہ صورت حال جس میں عثمان بزدار کو صوبہ چلانا پڑ رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی ہونے کے باوجود اپنا سکہ جمائے بیٹھے ہیں اور عثمان بزدار وزیر اعلیٰ ہو کر بھی اپنا سکہ جمانے تو کیا چلانے کے قابل بھی نظر نہیں آ رہے، لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کی بنا پر کپتان انہیں تبدیل کرنے کے بارے میں سوچیں۔ وہ تو پنجاب کو چلانا ہی اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے چاہتے ہیں اور عثمان بزدار کی جو خامی سب کو چبھتی ہے وہ درحقیقت عمران خان کے نزدیک ان کی خوبی ہے کہ وزارتِ اعلیٰ پر راضی بہ رضا ہیں، چاہے وہ جیسی بھی ہے۔


ایک طرف اتنی کشیدہ صورت حال ہے، جب اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کے درپے ہے اور دوسری طرف پنجاب کا یہ حال کہ موثر گورننس ناپید نظر آتی ہے۔ اب پھر پنجاب کا آئی جی تبدیل کرنے کی افواہیں گرم ہیں۔ آئی جی تبدیل کرنے سے کیا ہوگا؟ جب وہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سنے گا ہی نہیں، جو وزیر اعلیٰ خود وزیر اعظم سے ملاقات میں یہ شکایت کرے کہ وہ صوبے میں جس کا تبادلہ کرنے کا کہتے ہیں آگے سے جواب آتا ہے، وزیراعظم صاحب سے بات ہو گئی ہے یا بنی گالا سے حکم آ گیا ہے، تبادلہ نہیں کرنا، اس کی صوبے پر انتظامی گرفت کیسے قائم ہو سکتی ہے۔ ایسی باتیں تو غلام حیدر وائیں اور عارف نکئی جیسے وزرائے اعلیٰ نے بھی کبھی نہیں کی تھیں۔ منظور وٹو بھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، ان کی پنجاب اسمبلی میں اکثریت نہیں تھی کہ پنجاب کے معاملات میں دخل دے۔ سو وزیر اعلیٰ تو پھر وزیر اعلیٰ ہوتا ہے، جب تک اقتدار اس کے ہاتھ میں ہے، اس کا حکم کوئی نہیں ٹال سکتا، بشرطیکہ وہ حکم دینا جانتا ہو۔

عثمان بزدار نے تو شاید ابھی حکم دینے کی تربیت بھی مکمل نہیں لی، اسی لئے وہ اِدھر ُادھر دیکھتے ہیں۔ یہ آخری چانس ہے، پھر شاید زندگی میں انہیں پنجاب کی حکمرانی ملے یا نہ ملے۔ انہیں تگڑے ہو کر ایک مضبوط وزیر اعلیٰ کا کردار ادا کرنا چاہئے، اگر ان میں واقعی یہ کرنے کا حوصلہ یا صلاحیت نہیں تو پھر ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ خود ہی بھریا میلہ چھوڑ دیں تاکہ ان کی جماعت پنجاب میں اس ہزیمت اور سیاسی زوال سے دو چار نہ ہو، جو موجودہ صورت حال میں نوشتہء دیوار نظر آتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -