وفاقی محتسب اعلیٰ کی چار سالہ کارکردگی
وفاقی محتسب اعلیٰ نے 2016 ء کی سالانہ رپورٹ مارچ 2017ء میں صدر پاکستان کو پیش کر دی گئی ۔ اس رپورٹ کی خصوصیت یہ تھی کہ رپورٹ گزشتہ چار سال کی مکمل کارکردگی کا بہت خوبصورتی سے احاطہ کرتی ہے ۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ گزشتہ چار سال میں اس دفتر نے تین لاکھ سے زائد خاندانوں میں، جس طرح انصاف بانٹا ہے، اُس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے۔اگر گزشتہ تیس سال کے لئے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے، تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ چار لاکھ چونسٹھ ہزار تین سو چالیس (464340) کے مقابلے میں 2016ء میں 310172فیصلے کئے گئے ۔ اپنی چار سالہ کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے، وفاقی محتسب سلمان فاروقی اپنی کینسر جیسی خطرناک بیماری اور اس سلسلے میں ایک سال کی غیر حاضری کے باوجود اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے گزشتہ برسوں کی جمع شدہ درخواستوں کے ملبے کو جس طرح صاف کیا، وہ اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور 50 سال سے زائد سرکاری نوکری کے تجربے کا حاصل تھا ۔ بقول اُن کے اس کارکردگی میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور ان کے ساتھ کام کرنے والے اُن افسران کی شب و روزکی کاوش کا دخل رہا ہے، جو پاکستان میں غریب، بے کس اور لاچار لوگوں کی وفاقی اداروں کے خلاف شکایات کے حل میں پیش پیش رہے اور ہر سال اپنی گزشتہ سال کی کارکردگی کو خوب سے خوب تر بناتے رہے۔اپنی رپورٹ میں صدر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے سلمان فاروقی نے اُ ن کی رہنمائی اور سپورٹ کو بھی سراہا اور اس سلسلے میں وفاقی اداروں کے تعاون کی بھی تعریف کی، جنہوں نے اُ ن کے کئے گئے فیصلوں کو نہ صرف عملی جامہ پہنایا، بلکہ خوش اسلوبی سے اپنے دفاتر کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے عملی اقداما ت کئے۔
گزشتہ برسوں کی کارکردگی سے قطع نظر وفاقی محتسب اعلیٰ نے تیزی سے فیصلوں کے عمل کو بڑھایا اوربرسوں کے فیصلے دنوں میں کئے جانے لگے۔انسٹی ٹیوشنل ریفارمز ایکٹ نے وفاقی محتسب کے دفتر کو صحیح معنوں میں جلا بخشی اور اس ایکٹ کی بدولت، جس میں پارلیمنٹ نے غور و خوض کے بعد 1983 ء صدارتی ایکٹ، جس کے تحت یہ ادارہ معرض وجود میں آیا، پائی جانے والی خامیوں کا بطریق احسن جائزہ لے کر ایسی ترامیم کیں، جس نے اس دفتر کی کارکردگی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔2013 ء کے ریفارمز ایکٹ نے تمام تر فیصلے 60 دنوں میں، جبکہ نظر ثانی 45دنوں میں اور صدر مملکت کو اپیلوں کے فیصلے 90دنوں میں کرنے کا پابند بنا دیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے فیصلوں کے لئے کوئی ٹائم لائن متعین نہیں کی گئی تھی ۔ اس دفتر کی موجود ہ غیر معمولی کارکردگی درحقیقت پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر تیزی سے منظور شدہ 2013 ء ایکٹ کی مرہون منت رہی،جس کا اندازہ 2016ء میں 102780شکایات کے ازالے کی صور ت میں نظر آتاہے ۔
