ہماری منتقم مزاج جمہوریت

ہماری منتقم مزاج جمہوریت

  

یوں تو جمہوریت کے بہت سے پہلو بیان کئے جاتے ہیں، لیکن 2008ءمیں اس کا منتقم مزاج روپ سامنے آیا ۔امریکہ میں ”انتقامی کارروائی“ کرتے ہوئے جمہوریت نے نسل پرستی کے جذبات کو کچل کر رکھ دیا اورامریکی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام کو وائٹ ہاﺅس میں بطور صدر داخل ہوتے دیکھا گیا۔ اِسی طرح فروری 2008ءکے انتخابات میں جمہوریت کی اسی انتقامی جہت نے پاکستان پر بھی وار کیا ،جب دوسال چلنے والی وکلاءکی تحریک اور سول سوسائٹی کی جدوجہد کے بعد ایک فوجی آمر کے آٹھ سالہ توہین آمیز دور کا خاتمہ ہوا.... تاہم پاکستان میں جمہوریت کے ہاتھوں لیا گیا انتقام اپنے امریکی ”ہم منصب “ سے مختلف تھا۔ امریکہ میں جہاں اس کے ہاتھوں نسل پرستی کے ایک دور کا خاتمہ ہوا تھا، پاکستان میں اس نے غیر ملکی سرپرستی میں طے پانے والے این آر او زدہ ٹولے کو ملک پر مسلط کر دیا۔ آٹھ سالہ آمریت کے بعد اصل جمہوریت کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں پتھرا گئیں، کیونکہ اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھ آگیا تھا، جن کے پاس ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لئے نہ تو اہلیت تھی اور نہ ہی اُن کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔

این آراو زدہ حکمرانوں کے پانچ سالہ دور میں نہ تو ہمارے ملک میں جمہوری قدریں جڑ پکڑ سکیں اور نہ ہی لوگ کسی قسم کی سماجی اور معاشی تبدیلی کے اثرات دیکھ سکے۔ اس کی بجائے لوگ خوفزدہ نظروں سے ملکی تاریخ کی ناقص اور نا اہل ترین حکومت کے ہاتھوں ملک کو نازک حالا ت کا شکار ہوتے دیکھتے رہے۔ آج حالت یہ ہے کہ ملک میں سیاسی بحران ، معاشی عدم استحکام اور لاقانونیت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ خوراک کی کمی ، توانائی کے بحران، بڑھتے ہوئے تشدد اور ملک گیر لاقانونیت کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی انتہائی کسمپرسی کے عالم میں گزررہی ہے۔ ہماری معاشی حالت انتہائی ابتر ہے،جبکہ عالمی سرمایہ کار اور قرض دینے والے ادارے ہم پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ناقص انتظامیہ کی وجہ سے یہ ملک چوروں ، لٹیروں، منافع خوروں، قاتلوں اور بھتہ خوروں کی جنت بن چکا ہے ۔ دُنیا کا کوئی ملک قرض نادہندگان، جعلی ڈگری والوں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو اس طرح معاف نہیں کرتا، جس طرح ہمارے ملک میںہوتا ہے اور نہ ہی دھوکہ دہی، چور بازاری، بلیک مارکیٹنگ، سرکاری محصولات کی عدم ادائیگی اور اپنی سیاسی حیثیت استعمال کرتے ہوئے کاروبار کو وسعت دینے کی ہماری جیسی مثال دُنیا میں کہیں موجود ہے۔

ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، اس وقت ہم عالمی سکرین پر ہر قسم کی خرابیوں کے قریب ترین ”معیار “ پر ہیں۔ افسوس، آج پاکستان کی واحد شناخت دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ہم ان خون آشام عفریتوں کے پنجوں میں اُس وقت پھنس گئے، جب سیاسی جغرافیائی حالات نے پاکستان کو غیر معمولی طوالت کی حامل دونوں افغان جنگوں میں ایک اہم فریق بنا دیا۔تاریخ کے وسیع تر منظر نامے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھیلاﺅ کی عمومی وجوہات بہت سی ہیں، لیکن دو فوجی حکومتوں.... ضیاءالحق کے 11 سال اور پرویز مشرف کے نو سال .... پر اس کی بالخصوص ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ دونوں حکمران مغربی طاقتوںکے ”چہیتے “ رہے ہیں.... تاہم گزشتہ پانچ سال کے دوران دہشت گردی اور انتہا پسندی ہمارے واحد مسائل نہیں تھے۔ گزشتہ حکومت نما نااہلی اور بدعنوانی کا شکریہ ، کہ ہم ان کی بدولت داخلی محاذ پر اس طرح کی اور بہت سی خرابیوں میں اُلجھ گئے، چنانچہ آج دہشت گردی ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

 اب، جبکہ پوری دُنیا 2014ءمیں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد امن کے امکانات پر غور کر رہی ہے، ہماری سیاسی قیادت کے پاس اپنے ملک میں امن قائم کرنے کی کوئی حکمت ِعملی نہیںہے۔ ان کی تمام تر چالبازیوں اور سیاسی حکمت ِ عملی کا محور ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے عالمی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیںہے۔ بدنام ِ زمانہ ”میمو گیٹ “ ان حکمرانوں کے ”سٹرٹیجک تصور“ کی غمازی کرتا ہے.... گزشتہ سال استحقاق یافتہ طبقے نے ،جو جمہوریت کی آڑ میں اپنے مفادات کا تحفظ کررہا ہے، ریاست کے دو اہم ستونوں، میڈیا اور عدلیہ، جو عام آدمی کے لئے اس لوٹ مارکرنے والے ٹولے کے خلاف امید کی آخری کرن ہے، کو ایک سکینڈل میں ملوث کرتے ہوئے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح انتقام پر تلی جمہوریت ان دو اہم اداروں پر حملہ آور ہوئی، چونکہ اس سکینڈل میں اتنی جان نہیں تھی، اس لئے ان کو مطلوبہ کامیابی تو نہیں ملی، لیکن کچھ دیر کے لئے ان پر عوام کا اعتماد ضرور متزلزل ہوتا محسوس ہوا۔ یہ ملک کے مستقبل سے کھیلنے کی ایک بھیانک سازش تھی، کیونکہ یہ دو نوں ستون بدعنوانی کو بے نقاب کرتے ہوئے ملک کے مستقبل کا تحفظ کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔

اگر ہم موجودہ سیاست پر نظر دوڑائیں ،تو ان سیاسی خاندانوںکے جو صاحبزادگان گزشتہ انتخابات میں میدان میں کودے....(جو باقی رہ گئے ہیں وہ آنے والے انتخابات میں آجائیںگے) ....تھے، ان کی عیش و عشرت کی چکا چوند داستانیں ملک کے مستقبل کو مزید تاریکی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ہمارے بدعنوان حکمران جمہوری اور آئینی اقدار کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے ہنر میں یکتا ہیں۔ اس کی ایک جھلک موجودہ نگران سیٹ اپ کے چناﺅ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ آج کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے باور ہوتا ہے کہ گزشتہ تین آئینی ترامیم دراصل ان آنے والے انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لئے کی گئی تھیں۔ پی پی پی کی سابقہ حکومت نے نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا چناﺅ کرنے کے لئے ایک نہایت قابل ِ اعتراض طریقہ وضع کیا.... چونکہ نگران حکومت نے تازہ انتخابی عمل کی نگرانی کرنا تھی، اس لئے اس کے ساتھ سیاسی عہدوں کو قائم رکھا گیا۔

 دُنیا میںکہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ چار یا پانچ افراد کے ٹولے کو، جو سیاسی جماعتوںکے نمائندے ہوں، انتخابی عمل کا نگران بنا دیا جائے۔ ایسا کرنا جمہوریت کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ یہ خودغرضی کی انتہا ہے کہ سیاسی عمل کو چند افراد کی دولت میں اضافے اور اس کے ”آئینی “تحفظ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی جا چکی ہے، جس میں بیسویں ترمیم کے تحت وفاقی و صوبائی سطح پر نگران سیٹ اپ قائم کرنے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دیئے گئے اختیارات کو چیلنج کیا گیا ہے.... (مجوزہ ترمیم کے تحت اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایسا کرنے میں ناکام رہیں،تو الیکشن کمیشن خود فیصلہ کرنے کا مجاز ہے).... اس پٹیشن میں یہ نکتہ اُٹھایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224-A کی ذیلی شق 9(3) کے تحت قومی اسمبلی اپنے اختیارات الیکشن کمیشن کو نہیں سونپ سکتی۔ پٹیشن میں الیکشن کمیشن کی جانبداری پر بھی اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں۔

