مہا کلا کار افسر

Sep 18, 2025

محسن گواریہ

 چھوٹے بھائیوں کی طرح عز یز اچھے کالم نگار ملک سلمان کا فون آیا،،بھائی جان ٹک ٹاکر افسروں کے بارے میں تو آپ نے خوب لکھا،ان میں اکثر چھوٹے موٹے افسر ہیں مگر مہا کلاکار افسروں کو آپ بھول گئے ہیں، لگتا ہے ان کے ساتھ آپ کی دوستیاں ہیں؟یہ جو پنجاب کے بڑے بڑے محکموں کے سیکرٹری اور کمشنر لگے ہوئے ہیں،ان میں سے اکثر اربوں روپے بنا رہے ہیں،ان کو بھی ایکسپوز کریں، سیلاب نے ٹک ٹاکر افسروں کی تو فلمیں بنانے میں مدد کی مگر بڑے افسروں کی تو سیلاب نے قسمت بنا دی ہے، میں نے پوچھا وہ کیسے تو اس نے کہا یہ اگلے چند ماہ میں آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا،،میں نے تحمل کے ساتھ اس کی باتیں سنیں اوروعدہ کر لیا کہ سیلاب کے دوران اچھاکامنہ کرنے والے اور سیلاب زدگان کی امداد اور فنڈز میں ڈنڈی مارنے والے افسروں کو ضرور مل جل کر ایکسپوز کریں گے۔   

میں فون بند کرنے کے بعد سوچ میں گم ہوں کہ سیلاب اور سیلاب کے بعد کوئی اچھا افسر کیسے اتنا ظالم ہو سکتا ہے کہ وہ سیلاب زدگان کے لئے امداد اور فنڈز ہڑپ کرنے کا سوچے، چند روز پہلے ہی ایک ملاقات میں چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان بتا رہے تھے کہ سیلاب زدگان کی دوبارہ آباد کاری اور انہیں ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے فوری اقداما ت شروع کر دیئے گئے ہیں اور تمام پراسیس کو نہ صرف فول پروف بلکہ اس کی شفافیت پر بھی کوئی حرف نہیں آنے دیا جائے گا، مجھے ان کی باتوں اور کاموں میں اس وقت حقیقت محسوس ہوئی،جب کمشنر فیصل آباد راجہ جہانگیر سے فیصل آباد میں ملاقات ہوئی، وہ چنیوٹ میں سیلابی سرگرمیوں اور ریلیف آپریشن کا جائزہ لیکر ابھی واپس پہنچے تھے،انہوں نے بتایا کہ،،ان کے زیر انتظام تمام اضلاع میں کمیٹیاں بنا کر اعداد و شمار اکٹھے کرنا شروع کر دیئے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ فوری ریلیف بھی دیا جا رہا ہے، وہ تمام اضلاع میں نہ صرف خود نگرانی کر رہے ہیں بلکہ تھرڈ پارٹی ویری فیکیشن بھی ساتھ ساتھ ہو رہی ہے،، ان کے زیر انتظام اضلاع چنیوٹ،ٹوبہ اور جھنگ میں سیلابی پانی نے بہت تباہی مچائی ہے، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور چنیوٹ میں تعینات ڈپٹی کمشنرز نعیم سندھو اور صفی اللہ گوندل کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں،محنتی افسر ہیں،کمشنر راجہ کے ساتھ ملاقات میں ہمارے دوست ایوارڈ یافتہ صحافی مزمل سہروردی بھی موجود تھے جو سیلابی علاقوں میں اپنا ٹی وی پروگرام ریکارڈ کررہے تھے۔ میرے ساتھ کینیڈا اور فیصل آبادسے تعلق رکھنے والے پیارے دوست رانا افضال اور ایک بڑے صنعتکار میاں خرم افتخا ربھی تھے، میاں خرم افتخار نے کچھ سالوں سے اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کے لئے ”ابوا نالج سٹی“ کے زیر اہتمام ایک سٹیٹ آف دی آرٹ  میڈیکل کالج اور ہسپتال بنا رکھا ہے،وہ جلد ہی ایک جنرل اور میڈیکل یونیورسٹی بھی شروع کر رہے ہیں جو ایک بڑا کام ہے،اس پر تو ایک علیحدہ کالم بھی کم ہو گا۔