یہاں یہ بات بھی باعث اطمینان اور خوبی کی حامل ہے کہ 80فی صد شکایات باہمی رضامندی سے نمٹائی گئیں، جہاں محکمے اور شکایات کنندہ نے فیصلے پر اتفاق کیا اور دستخط کئے۔فیصلوں کے خلاف اپیلیں صرف ایک فی صد کی جاتی رہیں اور صدر مملکت نے 90فی صد فیصلوں کو توقیر بخشی۔جہاں 2013ء کے 75000فیصلوں کو نمٹایاگیا،جووفاقی محتسب کی ایک سال کی رخصت جو کینسر کی بیماری کی وجہ سے لی گئی تھی،اس کی وجہ سے لکھئے ہوگئے تھے،وہاں 2015ء میں ایک بھی کیس ایسا نہیں تھا، جو زیر التواہو، یعنی نہ صرف زیر التوا شکایات کا ازالہ تیزی سے کیا گیا ،بلکہ 2014ء اور2015ء میں نئی شکایات کو بھی مکمل ٹائم فریم میں تیزی سے نمٹا دیا گیا، جو فیصلے 60دنو ں میں کئے جارہے تھے،اب وہی فیصلے50 دنوں میں ہونے لگے۔ یہاں پر اس دفتر کی ایک اور کامیابی کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا، جب انصاف لوگوں کو اُن کی دہلیز پر ملنا شروع ہوگیا ۔ 2016ء میں سلمان فاروقی نے 133ضلعوں (Districts)اور 511 تحصیلوں میں شکایات کو 15 دنوں میں نمٹانا شروع کر دیا اور وفاقی محتسب اعلیٰ کے مرکزی دفتر اور علاقائی دفاتر سے ایڈوائزر، سینئر ایڈوائزرز نے ضلع اور تحصیل میں جاکر فیصلے کرنے شروع کئے، جس سے شکایت کنندہ کا کرایہ اور قیمتی وقت جو دفاتر جاکر ضائع ہوتا تھا، وہ اُن کی دہلیز پر پہنچانے سے بچ گیا ۔
وفاقی محتسب اعلیٰ کے دفاتر ان شکایات کا ازالہ کرتے ہیں،جو فیڈرل گورنمنٹ کے اداروں کی بد انتظامی، نااہلی، کرپشن یا غفلت کی بناء پر ہوتے ہیں، لیکن ایسے فیصلے جس تیزی سے نمٹائے گئے اور لوگوں کو سستا انصاف، جس میں نہ تو کسی وکیل کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کو ئی کورٹ فیس یا اسٹامپ پیپر کی اور درخواست بھی سادہ کاغذ پر کسی بھی زبان میں خود ، فیکس کے ذ ریعے ، ای میل کے ذ ریعے یا آن لائن دی جا سکتی ہے۔یقیناًموجودہ حالات میں ایسے ادارے کا مقبول ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ وفاقی محتسب اعلیٰ سلمان فاروقی نے اپنی پیرانہ سالی کے اور بیماری کے باوجود یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر عزم، قوت ارادی اور نیک نیتی ہو تو مشکل منزلیں بھی آسان ہو جاتی ہیں ۔اس بات میں قطعاًکوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ اس ادارے نے نہ صرف زیر التوا لاکھوں کی تعداد میں کیسوں کے فیصلوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا، بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر جیلوں اور تھانوں میں عام لوگوں، خصوصاً عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی خوب سدباب کیا۔ ایس ایم ظفر اور عاصمہ جہانگیر کی سر پرستی میں جیلوں میں عورتوں اور بچوں سے ہونے والی بد سلوکیوں کا نوٹس لیا گیا اور دماغی معذور قیدیوں کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے سویٹ ہومز بنائے گئے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب کو ہدایت کی تھی کہ وہ نہ صرف شکایات کے فیصلے کریں، بلکہ موجودہ نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو اُجاگر کریں اور اُ ن کے تدارک کے لئے مفید مشورے اور رپورٹیں حکومت کو پیش کریں۔انور ظہیر جمالی سابق چیف جسٹس نے جیلوں کی حالت زار پر پیش کردہ کمیٹی کی رپورٹ پر اس ادارے کو خراج تحسین پیش کیا اور بر ملا کہا کہ ملک میں اب بھی کچھ ایسے ادارے موجود ہیں جو کامیابی سے چل رہے ہیں ۔
گزشتہ چار برسوں کے دوران کی جانے والی اصلاحات اور کامیابیوں کاذکر اگر تفصیل سے کرنے لگوں تو شائد زور قلم جواب دے جائے، مگر ہمارے ملک کے آٹھ انٹر نیشنل ایئر پورٹس پر ایسے ڈیسک بنائے گئے، جس سے بیرون ملک رہنے والے 8.4 ملین لوگ، جو کثیر زرمبادلہ اس ملک کو بھجواتے ہیں، بے حد استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ اگر کسی بھی بیرون ملک میں رہنے والے پاکستانی کو ہمارے ملک میں کسی محکمے سے کوئی شکایت ہو، تو وہ آن لائن 1055پر اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے۔ سلمان فاروقی کی ہدایت پر بیرون ملک تمام سفیروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہفتے میں کم از کم ایک دن پاکستانی لوگوں کی شکایات سنیں۔پی آئی اے کی بیرون ملک سے آنے والی پروازوں پر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر اُن کو کسی قسم کی شکایت پی آئی اے ، کسٹمز ، امیگریشن وغیرہ سے ہو تو وہ ہوائی اڈے پر موجود ون ونڈو آپریشن سے رجوع کر سکتے ہیں ۔یہاں پر میں ورلڈ بینک کی اُس سروے رپورٹ کا بھی ذکر کرتا چلوں جس میں انہوں نے وفاقی محتسب کے ادارے کی افادیت اور کامیابی پر سروے کیا۔ 89فی صد لوگوں نے اس ادارے کی کارکردگی کو Good یا Very Good سے تعبیر کیا اور اس ادارے کی 60دنوں میں شکایت کے ازالے میں 100فی صد کامیابی کا ذکر کیا، بلکہ اس ملک میں موجود اداروں میں سب سے بہتر ادارہ قرار دیا۔اس ملک کے پینشنروں کی حالت زار کو بہتربنایا اور محکموں کو ایک ماہ کے اندر اندر پنشن کی ادائیگی کے حکم صادر کئے۔ اے جی پی آر ، ریلوے ، اسٹیٹ لائف ، پوسٹ آفس ، نیشنل سیونگ سینٹر اور دیگر اداروں میں بہتری کے لیئے رپورٹس تیار کی گئیں،جس سے ان محکموں کی کارکردگی میں گرانقدر اضافہ ہوا۔
آخر میں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ جس طرح وفاقی محتسب کے ادارے نے بجلی اور گیس کے محکموں کے ستائے ہوئے ہزاروں لوگوں کو ریلیف اور انصاف دیا ہے، وہ اس حکومت کے لئے اس ادارے کی بہت بڑی خدمت ہے۔بچوں او ر خواتین کے ساتھ اس ملک میں ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے ازالے کے لئے 13تشکیل دی گئی ہیں ۔ ان کمیٹیوں کے ذمہ ایسے واقعات کا نوٹس لینا ہے ، جہاں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہو۔ کمیٹیاں سوموٹو نوٹس بھی لے سکتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے سربراہ، جو معاشرے میں اچھی شہرت کے حامل او ر میڈیا ، سول سوسائٹی، مقننہ ، این جی اوز سے وابستہ رہے ہوں،اُن کو ان کمیٹیوں کا سربراہ بنایا گیا ہے، جن میں مشہور قانون دان ایس ایم ظفر ، بیگم شہناز وزیر علی ، ہمابقائی ، فرزانہ باری، بیگم ثمر من اللہ ، اور چیف جسٹس ریٹائرڈ منظور حسین گیلانی وغیرہ شامل ہیں ۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے، پاکستان میں بچوں کے وفاقی محتسب کا تقرر تاحال نہیں ہوسکا، لہٰذا ان حالات میں ایسے افراد پر مشتمل کمیٹیوں کا قیام جو گم شدہ بچوں کے خلاف نوٹس یا بچوں کے خلاف جرائم میں پولیس کا ایف آئی آر درج نہ کرنا، بچوں کو بیرون ملک سمگل کرنا، دارلامان میں بچوں کے خلاف نا انصافیوں اور کالجوں میں داخلے کے سلسلے میں پائی جانے والی شکایتوں کا ازالہ کرنا، جیسے شکایات کے تدارک کے لئے نہایت مثبت اور مفید اقدام ہے۔وفاقی محتسب اعلیٰ نے گذشتہ چار برسوں کے دوران اپنی بیماری کے باوجود جس طرح اس ادارے کی کارکردگی کو حکومت وقت کے لئے مشعل راہ بنایا ہے، ان حالات میں حکومت کو کم از کم اُن کی خدمات کے سلسلے میں بہترین وفاقی محتسب کا ایوراڈ ضرور دینا بنتا ہے۔