گزشتہ دنوں ،جس طرح آئین کے آرٹیکلز 62-63 کے تحت انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتا ل، جو ایک نہایت اہم اور سنجیدہ نوعیت کا عمل ہوتا ہے، کی گئی، اُسے کسی بھی حوالے سے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس مزاحیہ ڈرامے نے الیکشن کمیشن کی قوت ِ فیصلہ اور قومی الیکشن جیسے سنجیدہ عمل کے لئے کی گئی پلاننگ کا بھرم کھول دیا۔ اگر ریٹرننگ افسروں کو مناسب تربیت او ر ہدایت دی جاتی، تو جس ڈرامے پر دنیا میں ہماری ہنسی اُڑائی جا رہی ہے، اُس سے اجتناب کیا جا سکتا تھا۔ اس میں دو آراءنہیں ہیں کہ انتخابی امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال بلاتفریق ، لیکن آئین میں درج معیار کے مطابق ہونی چاہئے، چنانچہ امیدواروںسے معلومات ِ عامہ کے سوالات پوچھنے کی بجائے اُن کے کیسوں کو آئین میں درج نااہلی کے پیمانے پر پرکھنا چاہئے تھا۔ فی الحال الیکشن کمیشن نے ، جس کی قوت ِ فیصلہ ہنوز سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، سول سوسائٹی کی بات پر کان دھرتے ہوئے ایک اچھا فیصلہ کیا جو بیلٹ پیپر میں ایک خالی خانے کا اضافہ تھا۔ یہ سول سوسائٹی کو ایک موقع دیتا ہے کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کو پسند نہیں کرتی ہے تو اس خالی خانے پر نشان لگا کر انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہارکردے۔ اس عمل کو ملک کو روایتی موروثی سیاست سے نجات دلانے کی طرف ایک اچھی پیش رفت قرار دیا جا سکتا تھا، لیکن افسوس، الیکشن کمیشن نے اس اچھے فیصلے پر استقامت نہ دکھائی اور سیاست دانوں اورکچھ صحافی حضرات کی تنقید کی تاب نہ لاتے ہوئے اسے مو¿خر کر دیا۔

جہاں تک نگران حکومت کا تعلق ہے تو اُن کا اختیار صرف صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ہے۔ وہ نہ تو اہم فیصلے کر سکتے ہیں اور نہ ہی گزشتہ حکومت کی بنائی گئی پالیسوں یا کئے گئے فیصلوں یا جاری منصوبوں کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس وقت ان کو ذاتی دلچسپیوں ، جیسا کہ بسنت کے تہوار منانے یا دیگر ثقافتی شو منعقد کرنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے۔ ان معاملات کو آنے والی حکومتوں پر چھوڑ دیا جائے ۔ ہاں اگر نگران سیٹ اَپ کے بس میںکچھ ہے تو وہ عوام کو درپیش مسائل ، جیسا کہ مہنگائی، جرائم ، لاقانونیت، خوراک کی قلت، توانائی کی کمی وغیرہ، میں کمی لانے کے لئے اگر کچھ کر سکتی ہے، تو کر لے۔ اس کے علاوہ اُن کو سرکاری گاڑیوں کے بھاری بھرکم کارواں کے ساتھ فیتے کاٹنے ، شادی بیاہ کی تقریبات یا ثقافتی تہواروں میں بھی نہیں جانا چاہئے۔ اُنہیں غالباً ملک کی معاشی حالت کا اندازہ ہوگا۔

اس افراتفری کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک سابق آمر بھی میدان ِ سیاست میں کود پڑا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اُن کو کس نے اور کس مقصد کے لئے بھیجا ہے۔ اگر ہو سکے تو عدلیہ کو بیرونی دُنیا سے پاکستان کے داخلی معاملات میں ہونے والی مداخلت اور اس میں بننے والے آلہ ¿ کار افراد کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔این آر او کو غیر آئینی قرار دے چکنے کے بعد سپریم کورٹ کو غیر ملکی طاقتوںکے ایما پر کی جانے والی اِسی قبیل کی دیگر کوششوں کا راستہ بھی روکنا چاہئے۔ مغربی ممالک کے علاوہ ہمارے کچھ برادر اسلامی ممالک کو بھی ہماری داخلی سیاست میں دخل اندازی کا بہت شوق ہے اور وہ اس کے لئے ہمارے ہاں اپنے مہرے بھیجتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک ”برادر ملک“ تو ہمارے ہاں سے فرار ہونے والے سیاست دانوں اور قومی مجرموں کی مستقل جائے پناہ بن چکا ہے۔فی الحال ایک وفاقی وزیر اور اوگرا کے سابق چیف عدالتی احکامات کے باوجود ان ممالک میں سے ایک میں مہمان نوازی کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔        ٭

نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔

مزید :

کالم -