ابھی مہا کلا کارافسروں کی طرف چلتے ہیں، ایک وقت تھا، ہیٹ،ٹائی، انگلش،کافی اور سگار ایک بیوروکریٹ کی پہچان، اپ رائٹ،ہارڈ ورکنگ اور اکارڈنگ ٹو بک چلنا اس کی شان ہوا کرتا تھا، ہیٹ تو متروک ہو چکا اسکی جگہ ٹوپی نے لے لی ہے، مگر سگار، کافی اور انگریزی ابھی تک چل رہی ہے، فیلڈ کا افسر جیپ اور سیکرٹیریٹ کا افسر کار استعمال کرتا تھا، رشوت لینا تو دور کی بات اس پرایسا الزام بھی نہیں لگتا تھا،خلاف ضابطہ کام اس سے کرانا ناممکن بات تھی مگر اب حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بیوروکریٹ اور افسر بھی بدل گئے ہیں،آج کا بیورو کریٹ کس کس سانچے میں ڈھل چکا ہے اس پر ایک مکمل کتاب بلکہ کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں نظام حکومت آمرانہ رہا ہو یا جمہوری، دونوں میں بیوروکریسی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے بلکہ کسی بھی حکومت کی کامیابی کا دارومدار ہی بیوروکریسی پر ہے،جس حکمران نے بیوروکریسی میں سے چنیدہ افسر تلاش کر کے بہترین ٹیم تشکیل دی کامیابی نے ہمیشہ اس کے قدم چومے،ہماری خوش قسمتی کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے حصے میں آنے والی بیورو کریسی برطانوی حکومت کی تربیت یافتہ تھی،یہ وہ دور تھا جب بھرتی میرٹ پر ہوتی،خاص طور پر وہ افراد جن کی مدد سے انگریز کو اس خطہ میں مستحکم اور مضبوط حکومت کا قیام یقینی بنانا تھا،تعلیم یافتہ افراد کو تربیت کی بھٹی سے گزار کر انہیں کندن بنایا جاتا تھا،تقسیم کے وقت خزانہ خالی تھا،وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، مہاجرین کی آباد کاری ایک بڑا مسئلہ تھا،مگر نو آزاد ملک کی بیوروکریسی نے تمام انتظامی، مالی، سیاسی امور کو انتہائی مہارت سے سنبھالا اور مشکل ترین وقت میں اس کو ترقی خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا،ملکی دفاع اور سلامتی کو بھی یقینی بنایا،یہ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ افسروں کی وہ کھیپ نہ صرف تعلیم یافتہ تھی، بلکہ تربیت کے مراحل سے بھی گزری اور اپنے اپنے شعبے میں مہارت بھی ان کا خاصہ تھا،قواعد و ضوابط سے نا صرف آشنائی تھی،بلکہ ان پر سختی سے عمل کرنا اس وقت کی بیورو کریسی کی عادت بن چکی تھی،آئین کا احترام کیا جاتا، قانون کی پاسداری کی جاتی،افسر اپنے محکمہ کے رولز اینڈ ریگولیشن اور بائی لاز سے کما حقہ آگاہ ہوتے تھے،ان افسروں نے اپنے جونیئرافسروں کی جو کھیپ تیار کی وہ بھی بہترین تھی،جب تک امور مملکت بیورو کریسی کی اس جیسی کھیپ کے ہاتھ رہے ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر تیزی سے گامزن رہا،مگر جیسے ہی بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت،سیاستدانوں کے اثرورسوخ اور حکمران طبقہ نے غلبہ حاصل کیا وہ فورس جس کو انتظامیہ کا نام دیا گیا تھا اور امورِ مملکت کو چلانا جس کی ذمہ داری تھی وہ گروپوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی، نتیجے میں بیورو کریسی اور انتظامیہ کو مختلف نام دئیے جانے لگے وہ بھی طنزیہ،توہین اور تضحیک آموز،کسی نے افسر شاہی کا نام دیا تو کسی نے نوکر شاہی،کسی نے گورنمنٹ سرونٹ کا لقب دیا کسی نے پبلک سرونٹ، بھٹو دور میں بیوروکریسی کو گھر کی لونڈی بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی،حکمران پارٹی کے رہنماؤں کے زبانی احکامات نہ ماننے والے درجنوں افسروں کو گھر بھیج دیا اور باقی کو سبق دیا گیا کہ اب وہ ہو گا جو حکمران چاہتے ہیں، جس کے بعدبیوروکریسی میں ایک ”جی حضوری گروپ“وجود میں آیا،پیپلز پارٹی کا المیہ یہ تھا کہ وہ عوام کے مینڈیٹ سے ایک منشور کے ساتھ اقتدار میں توآگئی تھی، مگر منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کے پاس ایکشن پلان نہ تھا، اقدامات بیوروکریسی کے ذریعے کئے گئے،تب بیوروکریسی کو بھی سمجھ آئی کہ نوکری کرنے کے لئے ”باس از آل ویز رائٹ“ کا فامولا درست ہے اس لئے سیاسی باس جو کہے اس پر صرف ”یس سر“ کہنا ہے،نتیجے میں جی حضوری گروپ خوب پنپا،پلا بڑھا اور اب تو یہ گروپ جوان اور پختہ کار ہو چکا ہے،مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اچھے افسر ناپید ہیں،یہ اب بھی موجود اور مہا کلاکاروں پر بھاری ہیں۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں