ہماری شاہراہیں محفوظ کیوں نہیں؟

ہماری شاہراہیں محفوظ کیوں نہیں؟
ہماری شاہراہیں محفوظ کیوں نہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر محترم خاتون کے ساتھ کیا سانحہ پیش آیا، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ سبھی اس سے پوری طرح آگاہ ہیں اور پولیس کے سربراہ کی جانب سے اس پر جو رد عمل ظاہر کیا گیا، اس شرم ناک معاملے پر بھی کیا بات کی جائے کہ زبان گنگ ہے۔ خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ نیا کا نہیں، ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات رکے ہی کب تھے۔ یہ الگ بات کہ کچھ واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں اور کچھ خواتین اپنی عزت گنوا کر بھی بدنامی کے ڈر سے مہر بلب ہو جاتی ہیں۔ بچوں پر ظلم، خواتین پر ظلم،پتہ نہیں کب سے جاری ہے اور ہم ہیں کہ آج تک اس ظلم کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔ نتیجہ یہ کہ ظالموں کے حوصلے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی کسی واقعے پر شور مچایا جاتا ہے، حکامِ بالا کی جانب سے کچھ بلند بانگ دعوے ہوتے ہیں،پھر چند دن بعد مکمل خاموشی طاری ہوتی ہے۔ ایسی خاموشی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ سانحہ موٹر وے پر ہرحساس دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور محض یہی ایک سانحہ کیا، دل تو اس وقت بھی مغموم ہو جاتا ہے جب آئے دن بچوں سے بد اخلاقی کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کیا یہاں کوئی بچہ، بچی، کوئی عورت محفوظ نہیں۔ ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں نہایت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کسی انسان کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کو ریاستِ مدینہ جیسا بنانے کے دعوے داروں کے دورِ حکومت میں بھی ہماری شاہراہیں اتنی محفوظ کیوں نہیں ہیں کہ کوئی خاتون یا عام بندہ دن یا رات میں کسی بھی وقت ان پر بلا خوف و خطر سفر کر سکے؟ لوگوں کو کیوں ڈاکوؤں اور چوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ 


اس حوالے سے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا یہ بیان بالکل بر محل لگتا ہے کہ متاثرہ خاتون اور اس کے بچے جس صدمے سے دوچار ہیں، انہیں نفسیاتی نگہبانی کی اشد ضرورت ہے،لیکن پنجاب پولیس اور موٹر وے پولیس ذمہ داری ایک دوسرے کے کاندھوں پر ڈال رہی ہیں، جو شرمناک ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لاہور سے کراچی تک اور لاہور سے پنڈی اور پشاور تک موٹر ویز ڈاکوؤں اور چوروں کے لئے کھلی چھوڑ دی گئی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیوں موٹر ویز اور دوسری شاہراہوں پر کوئی مناسب اور محفوظ ریسٹ ایریاز نہیں، کیوں ان شاہراہوں پر پولیس کا چوبیس گھنٹے گشت نہیں ہوتا اور کیوں لوگوں کے لئے سفر کو محفوظ نہیں بنایا جاتا؟ کیا موٹر وے پولیس نے کام کرنا چھوڑ دیا؟ کیا عوام کا کوئی والی وارث نہیں ہے؟ اگر عوام نے اپنی حفاظت کے انتظامات خود کرنے ہیں تو قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار حکام عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے تنخواہیں کس چیز کی لیتے ہیں؟ حالت یہ ہو چکی ہے کہ گزشتہ ماہ ملتان کے علاقے سجان پور پل کے قریب ڈاکوؤں نے پولیس پر ہی حملہ کر دیا، جو ان کو مال مقدمہ کی برآمدگی کے لئے لے جا رہی تھی۔ جہاں معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہو، وہاں شاہراہوں پر گینگ ریپ نہ ہوں تو کیا ہو؟ سننے میں آیا ہے کہ آج کل تو خواتین ڈاکو بھی متحرک ہو چکی ہیں اور وہ مرد ڈاکوؤں کے شانہ بشانہ اور بعض اوقات اکیلے ہی واردات ڈال دیتی ہیں۔ یہ جو خبریں سننے میں آتی ہیں کہ ملازمہ نے گھر کا صفایا کر دیا یا کسی بہانے گھر میں داخل ہونے والی خواتین نے مکینوں کو بے بس کر کے تمام قیمتی سامان پر ہاتھ صاف کر دیا، تو کیا یہ خواتین کسی سہارے، مدد یا سرپرستی کے بغیر ہی اتنے خطرناک کام کر رہی ہوتی ہیں؟ سر عام ڈاکے نہ پڑ رہے ہوں تو کوئی رشوت لے کر لوگوں کو لوٹتا ہے، کوئی تاوان کے نام پر اپنی جیبیں بھرتا ہے تو کوئی کسی کام کی انجام دہی کے لئے دستِ طلب دراز کئے ہوئے ہوتا ہے۔ 


کسی بھی مہذب معاشرے میں، خصوصی طور پر ایک اسلامی ملک اور سماج میں عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے، چنانچہ حکومت اور حکمران، چاہے وہ کوئی آمر ہو یا جمہوری طور پر منتخب، کی اولین ترجیح معاشرے میں امن و امان کا قیام ہوتا ہے۔ یوں تو اور بھی ادارے اور محکمے ہیں،لیکن محکمہ پولیس اس مقصد کے حصول کے لئے چونکہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے معاشرے میں امن و امان کا توازن بگڑنے پر اس محکمے سے باز پرس ایک فطری عمل ہے، لیکن آپ اسے کوئی بھی نام دے لیں، حقیقت یہی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ ہو یا پھر بڑھتی ہوئی منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان کا ایشو ہو یا پھر راہزنی اور چوری کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، حکامِ بالا ایک ہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ نفری پوری نہیں، اسلحہ کی کمی ہے، ملزمان جدید اسلحہ سے لیس ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے جوانوں کے ہاتھوں میں بوسیدہ بندوقیں اور پستولیں ہیں، نہ تھانوں کی عمارتیں ٹھیک ہیں اور نہ ہی گاڑیاں …… اور یہ کہ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے مزید فنڈز درکار ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس مقصد کے لئے فنڈز مل جانے کے باوجود یہ تقاضا جاری رہتا ہے۔ آپ ذرا یاد کریں کہ گزشتہ بیس تیس برسوں میں کس کس حکومت نے پولیس کے ادارے کو کیا کیا فنڈز اور مراعات نہیں دیں، لیکن کیا امن و امان کی صورت حال میں کوئی بہتری کسی کو نظر آئی؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سیاست کی جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس محکمے یا ادارے کے معاملات کو دیکھیں، اس میں بد معاملگیاں نکل آتی ہیں۔ ان اداروں میں اصلاحات کا وقت گزر چکا، اب تو ان کی تشکیل نو وقت کا تقاضا بن چکا ہے۔ سو جب تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جاتا، اس وقت تک نہ تو ہماری شاہراہیں محفوظ ہو سکتی ہیں اور نہ ہی گلی محلے۔

مزید :

رائے -کالم -